یوول نوح حراری: کرونا وائرس کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی؟


اس وقت انسانیت عالمگیر بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ شاید یہ ہماری نسل کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ غالباً عوام اور حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات مستقبل کی دنیا کے خدوخال واضح کریں گے۔ یہ فیصلے ہماری صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے ساتھ ساتھ ہماری معیشت، سیاست اور ثقافت کو بھی بدل کر رکھ دیں گے۔ ہمیں جلد اور فیصلہ کن اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں ان اقدمات کو اٹھاتے ہوئے طویل مدتی نتائج پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔

جب ہم اس بحرانی صورتحال میں ایک متبادل لائحہ عمل کا انتخاب کر رہے ہیں تو ہمیں موجودہ خطرات پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جب یہ طوفان گزر جائے گا تو ہم کس طرح کی دنیا آباد کریں گے۔ جی ہاں، یہ طوفان گزر جائے گا، انسانیت اس سے نبرد آزما ہو کر زندہ بچ جائے گی، ہم میں سے اکثر تب بھی زندہ ہوں گے۔ لیکن تب ہم ایک مختلف دنیا میں سانس لے رہے ہوں گے۔

اس لیے یہ بات غور طلب ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر مختصر وقت کے لیے کیے گئے اقدمات کے انسانی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ہنگامی صورتحال کی یہ فطرت ہوتی ہے کہ یہ تاریخی عمل کو تیز کردیتی ہے۔ وہ تمام تر فیصلے جو عام حالات میں سالوں کے غوروفکر کے بعد لیے جاتے ہیں، ہنگامی حالات میں چند گھنٹو ں کے اندر کرلیے جاتے ہیں۔ ان حالات میں خام یہاں تک کہ خطرناک ٹیکنالوجیز کو بھی استعمال لایا جاتا ہے کیونکہ کوئی بھی لائحہ عمل نہ اپنانے سے زیادہ خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

اس لیے تمام ممالک بڑے پیمانے پر سماجی تجربات کرتے ہیں۔ اس وقت کیا ہوتاہے جب لوگ گھروں پر کام کرتے ہیں اور درمیان ایک فاصلہ رکھ کر بات کرتے ہیں؟ اس وقت کیا ہوتا ہے جب سارے سکول اور یونیورسٹیاں آن لائن کلاسیں شرو ع کروا دیتی ہیں؟ عام حالات میں گورنمنٹ، کاروباری ادارے اور تعلیمی بورڈکبھی بھی ایسے تجربات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن اس وقت دنیا کے حالات نارمل نہیں ہیں۔ بحران کے اس وقت میں ہمارے پاس دو اہم انتخاب موجو د ہیں۔ ان میں سے پہلا انتخاب یہ ہے کہ مطلق العنان نگرانی اور شہریوں کو خود مختار بنانے کے درمیان کسی ایک کو اپنانے کا فیصلہ کرلیں۔ دوسرا قومی تنہائی اور عالمگیر یکجہتی کے درمیان کسی ایک کا انتخاب کرلیں۔

وبا کو روکنے کے لیے ہماری اندرونی کیفیات کی نگرانی کے لیے لوگوں کو مخصوص ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے حصول کے دو ذرائع ہیں۔ حکومت کے لیے پہلا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کی نگرانی کرے اور ایسے افراد کو سزا دے جو ان قوانین سے رو گردانی کرتے ہیں۔ آج انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ٹیکنالوجی نے یہ ممکن بنا دیا ہے کہ ہر شخص کی نقل و حرکت کا مکمل جائزہ لیا جاسکے۔ پچاس سال پہلے روس کی سٹیٹ سیکورٹی کمیٹی 240 لاکھ روسی لوگوں کی چوبیس گھنٹے نگرانی نہیں کر سکتی تھی اور نہ ہی اپنے ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کا موثر انداز میں جائزہ لے سکتی تھی۔ انہیں اپنے ایجنٹوں اور تجزیہ کاروں پر بھروسا کرنا پڑتا تھا، اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنے ایجنٹوں کو ہر شخص کی جاسوسی کے لیے نہیں لگا سکتے تھے۔ لیکن آج حکومتیں ہر جگہ لگے سنسرز اور طاقتور الگورتھم پر بھروسا کرسکتی ہیں۔

بہت ساری حکومتوں نے پہلے ہی کرونا وائرس وبا کے خلاف نگرانی کرنے کے لیے جدید آلات لگادیئے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے نمایا ں مثال چین کی ہے۔ چین نے اپنے لوگوں کے سمارٹ فونز کی بالکل قریب سے مانیٹرنگ کرکے، ان کے چہروں کی شناخت کرنے والے کروڑوں کیمرے لگا کر، ہر شہری کو چیک اپ کروا نے کی سہولیات اور میڈیکل رپورٹ کی اطلاع پہنچانے تک کا نظام بنا کر احسان کیا ہے۔ اب چین کی حکومت ناصرف کرونا وائرس کے مریضوں کا تیزی سے پتہ لگا سکتی ہے بلکہ ان افراد کی نقل و حرکت کا سراغ لگا کر یہاں تک معلومات اکٹھی کر لیتی ہے مشتبہ شخص کس کس سے ملا ہے۔ مزید برآں لاتعداد موبائل اپلیکیشنز ایسی متعارف کروائی گئی ہیں جو لوگوں کو ان کے گردونواح میں موجود متاثرہ مریض کے بارے میں آگاہ کردیتی ہیں۔

اس قسم کی ٹیکنالوجی صرف مشرقی ایشیا ء تک محدود نہیں ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے ابھی حال ہی میں اسرائیل سیکورٹی ایجنسی کو اختیارات دیے ہیں کہ وہ تمام ٹیکنالوجی جو دہشت گردوں سے لڑائی کے لیے مخصوص ہے انہیں کرونا وائرس کے مریضوں کا پتہ چلانے کے لیے استعمال کیا جائے اور جب متعلقہ پارلیمانی کمیٹی نے یہ اختیارات سیکورٹی ایجنسی کو دینے سے انکار کردیا تو نیتن یاہو نے ہنگامی صورتحال کے پیش نظر اپنے خصوصی اختیارات استعمال کر کے سیکورٹی ایجنسی کو اجازت دے دی۔

ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ وبا ہمیں تاریخ میں نگرانی کرنے کے اہم موڑ پر لاکھڑا کرے گی۔ ناصرف اس لیے کہ ان تمام ممالک کو جو اب اسے رد کر رہے ہیں انہیں بڑے پیمانے پر نگرانی کرنے والے آلات استعمال کرنے پڑیں گے، بلکہ اس امر پر اس لیے بھی توجہ دی جانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نگرانی کے نظام میں ظاہری جسمانی نگرانی سے اندرونی کیفیات کی نگرانی کی طرف ڈرامائی تبدیلی کی نشان دہی کرتا ہے۔ اب تک جب آپ کی انگلی سمارٹ فون کو چھوتی ہے اورآپ ایک لنک پر کلک کرتے ہو تو حکومت یہ جاننا چاہتی ہے کہ آپ کی انگلی کس چیز کو چھو رہی ہے۔ لیکن کرونا وائرس کی بدولت حکومتی دلچسپی کا یہ عنصر بدل گیا ہے۔ اب گورنمنٹ آپ کے جسم کا ٹمریچر اور بلڈ پریشر جاننا چاہتی ہے۔

نگرانی کے اس عمل میں ایک مسئلہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ ہم میں سے کسی کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ ہماری نگرانی کس طرح کی جارہی ہے اور آنے والے سال کیا تحفہ لے کر آئیں گے۔ نگرانی کے آلات میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی خطرناک حد تک تیز رفتاری سے ترقی پا رہی ہے۔ اس سرعت رفتار ترقی کی بدولت ہر وہ چیز جو دس سال پہلے سائنس فکشن معلوم ہوتی تھی آج عام دستیاب ہے۔ ایک ایسی حکومت کا نقشہ اپنے دماغ میں فرض کرلیں جو ریا ست کے ہر فرد کے لیے یہ لازم کردیتی ہے کہ وہ بائیو میٹرک بریسلٹ پہنے، جو چوبیس گھنٹے ان کے جسم کے ٹمریچر اور دل کی دھڑکن کو نوٹ کرے۔

اس عمل کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ڈیٹا کا حکومتی الگورتھم تجزیہ کرے گا۔ اس سے پہلے کہ یہ بات آپ کے علم میں آئے کہ آ پ بیمار ہیں اس آلہ کو پتہ چل جائے گا، جس سے حکومت کو اس بات کی بھی خبر ہوجائے گی کہ آپ کہاں گئے تھے اور کس کس سے ملے تھے۔ اس طرح ا فراد کا ایک دوسرے کو متاثر کرنے کا عمل ناصرف ا نتہائی مختصر ہوجائے گا بلکہ ختم ہوجائے گا۔ اس قسم کا نظام دنوں کے اندر ناقابل یقین حد تک وبا کو ختم کردے گا۔ یہ سب بہت حیران کن لگتاہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟

بلاشبہ اس بات کا منفی پہلو یہ ہے کہ یہ نگرانی کے نئے خوفزدہ کردینے والے نظام کو قانونی حیثیت دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو پتہ ہے کہ میں نے سی این این کے لنک کی بجائے فاکس نیوز کے لنک پر کلک کیا ہے تو یہ امر آپ کو میرے سیاسی نظریات کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتادے گا اور شاید آپ میری ذاتی شخصیت کے بارے میں بھی رائے قائم کر سکیں۔ اسی طرح اگر میں ایک فلم کا کوئی سین دیکھتا ہوں تو آپ جان سکیں گے کہ کس بات پہ مجھے ہنسی آتی ہے؟

کون سی بات مجھے رولا سکتی ہے اور کس وجہ سے مجھے سخت غصہ آتا ہے؟ ہمیں یہ حقیقت نہیں بھول جانی چاہیے کہ غصہ، خوشی، بوریت اور محبت بھی بخار اور کھانسی کی طرح حیاتیاتی عناصر ہیں۔ جو ٹیکنالوجی کھانسی کی تشخیص کرتی ہے وہ ہنسی کا سراغ بھی لگاسکتی ہے۔ اگر حکومت اور کارپوریشن نے ہمارا بائیومیٹرک ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کردیا تو وہ ہمیں ہم سے بھی بہتر جان لیں گے اور تب وہ صرف ہمارے احساسات کے بارے میں پیشن گوئی نہیں کریں گے، بلکہ انہیں استعمال کریں گے اور

جو چیز وہ چاہیں گے ہمیں بیچ دیں گے۔ بائیو مانیٹرنگ اس قدر جدید ٹیکنالوجی ہے کہ اس کے سامنے کا ہیکنگ کا نظام بھی صدیوں پرانا ہے۔ 2020 کے شمالی کوریا کا تصور کریں جب ہر شہری کو چوبیس گھنٹے بائیو میٹرک بریسلٹ پہننا ہوگا اور اگر آپ کو شمائی کوریا کے عظیم لیڈر کی تقریر سنتے ہوئے غصہ آگیا اور اس بریسلٹ نے آپ کے اندر پلتے ہوئے غصے کی خبر حکومتی الگورتھم کو کردی تو سمجھیں کہ آپ کا کام تو تمام ہوگیا۔

اس لیے بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ نگرانی کے بائیومیٹرک نظام کو صر ف عارضی طور پر ہنگامی حالات میں ہی استعمال کیا جائے اور جیسے ہی ہنگامی صورتحال ختم ہو اسے ترک کردینا چاہیے۔ لیکن عارضی طور پر کیے گئے اقدامات ناختم ہونے والی مکروہ عادات کو جنم دیتے ہیں، خاص طور پر جب ہر وقت ایک نئی ہنگامی کیفیت آپ کی منتظر ہو۔ مثال کے طور پر میرے آبائی وطن اسرائیل نے 1948 کی جنگ آزادی کے دوران ہنگامی حالت کا اعلان کیا تھا۔

جس کے تحت عارضی طور پر میڈیا پر پابندیاں لگانے اور زمین ہتھیانے جیسے خصوصی قوانین کو درست قرار دیا تھا۔ بہت عرصہ پہلے آزادی کی جنگ جیتی جا چکی ہے۔ لیکن اسرائیل نے آج تک ایمرجنسی کے خاتمہ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ اس لیے 1948 کے عارضی طو ر پر اٹھائے گئے اقدمات کو ختم نہیں کیا گیا ہے۔ حالانکہ ایمرجنسی کے لولی پاپ کا بڑی بے رحمی سے 2011 میں خاتمہ کردیا گیا ہے۔

اس لیے جب کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد زیرو ہوجائے گی تو حکومتیں یہ دلیل دے سکتی ہیں کہ انہیں آج بھی بائیومیٹرک ڈیٹا کی ضرورت ہے کیونکہ وائرس کی ایک اور لہر پھوٹنے کا خدشہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی جواز دیا جا سکتا ہے کہ وسطی ایشیاء میں ایک نیا ’ایبولا‘ پروان چڑھ رہا ہے یا پھر کوئی بھی اور مناسب جواز تراشا جا سکتا ہے۔ ان حالیہ برسوں میں ہماری نجی زندگیوں پر ایک بڑی لڑائی لڑی جانے والی ہے۔ یہ کرونا وائرس کا بحرا ن اس کا نقطہ آغاز ہے کیونکہ اس بحران میں لوگوں کے پاس انتخاب کے لیے دو ہی آپشنز ہیں۔ انہیں صحت یا پرائیویسی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے اور یقینا موجودہ صورتحال میں لوگ صحت کا انتخاب کریں گے۔ (جاری ہے )

یوول نوح حراری کے آرٹیکل کا لنک

https://www.ft.com/content/19d90308-6858-11ea-a3c9-1fe6fedcca75


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments