پاکستانی نظام میں شہری کی کوئی توقیر نہیں


گزشتہ ہفتے میرے والد کی طبیعیت ناساز تھی جس کی وجہ سے پورا ہفتہ بہاول وکٹوریہ ہسپتال کے کڈنی سنٹر کے دھکے کھاتے اور اس نظام کے ایک ایک پرزے کا غور سے مطالعہ کرتے گزرا۔ جہاں غریب کو دھکے کھاتے دیکھا، وہاں سفارش کے پرزے کی کارکردگی کا بھی بغور معائنہ کرتا رہا۔ ایک چھوٹے سے آپریشن کے دوران آوٹ ڈور کی پرچی سے لے کر آپریشن تھیٹر تک جن مصائب کا مجھے سامنا کرنا پڑا، وہ ایک طویل داستان ہے۔ اسی دوران مجھے اپنے اک شاگرد عزیز کا ایک صوتی پیغام ملا کہ ایک عام آدمی پولیس کے پاس جانے سے کیوں ڈرتا ہے؟

، کچھ اس پہ لکھیں تو میں نے اسے جواب میں کہا کہ کبھی تم نے یہ سوچا ہے کہ ایک عام آدمی نہ صرف تھانے بلکہ ہسپتال، عدالت اور پٹواری کے دفتر جانے سے بھی ڈرتا ہے۔ اس کی تو کسی بھی دفتر تک رسائی نہیں ہے، اب بتاؤ کس کس دفتر کے متعلق لکھوں؟ دل لرز اٹھتا ہے اور قلم کی نوک کپکپانے لگتی ہے جب میں پاکستانی حاکموں کے دفاتر میں ان گنہگار آنکھوں سے انسانیت کا خون ہوتا دیکھتا ہوں، جب میں نے کمرہ نمبر 212 کے نیچے کھڑے، ہاتھ میں Urine Bagپکڑے ایک ان پڑھ بوڑھے کو، جس کے چہرے پر غربت کی ہزار ہا لکیریں تھیں، یہ پوچھتے دیکھا کہ پتر! کمرہ نمبر 212 کتھاں اے؟ (کہاں ہے؟ ) ، جب میں اپنے والد کے ایک ٹسٹ کے لئے گیا تو وہاں ایک ٹانگ پہ گھسٹتے غریب کے ماتھے کی شکنوں میں اس وقت اضافہ دیکھا جب اسے بتایا گیا کہ بہاول وکٹوریہ ہسپتال کی صرف وہی مشین خراب ہے جس پہ اس کا ٹسٹ ہونا ہے جبکہ پرائیویٹ لیبارٹری کے ٹسٹ کی فیس 4000 سے کم نہیں ہے؟ ہاں! میں اس وقت بھی اندر سے لرز گیا جب ایک بوڑھے کو ایکو گرافی کے لئے اپریل کے وسط کی تاریخ دی گئی۔

آپ کو اگر کسی بھی ادارے کے دفتر میں کوئی چھوٹا موٹا کام ہے تو براہ مہربانی سب سے پہلے ایک ایسا لباس زیب تن کریں جس کو پہننے سے آپ کسی گزیٹڈ عہدے کے حامل لگتے ہوں، اس کے بعد اگر اس دفتر میں آپ کا کوئی رشتے دار یا جاننے والا نہیں تو کسی قریبی دوست سے ایک عدد ٹیلی فون کروالیں تا کہ آپ کی وہاں عزت و توقیر کی جائے۔ اگر گیٹ پر آپ کا لباس دیکھ کو آپ کو دربان روک بھی لے تو آپ اسی ادارے کے کوئی افسر بن جائیں، میرا یہ تجربہ ہے کہ وہ دربان آپ کو ایک عدد سیلوٹ بھی جھاڑے گا اور آپ کو اندر تک چھوڑ کر آئے گا۔

میں نے کئی بار کوشش کی کہ بغیر کسی تعارف اور جان پہچان کے کسی بھی ادارے میں اپنا کام نکلوا سکوں لیکن آج تک ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی اس لئے اب ہر ممکن کوشش کرتا ہوں کہ جس بھی دفتر میں جانا ہو پہلے ہی اپنا ہوم ورک مکمل کر کے جاؤں تا کہ مجھے کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی لاحق نہ ہو۔ اپنے والد کے ایک چھوٹے سے آپریشن کے لئے مجھے جو پاپڑ بیلنا پڑے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپریشن تھیٹر کے اندر بھی مجھے اپنے مریض کے لئے ایک عدد سفارشی فون کروانا پڑا، ورنہ ہو سکتا تھا کہ وہ آپریشن چار دن بعد ہوتا، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم جیسے صاحب حیثیت اپنا کام نکلوانے کے بعد اس نظام کے خلاف کبھی بھی آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کرتے، وہ یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ان تمام مشکلات سے ایک غریب کیسے گزر کر اپنا کام نکلواتا ہو گا۔

کہتے ہیں کہ اونٹ ایک ایسا بھدا، بے ڈھنگا جانور ہے کہ اس کو کسی نے کہا ”اونٹ رے اونٹ! تیری کون سی کل سیدھی“ یہ ضرب المثل ہمارے نظام پر صادق آتی ہے کیونکہ ہمارا نظام بھی ایک اونٹ کی طرح بے ڈھنگا اور بھدا ہے۔ تقسیم پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے ملک میں حقوق اور فرائض کی جنگ جاری ہے اور سرمایہ دار طبقہ ہی زندگی کی تمام سہو لیات سے فائدہ اٹھاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ غریب اور پس ماندہ طبقہ نہ صرف احساس ِمحرومی کا شکار ہے بلکہ اس کو کچلنے میں تمام بورژوائی طبقے کے تمام افراد بھی اپنا حصہ ملا رہے ہیں۔

آپ عدالت چلے جائیں اور عدالتی نظام کا بغور مطالعہ کریں، آپ کو غیرتعلیم یافتہ اور غریب گاہک سے فوٹو سٹیٹ اور عدالت سے اگلی پیشی کی تاریخ کے نام پر لوٹنے والے وکیل کے منشی سے لے کر روبکار، اہلمنداور ہرکارے بھی نظر آئیں گے جن کی نظر صرف اور صرف غریب کی جیب پر ہو گی، کجا یہ کہ ہم ان وکلا ء کی بات کریں جو بھاری فیسوں سے اپنی جیبیں بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عدالت سے جیل تک کا سفر بھی غریب کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے گھر کی جمع پونجی سے اعلیٰ افسران کے بچوں کی فیس اور تمام عیاشی کے بل بھرے اور پھر یا تو خود کشی کر لے یا جھولی اٹھا اٹھا کر ان کو بد دعائیں دے۔ اس صف میں صرف عدالتی اہلکار ہی نہیں بڑے بڑے پوائیویٹ سکولوں کے مالکان، محکمہ پولیس کے اعلیٰ افسران، محکمہ مال کے چپڑاسی اورپٹواری سے لے کر تحصیلدارتک تمام وہ جونکیں شامل ہیں جو کسی مافیا سے کم نہیں۔

تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تقسیمِ ہندوستان سے لے کر آج تک جو بھی حکمران آیا، اس نے افسر شاہی کو نہ صرف منہ زور گھوڑا بنانے میں ہمارے نظام کے لئے ممد و معاون ثابت ہوا بلکہ غریب اور ان پڑھ عوام کے لئے ایک ایسا کوہ قاف کا دیو ثابت ہوا جس نے ہماری پری جیسی قوم کو ایک اندھے کنویں میں بند کر کے اس کو بہرہ، گونگا اور اندھا کر کے قید کیا ہوا ہو۔ یہاں تک کہ ایمانداراور نیک نیت ممالک کی فہرست میں آج بھی ہمارا 120 واں نمبر ہے جبکہ ہمارے خواب اور مصمم ارادے ایک سپر پاور بننے کے ہیں۔

میں ان ایماندار افسران کو سلام پیش کرتا ہوں جو آج بھی صدق دل سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں لیکن افسوس ان کی کسی بھی محکمے میں تعدا د آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے قومی نظام میں اقرباء پروری، رشوت اور اختیارات کا ناجائز استعمال ہی ہمارے معاشرے کو مثالی بننے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے لیکن ہمارے نظام کی سب سے بڑی خرابی نا اہلی اور فرائض سے کوتاہی ہے۔ آپ کسی بھی دفتر میں چلے جائیں، رہنمائی کرنے والے کاؤنٹر پرایک اجڈ اور غصیلی شکل والے صاحب برا جمان ہوں گے اور اگر ان کے ہمراہ کوئی خاتون بھی بیٹھی ہو تو سونے پہ سہاگا ہو گا۔

کاؤنٹر پر بیٹھا یا کسی ڈاکٹر کے دروازے پر کھڑا چوکیدار ہر ممکن کوشش کرے گا کہ سوٹڈ بوٹڈ شخص کی چاپلوسی کرے اور ہر غریب اور غیر تعلیم یافتہ بندے پر اپنی افسری یوں جھاڑے گا جیسے خدانخواستہ وہ اس ادارے کا سربراہ ہے۔ تھانے پر کھڑا سنتری ہو یا عدالت کے باہر کھڑا ہرکارہ، کسی ڈاکٹر کے دروازے پہ کھڑا چوکیدار ہو یا کسی میڈیکل وارڈ کا گیٹ کیپر وہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ ایسا شکار پھانسے جس کی بدولت اس کی دیہاڑی کھری ہو سکے، ان تمام حضرات کے لئے کسی دور دراز گاؤں سے آیا ہوا کوئی غریب اور ان پڑھ بوڑھا لقمہ تر ہوتا ہے اور وہ اس کے اندر جانے کے پیسے کسی بھی حیلے بہانے سے کھرے کر لیتا ہے۔

تھانے دار تک پہنچنا ہو یا تحصیلدار تک، کسی بڑے ڈاکٹر تک رسائی ممکن بنانی ہو یا کسی دفتر کے سپرننٹنڈنٹ تک اپنی بات پہنچانی ہو، غریب ہمیشہ دھکے کھاتا ہے اور خوار ہوتا ہے بلکہ آپ سب کے علم میں یہ بات ہو گی کہ کسی افسر پر رشوت کا الزام ثابت کرنے ککے لئے بھی آپ کو انٹی کرپشن کے دفتر میں رشوت ہی دینی پڑتی ہے۔ لیکن افسوس کہ تقسیم پاکستان سے لے کر آج تک کسی بھی رہنما نے ہمارے بنیادی نظام کو سیدھا کرنے کی بجائے اس کو بگاڑنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے، اس میں ماضی کی سویلین حکومتیں ہی شامل نہیں بلکہ مارشل لاء ادوار بھی شامل ہیں۔

اس لئے ضرورت اس امر کی ہے ہمارے ملک میں پبلک ریلیشن، انصاف اور غریب پروری کے نام پر فنڈ ہڑپ کرنے والے ادارے ہوش کے ناخن لیں اور ہر دفتر میں کم ازکم ایسے افراد متعین کیے جائیں جو نہ صرف غیر تعلیم یافتہ اور غریب افراد کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آئیں بلکہ ان کی داد رسی بھی کریں۔ اس کی ایک بہترین مثال سابقہ دور میں تھانے پر VROافسران کی تعیناتی تھی، جن کی بدولت نہ صرف غریب کی داد رسی ہوتی تھی بلکہ چھوٹے موٹے جھگڑوں کی صلح بھی ہو جاتی تھی اور غریب پولیس افسران کو دعائیں دیتا ہوا رخصت ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر ہر محکمے میں سفارش کا خاتمہ ہو جائے اور میرٹ پر ہرکام کیا جائے تو ناممکن ہے کہ کسی غریب کا حق مارا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments