میری تربیت کا ذمہ کون لے گا؟


\"farrah-ahmad\"عمرانیات کو شعبہ تعلیم کے طور پر موضوع چنا تو پتہ چلا کہ تربیت کے سات ادارے انسانوں کو معاشرے کا ایک فعال حصہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان اداروں کی ترتیب خاندان، مذہب، معیشت، سیاست، تعلیم ، میڈیا اور Peer Group(ہم جولی دوست) کے عنوانوں سے پتہ چلی۔

اب اگر یہ سات ادارے معاشروں میں انسانوں کو فعال بناتے ہیں اور ان کی کردار سازی کرتے ہیں تو پھر معاشروں میں بگاڑ، کا عنصر کہاں سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک ایک کرکے اگر ان اداروں کو پر کھا جائے تو احوال یہ ہے۔

خاندان: اس کی بنیاد ہی آج تک سمجھ نہیں آئی۔ ہم Nuclearمیں رہتے ہیں یا Jointمیں ۔ ویسے nuclearکی تعریف یہ تھی کہ میاں بیوی بچے اور خاندان میں ان کے پاس قوت فیصلہ سازی کا ہونا مگر ہم نے دیکھا خاندان تو لندن بھی جاکے بس جائیں تو فون تو پاکستان سے ہی جائے گا اور فیصلے بدل دیے جائیںگے۔ Jointمیں الگ طرح کے مسائل۔ تربیت کرنے والے دادا، دادی ،نانا، نانی اب Visitingنانا ، نانی اور دادا، دادی بن گئے، اب ان کے پاس بھی کہانیاں سننے کے لئے کہاں وقت بچا ہے ان کو تو کہتے سنا ہے بھئی ہم نے اپنا وقت گزار لیا ساری عمر اپنے بچے پالے اب کیا تم لوگوں کے بچے بھی پالیں اب ہم سے نہیں ہوتا۔ ہمارے آرام کے دن ہیں اور ماں باپ معیشت کے چکر میں دونوں گھر سے باہر کمانے میں مصروف کہ کسی طرح بچوں کی بنیادی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کرسکیں اور کچھ نہیں تو وقت پر بچوں کی سکول فیس اچھے سے ادا ہوتی رہے۔

مذہب اس کا علم نہ خود کو تھا نہ بچوں میں منتقل کرسکے تو مذہب مولوی کے حوالے کردیا۔ بچوں کو قاری صاحب کے حوالے کرکے لگا مذہب پہ احسان کردیا ۔ قرآن ایک بار ختم کرلیں مذہب کا حق ادا ہوگیا اور خود بھی تمام عمر نام نہاد فتوی دینے والے مولوی سے ڈرتے رہے اور بچوں کو بھی حتی الامکان مذہب کی پیچیدگی سے بازرکھا۔

معیشت اور سیاست اس کا چکر تو آج تک نہ سمجھ سکے۔ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے تو سڑکوں پر تب نکلتے کہ جب اس دن کی روٹی پوری ہونے کی فکر سے آزاد ہوتے ۔ اب حکمرانوں کے خلاف سڑک پر جائیںگے تو اس دن نوکری پہ کون جائے گا۔ سو روٹی کی فکر کرو بس۔ استاد اب کردار سازی کو Old Fashion Conceptسمجھتے ہیں اور ان کا فرض اب بنے بنائے نوٹس کو رٹانے کے بعد معاشروں کو بے روزگاروں کی ایک کثیر تعداد دینے میں مصروف ہے۔ تو گلہ کیوں کرتے ہیں معاشروں میں اخلاقی بگاڑ کا۔ استاد جس نے تعلیم میں آپ کی کردار سازی کرنی تھی اس کا مزاج یہ بن چکا کہ خبردار سوال کیا تو؟ میری کلاس میں تو کسی کی جرات نہیں کہ میرے آگے بول سکے۔ تو استاد صاحب جہاں سوال نہیں وہاں زوال شروع ہوجاتا ہے تو لگے رہیے معاشروں کو زوال کی طرف دھکیلنے میں اب رہ گئے دو ادارے میڈیا اور Peer۔ جب تک ہم انڈین ڈرامے دیکھ رہے تھے تو خاندانی سیاست سیکھ رہے تھے کہ کس طرح دیوارانی جٹھانی کان لگا کر ایک دوسرے کو سنتے ہیں ۔ کس طرح ساس بہو میں ازلی عداوت ہے۔ پھر ہم لے آئے ترکی کے ڈرامے تو ہم نے وہاں سے Dating اور Affairs جیسے Concept سیکھے اور سیکھا کیسے عشق ممنوع کو عشق Time Passمیں بدلا جاسکتا ہے۔ اب آئی ہم عمر دوستوں کی باری۔

ہم نے سب سے زیادہ ہم عمر دوستوں سے سیکھا ہے یہ وہ ادارہ ہے جو آپ کو سب سے زیادہ گنجائش دیتا ہے زندگی میں تجربات کو ”کرکے“ دیکھنے کی وہ تجربات جن کے بارے میں باقی سب ادارے صرف تقریر کر رہے تھے۔ دوستوں نے کہا چل یار کرکے دیکھتے ہیں ”یہ“ ہوتا کیا ہے مسئلہ یہ تھا کہ ان ہم عمر دوستوں کے پاس بھی آپ کی طرح ادھورا علم ہی تھا کیونکہ وہ آپ کا ہم عمر تھا اور ادھورا علم ہمیشہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ تو جو کچھ ہم نے سنا تھا کہ ٹھیک نہیں ہم عمر دوستوں نے کرکے دیکھنے کی جرات پیدا کی۔ ہمارے نوجوانوں نے بہت نقصان اٹھایا جب وہ تربیت کے لئے خاندان، استاد کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے۔ کیونکہ خاندان معیشت میں الجھا نظر آیا اور استاد منظر پہ تھا ہی نہیں۔

اب نوجوان سیکھے گا میڈیا سے اور ہم عمروں سے۔ گھر میں ٹی وی بند کروگے تو چائے کے کھوکھے سے جہاں سے اخلاقیات کا جنازہ اٹھتے آپ کئی بار دیکھ چکے اور دوست ادھورے علم کے ساتھ کیا تربیت کریں تو کڑھتے رہئے اپنی نسلوں پر اور اپنے نوجوانوں کو برابھلا کہتے رہے۔ ”ہمارے“ وقتوں کی اخلاقیات کے گن گاتے رہے۔ اور آج کے نسل کو بے راہ روی کا شکار کہتے رہئے اور معاشروں کے بگاڑ کا تماشا دیکھتے رہئے۔

فرح احمد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments