شیر شوہر اور بھولی بیگم


نوعِ انسان کی تخلیق کا پہلا رشتہ ایک مرد اور عورت کا ہے جس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کی تخلیق سے شروع ہوا۔ ہمارے ہاں شوہر اور بیوی کو ایک پاکیزہ رشتہ کہا جاتا ہے اورگھر میں، خاندان میں اور معاشرہ میں اسے باعزت مقام حاصل ہے۔ لیکن یہ رشتہ وقت کی نزاکت اور خاندانی نظام کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ایک نیا رُخ موڑ گیاہے، اب لوگ فکر مند اس لیے ہیں کیونکہ زندگی کی باگ ڈور سنبھالتے سنبھالتے اس رشتہ کو سنبھالنا کافی مشکل لگنے لگا ہے۔ دنیا سے بے نیاز ہو کر وہ بیوی جو اپنے ماں باپ، اپناگھر، بہن بھائی سب چھوڑ چھاڑ کر پیا گھر سدھا جاتی ہے تو کچھ حساس بھی ہو جاتی ہے کیونکہ شوہر کی محبت پانے کے لیے وہ اپنے باقی رشتوں کی محبت کو قربان کر رہی ہوتی ہے۔

یہ بات ہے ایک پُرخلوص رشتے کی جو کہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ نت نئے تقاضوں میں ڈھل رہا ہے اوراب وہ پاکیزہ رشتہ جو آسمانوں پر بنتا ہے زمین پر بہت مزے سے لڑتا ہے۔ لڑائی کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے، کبھی آٹا ختم ہونے پر، تو کبھی پڑوسن کا ذکر ہونے پر اور کبھی بیگم صاحبہ کاکام کر کر کے تھک جانے پر۔ ہاں! شاپنگ تو بہت سنگین مسئلہ ہے جہاں شوہر بے بس ہو جاتا ہے۔ چھُٹی کا دن گھر گزارنا شوہر کے لیے ایسا ہی ہے جیسا کہ شیر کہ منہ میں ہاتھ ڈالنا، بلکہ کچھ شوہر صاحبان نے اسے شیرنی سے مترادف قرار دے دیا ہے۔

صورتحال کچھ یوں ہوتی ہے کہ کال کس کی سُن رہے ہیں؟ میسج کس کا آیا ہے؟ چھت پہ کیوں جا رہے ہیں؟ ایسے کیوں بیٹھے ہیں؟ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟ گویا بھرپور نگرانی کی جارہی ہوتی ہے شوہر نامدار کی۔ مظلوم کی آہ بھی سُننے والا کوئی نہیں ہوتا بیچارہ چُپ کر کے سُنتا جا رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ بھی محبت کا ایک روپ ہے، فکر کا ایک انداز ہے، توجہ حاصل کرنے کا ایک بہانہ ہے۔ ان معصوموں کو کیا خبر کہ شوہر گھر سے نکل کر کتنی پریشانیوں کو جھیلتا ہے اور کس تکلیف سے پیسے کما کر لاتا ہے اور جب شام کو گھر لوٹتا ہے تو بیوی کی ایک مسکراہٹ اس کے سب دکھوں کا مداوا کر چکی ہوتی ہے اور اپنے گھر کی جنت میں داخل ہوکر وہ خود اپنی تکلیفوں کو بھُلا دیتا ہے۔

ذرا سوچیئے! کیا مرد کو محبت کے دو بول سُننے کا دل نہیں کرتا؟ کیا اُسے اچھا نہیں لگتا کہ ا س کی بیوی اس کی فکر کرے؟ کیا اسے توجہ نہیں چاہیے ہوتی؟ ارے! نہیں بھئی مرد کو پتھر دل کہا جاتا ہے جسے کوئی دکھ درد نہیں ہوتا کیونکہ اس نے بھی اپنا درد بیان نہیں کیا، اس کی زبان نے شاید شکوہ نہیں کیا، اس کے مزاج میں کبھی ناشکری نہیں دیکھی گئی۔ قدر کریں اس پاکیزہ بندھن کی، اس ہستی کی جس کے ساتھ زندگی کو جنت یا جہنم بنانا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔

تو خوش رہیں اور خوش رکھیں اپنے جیون ساتھی کو، زندگی نام ہی خوشیاں بانٹنے کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments