کرونا سے ہم نے کیا سیکھا؟


کرونا وائرس کہاں سے آیا، کیسے آیا اور کیا کیا تباہیاں پھیلا رہا ہے یہ بحث بہت ہو چکی آئیے دیکھتے ہیں اس سے ہم نے سبق کیا کیا حاصل کیے۔ کرونا نے ہمیں یاددہانی کرائی کہ ہم سب ایک سے ہیں۔ کیا چینی، کیا ایرانی، کیا اطالوی، کیا امریکی، کیا برطانوی، کیا بھارتی اور کیا پاکستانی ہم انسان ہیں۔ دنیا کے غریب ترین ملک میں رہنے والے ایک بے گھر انسان اور کرہ ارض پر موجود تمام بادشاہتوں میں سے تاحال قابل ذکر ترین بادشاہت کے چوبیس گھنٹے انتہائی حفاظت میں، ہاتھوں پر دستانے پہنے بیٹھے شہزادہ چارلس کو بھی کووڈ۔ 19 سے ایک سی ہی تکلیف ہوتی ہے۔ اور ہم نے ہی اس کرہ ارض پر ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے۔

کرونا نے احساس دلایا کہ ہمیں ایک دوسرے کو سپیس دینی چاہیے ہر انسان اپنی پرائیویسی اور اپنی دُھن میں جینا چاہتا ہے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جب تک ہمیں اپنی جان خطرے میں محسوس نہ ہو ہم خواہ مخواہ ہر ایک کی پرسنل سپیس کے دائرے میں گُھسنے کی کوشش کرتے رہیں۔

بظاہر ہم میں سے ہر کوئی اس لئے رات دن سرپٹ دوڑ رہا ہے کہ وہ یہ سب کچھ اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے کر رہا ہے۔ ہم میں سے اکثر کا صبح کے وقت گھر سے نکلنے کا وقت ہوتا ہے لیکن شام یا رات کو واپس گھر آنے کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔ ہمیں اس کرونا فیکٹر نے بتایا ہے کہ ہمارا ایک گھر بھی ہے بیوی، بچے اور فیملی ہے اُنہیں وقت دینا انتہائی ضروری ہے۔ اگر پانچ مرلے کا مکان ہے تو اسے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ انجوائے کر لو ورنہ دس مرلے، پھر ایک کنال اور پھر کئی کنال والے گھر کے حصول کی دوڑ میں جو ہے اُسے بھی انجوائے نہ کر سکو گے اور ایک روز موت والا فرشتہ آ دھمکے گا کہ ”چل بھائی، تیرا ٹائم پورا ہو گیا، شو ختم“۔

ہمیں اس کرہ ارض پر زندہ اور ہر ممکن خوش رہنا ہے نہ کہ دولت کے انبار لگانے کے لئے اپنے پاس موجود خوشیوں کو بھی یکسر بُھولے بیٹھے ہوں ہمیں اپنی بنیادی ضروریات زندگی کے لئے سر پر ایک چھت، بریڈ (روٹی) ، پانی، دودھ، انڈے، ٹشو پیپر اور چند انتہائی بنیادی چیزیں چاہیے باقی سب ہم اضافی بوجھ لادے جا رہے ہیں۔ جس کے اپنے اُوپر لادے جانے کی کوئی حد نہیں۔ کرونا کی بلا ٹل جانے کے بعد ہمیں اپنی زندگیوں کو اور اپنی ترجیحات کو ری ایڈجسٹ کرنا ہو گا کہ اب شہر تو شہر ہمارے دیہاتوں میں بھی روزانہ بڑی بڑی کمپنیوں کی گاڑیاں ڈبے والے دودھ، بریڈ، انڈے اور آئس کریم کی ڈلیوری کے لئے جاتی ہیں۔

کیا ہم سب اور بالخصوص دیہاتوں میں رہنے والے لوگ اپنے اپنے گھروں میں سبزیاں نہیں اُگا سکتے؟ کیا ہم میں سے اکثر جگہ ہونے کے باوجود مُرغیاں نہیں رکھ سکتے؟ کرونا نہ آتا تو ہم سب جس رفتار سے باہر کے کھانوں کے شیدائی ہوئے جاتے تھے ہمارے گھروں میں سے کچن اور کوکنگ کا وجود ہی ختم ہو جانا تھا کرونا نے اپنی مکروہ حرکتوں سے ہمیں ثابت کیا کہ جب ہم کسی ریسٹورنٹ کے ڈرائیو تھرو سے بھی چلتے چلتے کھانے کی کوئی چیز پکڑتے ہیں۔ تو اس کے ساتھ ساتھ اکثر اوقات کچھ ناپسندیدہ جراثیم بھی خرید لاتے ہیں۔

ہمیں معلوم ہوا کہ بہ امر مجبوری ہمیں کسی بھی جنگی حالت میں گھر پر کچھ پکانا پڑ جائے تو ہم میں سے اکثر انتہائی کورے ہیں۔ کرونا نے احساس دلایا کہ ہمارے گھر میں ہماری ماں، بہن، بیوی یا بیٹی کتنی محنت سے ہمارے لئے اور پورے پری وار کے لئے کھانا بناتی ہیں۔ اور ہمیں ان کا انتہائی شکر گزار ہونا چاہیے

کرونا نے ہمیں بتایا کہ ہمارے گھروں میں کام کرنے والے ملازم اور ان کے گھر والے بھی انسان ہیں۔ ان کی صحت اور سلامتی کی فکر بھی ہمیں تب ہوئی جب ہمیں یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ ان کو لگنے والی بیماری اُن سے ہمیں بھی ٹرانسفر ہو سکتی ہے۔ کرونا نے باور کرایا کہ ہمیں اپنے جسم کے اندر موجود بیماریوں سے لڑنے والی قدرتی قوت مدافعت میں اضافے کے لئے روزانہ کم سے کم سات سے آٹھ گھنٹے گہری نیند سونا ہے ورنہ ہم رات تین تین بجے تک پارٹی کر کے صبح سات بجے آفس کے لئے چل پڑنے کو اپنی بہادری سمجھتے تھے۔

کرونا نے ہمیں احساس دلایا کہ ہمارے ہاں ٹیکنالوجی کی مدد سے ہزاروں نہیں لاکھوں ایسی جابز ہیں جو ”ورک فرام ہوم“ کے زمرے میں آتی ہیں۔ لیکن آج سے پہلے ہم نے اور ہماری کمپنیوں نے اس بارے میں اتنی تندہی سے کبھی غور نہیں کیا اب یقیناً بہت سی کمپنیاں اپنے دفاتر کے اخراجات کم کرنے اور اپنے ورکرز کی زندگیوں میں آسانیاں لانے کے لئے اس بابت سوچیں گی۔

ہم اپنی ناک اُونچی رکھنے کے لئے اور اپنا پیسہ دکھانے کے لئے بڑی بڑی تقریبات منعقد کرنے کے بہانے تلاشتے ہیں۔ کبھی برتھ ڈے پارٹیاں، کبھی انورسریز اور کبھی نام نہاد سیاسی، سماجی اور مذہبی لیڈروں کے اعزاز میں دعوتیں حالانکہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اردگرد اب بھی ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ دو وقت کی روٹی اور ڈھنگ کے کام یا کاروبار کے لئے ترس رہے ہیں۔

ہمیں اپنی ”شو آف“ کا سلسلہ ختم کر کے دوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ اور ہرگز ہر گز کرنا ہوگا۔ کرونا نے بتایا کہ ہم ایک ارب سے دو، پھر دو ارب سے چار اور اب دیکھتے ہی دیکھتے چھ سات اور آٹھ ارب ہونے سے زیادہ دور نہیں کیا ہماری آبادی اور ہمارے وسائل کا موجود تناسب درست ہے یا ہمیں اس حوالے ٹھوس موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ کرونا نے ہم سے کہا کہ کہ ہم جس رفتار سے کاریں، موٹریں، جہاز، مشینری، فیکٹریاں اور مختلف انواع کے ایٹمی ہتھیار بنا رہے ہیں۔

کیا کبھی سوچا کے کائنات کے قدرتی ماحول کو عدم توازن کا شکار کر کے ہم خالق کائنات کے کس قدر نالاں کر رہے ہیں۔ اور یہی عدم توازن ہمارے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا تو ہمارے پاس بھاگنے کا راستہ بھی نہ ہوگا۔ ۔ ہم میں سے ہر قوم قبیلے اور حکومت نے ایک دوسرے سے لڑنے کے لئے اربوں روپے اسلحہ خریدنے پر خرچ کر دیے لیکن ہم میں سے کسی قوم نے بھی صحت اور ادواسازی کے شعبے میں ضرورت کے مطابق پیسہ خرچ نہیں کیا۔ اب ہمیں اپنا دفاعی بجٹ کم اور صحت کا بجٹ زیادہ کرنا ہو گا۔

ہم نے تعلیم پر اربوں خرچ کیے لیکن قوم کی اجتماعی تربیت اور ڈسپلن کی طرف بھرپور توجہ نہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں کرونا کی وجہ سے سکول اور دفاتر بند کیے گئے تو لوگ پکنکس منانے چل نکلے۔ ہمیں شہری اور قومی اجتماعی تربیت کو اولین ترجیح دینا ہو گی۔ ہم نے اقوام متحدہ بنا رکھی ہے۔ لیکن جب چین میں وبا پھیلی، ہم دیکھتے رہے۔ اٹلی اور ایران اُجڑنا شروع ہوئے تو ہمارے ہاتھ پاؤں پھولنا شروع ہو گئے۔

کرونا کیلی فور نیا، شکاگو سے ہوتا ہوا نیویارک اور اقوام متحدہ کے صدر دفتر پر آ کھڑا دستک دے رہا ہے۔ اور ہم سے پوچھ رہا ہے کہ جب ہم قوموں کی تعریف پر پورے نہیں اُترتے اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے ضرورت پڑنے پر عملی اقدام نہیں اُٹھا سکتے تو پھر یہ اقوام متحدہ کا ڈرامہ کیوں رچائے ہوئے ہیں۔ فلسطین کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی سازش میں ہماری مجرمانہ خاموشی شامل ہے۔ افریقہ کے بعض ممالک میں ایڈز اور بھوک سے مرتے انسان ہمیں نظر نہیں آتے۔

بھارت اور اس کے زیر تسلط کشمیر میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں مظلوم مسلمانوں کے کٹتے جسم اور ان کی چیخیں ہمیں سنائی نہیں دیتیں۔ آسٹریلیا کے جنگلوں میں زندہ جانوروں کے جل بُھن کر کوئلہ ہو جانے پر بھی ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ قارئین کرام مان لیجیے اب دنیا کو کرونا سے پہلے اور کرونا کے بعد کی دنیا کے تناظر میں دیکھا جائے گا اس کرونا نے دنیا کا رہن سہن، طرز تمدن، سماج، سیاست، معیشت، ماحولیات، تعلقات، روابط، سوچ، نظریات، ترجیحات، اہداف اور طرزعمل تک بدل کر رکھ دینا ہے۔ آئیے دُعا کریں یہ تبدیلیاں انسانوں اور ہمارے معمولات زندگی کے حوالے سے مثبت اور فائدہ مند ہوں۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments