تبلیغی جماعت، مدارس و دیگر شدت پسند دینی افراد بصیرت اور بصارت کا فقدان یا ضد؟


دسمبر 2019 میں چین میں جب پہلی بار اس مہلک ترین وباء کورونا وائرس COVID۔ 19 کا پتہ چلا تو وہاں کی حکومت اور عوام نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس وباء نے نہ صرف چین کے مختلف شہروں بلکہ دنیا کے 146 ملکوں کو کم و بیش اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس نئے مرض کا کوئی علاج اب تک دریافت نہیں کی جا سکی ہے تاہم سماجی میل میں کمی social distancing اس مرض سے بچنے کا آسان اور موثر ذریعہ مانا گیا ہے۔ ہندوستان میں یہ ابھی پہلے اور دوسرے مرحلے میں ہے اس لئے دوسرے ملکوں کی طرح ابھی رفتار نہیں پکڑا ہے لیکن جیسا کہ دیگر ممالک میں دوسرے مرحلہ کے بعد یہ وباء رفتار پکڑا اور اچانک متاثرین کی تعداد غیر متوقع طور پر بڑھتی گئی اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے ہندوستان میں ترقی یافتہ ممالک کی طرح اس وباء پھیلنے سے روکنے کے لئے بہت زیادہ وسائل نہیں ہیں اس لئے لا سمح اللہ و لا قدر اللہ اگر اس کثیر آبادی والے ملک میں رفتار پکڑ لیا تو اقل مقدار دو کروڑ لوگ ہلاک ہو سکتے ہیں۔

دین میں غلو ناپسندیدہ ہے قرآن کریم میں اللہ نے فرمایا ”یرید اللہ بکم الیسر“ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان الدین یسر و لن یشاد الدین۔ دین آسان ہے اس میں شدت نہیں سماحت اور لچک ہے۔ سردی اور خوب بارش ہو تو کیچڑ میں چل کر مسجد جانے کے بجائے گھروں میں نماز پڑھنے کا حکم ہے ”الا صلوا فی الحال“ اپنے اپنے ٹھکانوں پر ہی نماز پڑھیں ”یہ کلمات اذان کے ساتھ کہ دیے جاتے تھے۔ قرضدار کو اگر قرض خواہ پریشان کر رہا ہو اور دینے کی استطاعت بالکل نہیں ہے اور قرض خواہ کی دکان یا مکان مسجد کے راستے میں ہو یا مسجد میں تقاضا کرنے کا ڈر ہو اور دوسری مسجد نہ ہو تو ایسی مجبوری میں اپنے گھر میں نماز ادا کرنے کا حکم ہے۔

اس سے پہلے کی امتوں میں گناہ کا کفارہ اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہوتا تھا جبکہ اسلام میں توبة نصوحة سچی پکی توبہ ہے۔ نماز میں نیند غالب ہونے لگے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سو جائے یہاں تک کہ نیند کا غلبہ ختم ہو جائے۔ نماز با جماعت میں طویل سورتیں پڑھنے سے اللہ نے یہ کہ کر روکا کہ نمازیوں میں بہت سے لوگ مریض ہوتے ہیں بوڑھے ہوتے ہیں اور کئی ایسے ہوتے ہیں جنہیں اسی وقت سفر میں نکلنا ہوتا ہے۔

علامہ ابن باز نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد عبادات میں غلو اور اپنے آپ کو تکلیف نہیں ڈالنے پر اور اعتدال پر زور دینا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”خدا کی قسم میں تم لوگوں سے زیادہ متقی اور اللہ سے ڈرنا والا ہوں لیکن اس کے باوجود میں نماز ادا کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں روزے رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں اور عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں یعنی ازدواجی تعلقات بھی قائم کرتا ہوں“۔ مگر افسوس۔ اس فطرت سے قریب ترین مذہب کو بعض لوگ اپنی روش سے بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عبادات میں اپنے نفس پر بے جا جبر کرنا اور جہاں رخصت ہے وہاں بھی اپنے آپ کو تکلیف دینا عین کار ثواب سمجھتے ہیں۔

1۔ وزارت داخلہ نے حالیہ ہیبت ناک وباء کے سلسلے میں ہدایات جاری کیا ہے جس میں لوگوں کو کسی مقام پر، بشمول ہر مذہب کی عبادت گاہوں میں، جمع ہونے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ معتبر دینی مراکز نے مساجد میں حسب سابق جماعت ادا کرنے سے اس ناگزیر حالت میں منع کیا ہے اور کہا ہے کہ صرف امام مؤذن اور عملہ سمیت پانچ متعین افراد ہی مسجدوں میں باجماعت نماز ادا کریں۔ مگر آفات و بلیات اور مصائب کے دنوں میں حسب عادت مسجدوں میں اژدھام بڑھ گیا ہے۔ منع کرنے کے باوجود لوگ دینی جوش و خروش اور ایمانی قوت کے نام پر مسجدوں میں باجماعت نماز ادا کرنے پر مصر ہیں۔

2۔ تبلیغی جماعت اس خطرناک اور تشویشناک صورتحال کو ذرہ برابر قابل اعتناء نہیں سمجھ رہی ہے متعدد مقامات پر جنوب مشرقی ایشیا بالخصوص ملیشیا انڈونیشیا کے افراد جو شکل و شباہت سے چینی نظر آتے ہیں، پر جماعتیں مسجدوں میں قیام اور تبلیغ کر رہی ہیں جس کی وجہ سے اہل علاقہ کے لوگوں میں دہشت فطری ہے۔ اس جماعت کے امیر محترم اور دیگر جوشیلے مسلمانوں کا خیال ہے یہ مرض اسلام دشمن عناصر کی سازش ہے۔ ان کی سادہ لوحی یا حماقت پر کیا تبصرہ کیا جائے۔

کاش وہ اس عالمی وباء کی سنگینی اور بلا تفریق مذہب و ملک متاثرین کو لقمہ بنانے کی حقیقت سے باخبر ہوتے تو اسلام اور غیر اسلام کی بات نہیں کرتے۔ احتیاطی تدابیر ایمان کے منافی نہیں ہے۔ وہ لوگ اس وقت اس کا قائل ہوتے ہیں جب ان کی خود کی اور ان کے بچوں کی جان پر بن آتی ہے اس وقت وہ بہتر سے بہتر ہاسپیٹل میں علاج کراتے ہیں ڈاکٹر کی ہدایات پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ اس وقت توکل علی اللہ بھول جاتے ہیں۔

3۔ مارچ کے پہلے ہفتہ میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے تعلیمی اداروں میں تعلیم اور امتحانات موخر کرنے کا حکم دیا اور تمام سرکاری نیم سرکاری اور پرائیوٹ اسکولز کالجز یونیورسٹیز، حکم کی تعمیل اور حالات کی سنگینی کے مد نظر، بند کر دیے گئے۔ ان میں وہ طلباء و طالبات بھی ہیں جن کو امتحانات کے بعد مقابلہ جاتی ٹیسٹ میں شامل ہونا ہے۔ وہ طلباء بھی ہیں جنہیں ان مراحل کے بعد ملک و بیرون ملک اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے جانا ہے۔

لیکن افسوس اہل مدارس نے نہ حالات کی سنگینی کو محسوس کیا نہ ملک کے تعلیمی اداروں کے فیصلوں کو دیکھنے کے لئے بصارت کا استعمال کیا اور نہ ہی بصیرت کا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طلباء اس وقت غیر معین مدت کے لیے مدارس میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔ اب سالانہ امتحانات کے بعد چھٹی کا بھی کچھ حاصل اس لئے نہیں ہے کہ وسائل نقل و سفر مہیا نہیں ہیں پورے ملک میں لوک ڈاؤن نافذ ہے۔

کیا ان کے امتحانات اس قدر اہم تھے کہ ان کا موخر اور ملتوی کرنے میں ان کا بہت بڑا نقصان ہو جاتا؟

4۔ آخر ہم مسلمانوں کی یہ روش کب بدلے گی؟ ملک بلکہ پوری دنیا کو اس وقت انسانی جانوں کی حفاظت کی پڑی ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ تلنگانہ کے ایک ضلع کی رپورٹ کے مطابق اس مرض سے متاثر ہونے کا جن پر شک تھا ان کا ریزلٹ آیا ہے جس میں 80 فیصد مسلمان ہیں۔ لوک ڈاؤن کے نفاذ کے سلسلے میں پولیس اور انتظامیہ کو سب سے زیادہ دشواری مسلم محلوں اور کالونیوں میں ہو رہی ہے۔ دفعہ 144 کارگر نہیں ہے اور نہ لوک ڈاؤن رضاکارانہ کرفیو مؤثر ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ میڈیا میں اس طرح کی باتیں شروع ہو گئی ہیں کہ مسلمانوں کی بے احتیاطی اور لاپرواہی اس وباء کو پھیلنے نہ دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے بلکہ بعض متعصب عناصر تو اس بے احتیاطی کو ”کورونا جہاد“ کہ رہے ہیں۔ آخر غیروں کی طرح ہم بھی ذمہ دار شہری ہونے کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے؟ اور کیوں جب پولیس سختی کرتی ہے تو حسب عادت ہم کہتے ہیں کہ پولیس کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ جانبدارانہ تھا اور یہ کہ پولیس نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments