فیض، لاہور اور یاد غزال چشماں  


ایک تحریر کا موضوع فیض احمد فیض کے لندن میں آخری ایام ہوں۔ لکھنے والے خالد حسن ہوں اور انگریزی تحریر کو قرۃ العین حیدر نے اردو کے روپ میں ڈھالا ہو تو پھر یہ کہنے کی ضروت باقی نہیں رہتی کہ اس تحریر کو پڑھنا چاہیے۔

\"fais-ahmed-640x480\"فیض صاحب اقبالؒ کے بہت زبردست معتقد ہیں لیکن زندہ پائندہ اقبال کے، اس اقبال کے نہیں جسے قلم فروشوں، بوگس ناقدوں اور خود ساختہ نظریہ پرستوں نے ایک قدیم ڈھانچے میں تبدیل کر دیا ہے۔ فیض صاحب اکثر کہتے ہیں کہ وہ ایک طویل دیباچے کے ساتھ انتخاب اقبال شائع کریں گے۔ ان کا کہنا ہے ” اسلام اور دوسرے بنیادی سوالات پر علامہ مرحوم کے اصل نظریات ان کے خطبات میں ہیں جنہیں انہوں نے انگریزی میں قلمبند کیا تاکہ وہ رجعت پسندوں کی دسترس سے باہر رہیں۔“ گو اب رجعت پسندوں کی اکثریت ہمارے ہاں انگریزی بولتی ہے!

فیض صاحب نے ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ ان کے بچپن میں ان کے والد ان کو انجمن اسلامیہ سیالکوٹ کے سالانہ جلسے میں لے گئے تھے۔ علامہ اقبال بھی اسٹیج پر جلوہ افروز تھے۔ فیض سے تلاوت قرآن کروائی گئی ” میں اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے ایک اونچی میز پر کھڑا کیا گیا۔ جب میں تلاوت کر چکا تو اقبال نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا تم کتنے زہین اچھے بچے ہو۔ میرے والد کو علامہ مرحوم سے نیاز حاصل تھا۔“

فیض بہت تنہا ہیں۔ انہیں پاکستان بیحد یاد آتا ہے پچھلے چند برسوں میں دوسرے ملکوں میں انہوں نے جتنے آفر ٹھکرائے ہیں وہ ان سے کمتر انسانوں کو للچا سکتے تھے۔ گزشتہ سال دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی ان کو وزٹنگ پروفیسر شب قبول کرنے کے لئے مصر رہی انہوں نے مستقل انکار کیا۔” ہندوستان تھوڑے دنوں کے لئے جانا دوسری بات ہے “ انہوں نے مجھ سے کہا“ لیکن اس قسم کی پیش کش قبول کرنا ہمیشہ کے لئے خود اختیاری جلاوطنی اختیار کرنے کے مترادف ہو گا۔

پچھلے سال ہی راقم الحروف کو بھی کسی نے دہلی بمبئی میں ایک ملازمت تجویز کی تھی میں نے فیض سے پوچھا کہنے لگے ” نہیں ایسا نہ کرنا چاہیے آئس لینڈ چلے \"8304563_orig\" جاﺅ لیکن ایک فعہ اگر تم نے ہندوستان میں کوئی ملازمت کر لی تو تم پاکستان سے بندھے اپنے نال کے رشتے کو قطع کر دو گے۔“

پچھلے سال ایک روز فیض نے مجھے فون کیا کہ ان کو پک اپ کر لوں۔“ بھئی کل آجانا۔ ہاں بھئی کوئی گیارہ بجے“ وہ ہیرڈز کے قریب ماجد علی کے ہاں مقیم تھے۔ فیض کو میں نے کبھی شاپنگ کرتے نہیں دیکھا۔ لندن آئے ہوئے کسی پاکستانی کے لئے کہا کہ وہ خریداری نہیں کرتا اسے یقینا نوبل پرائز کا حقدار بنا سکتا ہے۔

میں وقت مقررہ پر پہنچا ”چلو پکچر دیکھ آئیں“ فیض صاحب بولے۔ میں حیرت زدہ رہ گیا کیونکہ میں نے کبھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ آپ سینما بھی دیکھتے ہیں۔ ”آپ سینما عموما نہیں دیکھتے نا ۔ میر امطلب ہے کہ “ میں نے ہڑبڑا کر دریافت کیا۔ معلوم ہوا کہ بیروت میں کسی اور دلچسپی کے فقدان کی وجہ سے موصوف کو سینما دیکھنے کی عادت پڑ گئی ہے۔

اب ہم گھر سے نکلے۔ مگر ہر جگہ پکچر شروع ہو چکی تھی۔ یا بہت دیر میں شروع ہونے والی تھی اسی طرح آوارہ گردی کرنے ہم نے خود کو بوسٹن روڈ پر پایا طے کیا کہ کہ کچھ کھایا جائے۔ فیض صاحب بولے وہ ایک جگہ جانتے ہیں جہاں بڑھیا چاٹ ۔ حلوہ پوری اور اصلی پنجابی لسی ملتی ہے۔ چنانچہ ہم لوگ ایک ریسٹوران میں پہنچے کہ نام اس کا دیوانہ تھا۔ فیض صاحب نہایت محطوظ ہوئے۔ بھئی واہ کیا نام پایا۔ دوانہ !اور میں نے سوچا کہ اس لفظ ”دیوانہ“ نے اردو فارسی شاعری میں کس قدر ادھم مچائی ہے۔ اور بہ آفت جوتنے میں خود فیض کا کتنا بڑا ہاتھ تھا!\"17241426_303\"

فیض کی معیت میں انسان کو اجنبیوں سے نہایت پرتپاک علیک سلیک کی عادت پڑ جاتی ہے فیض سب سے اس طرح ملتے ہیں۔ گویا برسوں کا بارانہ ہے۔ نام یاد نہ رہے، چہرے کسی کے بھولتے نہیں۔

لندن میں پاکستان کے لئے ان کا نوسٹیلجیا زیادہ گہرا ہو جاتا ہے۔ وہاں کے لوگ۔ ریسٹوران پرانے امپریل ناتے۔ پاکستان خصوصا لاہور کے نوسٹیلجیا کے ارتفاع کی خاطر ایسی جگہوں پر جاتے ہیں جو بقول بی بی سی والے اطہر علی خالص مزنگ ہیں مشرقی لندن کا ” لاہور کباب ہاﺅس“ اس قسم کا ایک ”مزنگ“ ہے ماسکو میں ان کی سترویں سالگرہ منائے جانے والی تھی وہاں جاتے ہوئے لندند میں رکے تو فرمائش کی۔ لاہور کباب ہاﺅس چلو۔

مشرقی لندن میں میرے دو دوست رہتے ہیں۔ ڈار اور درانی۔ ڈار سیالکوٹ کا ایک لمبا تڑنگا خوبصورت کشمیری ہول سیل گارمنٹ ٹریڈ میں ہے۔ اپنے محلے کا دادا بھی ہے اور فیض بھگت بھی، میں نے فون کیا۔ رات گئے پہنچے مگر ڈار نے لاہور کباب ہاﺅس کھلوا دیا۔ لاہور کا سا لطف ا گیا۔ بس اس کی کسر تھی کہ لاہور میں ہوتے تو باہر نکل کر مولا بخش سے ایک ایک بنارسی پان بنوا کر کھاتے۔

اس سے قبل درانی ، کہ پوستین اور چرمی ملبوسات کا تاجر ہے ہم کو ایسٹ لندن کے مشہورمے خانے Jack The Ripper میں لے گیا تھا۔ یہ علاقہ جیک کے زمانے \"3f498d74-623c-4ad0-9bd7-b9e5843beee5\"سے اب تک زیادہ نہیں بدلا ہے۔ اندر ان اخبارات کے عکس آویزاں ہیں جن میں سٹرجیک کی سرجنوں جیسی مہمات کے ”کارناموں“ کی خبریں شائع ہوئی تھیں آج تک کسی کو معلوم نہیں ہوا۔ دیوانہ قاتل کون تھا۔ کیونکہ وہ کبھی پکڑا نہ جا سکا۔ لیکن اہل ایسٹ لندن نے اسے یاد رکھا ہے ہم نے اس کے نام کا جام پیا اور فیض نے اس نامور جٹلمین کے نام کی تختی کار نامون کی تفصیلات اور خبریں ملاحظہ کیں۔ ہم سب متفق تھے۔ کہ بہرحال وہ جٹلمین ضرور تھا۔ اور خطاب یافتہ! برطانوی اپر کلاس زندہ باد!!

”بائبل میں جو عمر طبعی لکھی ہے آپ اس کو پہنچ چکے“ میں نے کہا (فیض اپنی سترویں سالگرہ سے چند ہفتے قبل لندن آئے تھے) کسی نے دریافت کیا وہ خوش رو نوجوان خاتون کون تھیں جن کے ساتھ کل آپ لنچ نوش جان کر رہے تھے۔ ”اس سے قبل کہ اس خاتون کا اتہ پتہ بتاﺅں آپ حضرات کو آگاہ کرتا ہوں۔ کہ میں اس شعبے سے ریٹائر ہو چکا ہوں۔“ کسی نے ان کے اعلان پر کان نہ دھرا۔ عورتوں کو فیض صاحب نے ہمیشہ مسحور کیا۔

برطانیہ آ کر برمنگھم بھی ہمیشہ جاتے ہیں جہاں وہ ہمیشہ میاں بیوی بدر اور نسرین کے ہاں قیام کرتے ہیں۔ سلیم شاہد بھی برمنگھم میں موجود ہیں (پتہ نہیں کتنوں کو حفیظ ہوشیاری پوری مرحوم کی وہ غزل یاد ہے جو کہا جاتا ہے کہ سلیم شاہد یا رضی ترمذی یا دونوں نے انسپائر کی تھی یا ان کے نام معنون کی گئی تھی) ضیاءمحی الدین مع \"image3124\"ناہید اسی شہر میں ہے اور ٹیلی ویژن پر اپنا شو Here and Now پیش کرتا ہے۔ اس بار میں نے فیض صاحب کو برمنگھم لے جانے کی پیش کش کی۔ بولے ”آکسفورڈ کے راستے چلیں وہاں ایک ہمدم دیرینہ کو بھی دیکھ لیں گے۔ میں ہمیشہ ان سے ملنے کا ارادہ کرتا رہا ہوں۔

گیارہ بجے صبح لندن سے چلے برفباری شروع ہو گئی۔ اور میری کار میں ہیٹرز نہ تھے۔ سفر خاصا دشوار گزار تھا۔ مگر فیض صاحب نے پرواہ نہ کی (ایلس نے ایک بار بتایا کہ ایک رات بیروت میں ان کے پڑوسی کے مکان میں بم پھٹا فیض جاگے نظر دوڑا کر دیکھا کہ کمرہ صحیح و سالم ہے۔ اور فورا پھر سو گئے۔)

اوکسفرڈ کے اس پریشان کن راستے میں میں نے تاج ملتانی کی گائی ہوئی خواجہ فرید کی کافیاں کیسیٹ پلیر میں لگا دیں ہم کافیاں سنتے رہے اور برف گرا کی۔

اچانک فیض صاحب نے کہا ”یہ اعلی درجہ کی شاعری ہے۔“ جی ہاں اس میں ایک مصرعہے، عشق ہے ای سدا پیر“ میں نے کہا۔

فیض بہت متاثر تھے میں نے ٹیپ دوبارہ لگایا ”غور سے سنو۔“ فیض صاحب نے کہا تم کو پتہ چلے گا کہ پنجاب کے اس عظیم شاعر نے عربی اور فارسی الفاظ کس افراط سے استعمال کئے ہیں اس نکتے کو نجم حسین سید قسم کے لوگ نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اور پنجابی زبان کی تطہیر پر مصر ہیں ان کو ان استادوں کا کلام پڑھنا چاہیے۔

میں نے کہا ”خواجہ فرید نے ایک کافی میں ایک انگریزی لفظ بھی استعمال کیا تھا۔ دھکان دی اپیل ہے۔“ ”یہی تو بات ہے ساری“ فیض نے جواب دیا ”شاعری کے لئے اہم ترین شے شاعری ہے وہ نہ گرامر کا ماہر ہے نہ فرہنگ نویس ہے\"screpm\"

زبان اس کے لئے اوزار ہے ایک مصالحہ جسے وہ تخلیق کے لئے استعمال میں لاتا ہے زبان اس کے زیر نگیں ہے وہ زبان کا غلام نہیں۔

ہم صحیح و سالم اوکسفرڈ پہنچے۔ خواجہ فرئد نے برف کے جھکڑ میں ہمارا ساتھ دیا تھا منظر اور ماحول ان کے ان تپتے ریگستانوں سے اتنا مختلف تھا جہاں انہوں نے اتنی شدت احساس اور آب و تاب والی شاعری تخلیق کی تھی۔

ہم حبیب فیض کا مکان تلاش کرکے وہاں پہنچے وہ ایک معمر خاتون نکلیں جو دوران جنگ دلی میں رہ چکی تھیں برطانوی مصنف گائی ونٹGuywint سے شادی کر لی تھی شوہر کا چند سال قبل انتقال ہو گیا ان کی لڑکی اندرا جوشی مشہور ایکٹرس ہے۔

مسز ونٹ بہت دل پذیر خاتون تھیں بدھ مذہب اختیار کر چکی تھیں اوکسفرڈ میں بدھ ازم اور مذاہب کے تقابلی مطالعے کے مضامین پڑھاتی ہیں۔ گیان دھیان کی ماہر ہیں وہ اور فیض پرانے وقتوں کی باتیں کر رہے۔ ڈبل روٹی اور پنیر کھایا مسز ونٹ جوانی میں حسین رہی ہوں گی۔

”ہاں تھیں“۔ فیض نے بعد میں بتایا دلی میں خاصا تہلکہ مچا رکھا تھا“ برمنگھم میں بھی فیض صاحب کا قبیلہ زوروں میں جا رہا تھا آمد کی خبر پھیلی اور یار لوگوں کا تانتا \"prof-_desnavi_faiz_ahmed_faiz\"بندھ گیاOPEC کا ذخیرہ ختم ہو جائے گا مگر فیض صاحب کا فیضان محبت عام اور لامتناہی ہے۔ سترویں سالگرہ سے ذرا قبل میں نے اور اطہر علی نے فیض صاحب کے ساتھ ایک بڑی جذباتی شام گذاری۔ ہم نائٹس برج کے ایک شراب خانےTURKSHED گئے۔ وہ بڑاآرام دہPUB ہے جہاں جاڑوں میں آتش دانوں میں آج بھی لکڑی کے کنڈے جلائے جاتے ہیں۔ اس شام فیض کی شدید آرزو تھی کہ کاش وہ اس وقت لاہور میں ہوتے” بچیاں کیا کہتی ہیں؟ اطہر علی نے پوچھا جو کہتی ہیں زیادہ کارآمد نہیں ۔ کہتی ہیں جو آپ کی اصل مرضی ہو وہی کیجیے۔“

شام گذرتی گئی۔ فیض صاحب لاہور کو نہ بھول سکے۔”وہاں سب میرے دوست ہیں۔“عبداللہ ملک اور حمید اختر اور مظہر علی خان اور طاہرہ اور سید واجد علی کا تذکرہ کرتے رہے (واجد علی نے ایک مرتبہ سید عابد علی کی مدد سے فیض صاحب کو ”اعزازی شیعہ“ بنا دیا تھا کربلا گامے شاہ لے جا کر فیض کے اپنے تصنیف کردہ نہایت زوردار مرثیے پڑھوائے تھے اور بہت سے۔ لاہور ان کی ہڈیوں میں رچا ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ ان کے لئے ان کا روشنیوں کا شہر تھا اور رہے گا۔ میں نے کہا۔” آپ کو ہی احساس ہے لوگ آپ کو کتنا چاہتے ہیں۔ آپ محض ایک شاعر نہیں ہیں اس سے کہیں زیادہ بہت کچھ ہیں۔“

شام گہری ہو رہی تھی ہم اداس ہوتے جارہے تھے اور تب میں نے دیکھا فیض صاحب کی آنکھیں نم ہوئیں اور ان کی آواز بدل گئی۔

اچھا انہوں نے ذرا دقت سے کہا پتہ نہیں لوگوں کی محبت میرے حصے میں اتنی کیوں آئی\” One is only poet after all\” ہم خاموش رہے۔ فیض صاحب لاہور نہیں گئے ماسکو میں ان کا جنم دن منایا گیا بیروت میں ان کے جشن سالگرہ کا انتظام خود یاسر عرفات نے کیا لیکن وہ لاہور جانا چاہتے تھے پھر یہ معلوم کرکے بیحد متاثر \"51b9ed8be6cf1\"ہوئے کہ پاکستان خصوصاً لاہور میں ان کا جشن سالگرہ منایا گیا تھا۔

مجھ سے انہوں نے ایک مرتبہ کہا تھا۔

\”It is only that one has no fight left-It is only that i am not as

young as i once was,and it is difficult to take physical punishment when you are older-That soul is willing but the body is not


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments