”وبا“ سے زیادہ جان لیوا ”افواہ“


دنیا اس وقت اس صدی کی سب سے خطرناک اور نہایت ”عیار“ وبا کا مقابلہ کر رہی ہے۔ یہ وبا اب تک لگ بھگ 5 لاکھ افراد کو متاثر کر چکی ہے اور 25 ہزار سے زائد افراد کو موت کی نیند سلا چکی ہے۔ اس کے پھیلاؤ کی برق رفتاری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 36 گھنٹے کے قلیل وقت میں اس وبا نے 1 لاکھ افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

دنیا کے بڑے بڑے ممالک اس کے شر سے محفوظ نہ رہے، یورپ اور امریکہ عملی طور پر اس وقت مفلوج ہیں۔ چائنہ میں تباہی سب سے پہلے آئی اور اس تباہی کے جھٹکے ابھی بھی جاری ہیں۔ چائنہ نے جو کچھ بھگتا سو بھگتا لیکن اس نے دوسرے ممالک کو اپنے تجربے سے سیکھنے لئے بہت کچھ دیا۔ اسی طرح دنیا کے تمام بڑے طبی تحقیقی ادارے شبانہ روز کوشاں ہیں کہ کسی طرح اس موذی وبا کی ویکسین تیار کی جا سکے۔ پاکستان میں بھی یہ وبا اپنے جلوے دکھا رہی ہے اور اب تک 1 ہزار سے زیادہ لوگوں کو اپنی گرفت میں لے چکی ہے جن میں سے آٹھ افراد زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔

تمام بین الاقوامی اداروں اور حکومت پاکستان نے واضح پیغام جاری کیا ہے کہ اس بیماری کی کوئی دوا ایجاد نہیں ہوئی ہے اور احتیاط واحد علاج ہے۔ یہ وائرس انسان سے انسان میں بڑی تیزی سے پھیلتا ہے لہذا معاشرتی دوری اس کے پھیلاؤ کو روکنے کی موثر اور شاید واحد تدبیر ٹھہری۔ ہمارے معاشرے کی عمومی خامیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم لوگ بغیر سوچے سمجھے اور بغیر تصدیق کیے اپنے تک پہنچے ہر وٹس ایپ اور فیس بک پیغام کو دوسروں تک پہنچانا ناصرف اپنا فرض سمجھتے ہیں بلکہ اسے ثواب اور صدقہ جاریہ کی نیت سے آگے بھیجتے ہیں۔

پھر چاہے ہمارے اس عمل سے بھلے پوری انسانیت کا نقصان کیوں نہ ہو جائے، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ حیرانی کی بات بلکہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ افواہیں پھیلانے میں پڑھے لکھے لوگ سب سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ اگر کوئی بندہ ان سے درخواست کر لے کہ بھائی پہلے بات کی تصدیق کر لیا کریں جس کی ترغیب بلکہ تلقین ہمارا دیں اسلام بھی کرتا ہے، تو ان حضرات کے چہرے پر تاثرات دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ افواہیں پھیلانے کا عمل اساتذہ میں کافی مقبول مشغلہ ہے اور آج کل کرونا وائرس کے شر نے سکول کالجز بند کرا کر ہمیں ( بندہ خود کالج ٹیچر ہے ) اور زیادہ افواہیں پھیلانے کا موقع فراہم کردیا۔

کسی دوست نے پیاز اور لہسن کے مرکب سے کرونا کا علاج دریافت کر لیا ہے تو کوئی دوست یہ فرما رہا ہے کہ چائنہ کے ڈاکٹر لی وینلنگ کے مطابق دن میں تین دفعہ چائے پینے سے کرونا بھاگ جاتا ہے اور یہ بھی دعوی کیا ہوا ہے کہ یہ خبر سی این این اور بی بی سی پر بھی دستیاب ہے۔ کچھ دوستوں نے اسے سیدھا یہودیوں کی سازش قرار دیا ہوا ہے اور یہ دلیل دیتے پائے جاتے ہیں کہ اسرائیل میں ایک بھی کرونا کا کیس نہیں ہے (حالانکہ یہ دعوی بھی غلط ہے ) اس لیے یہ واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے۔

ابھی کرونا سے متعلق افواہوں سے نمٹنے کی کوشش میں مشغول تھا کی ایک اور افواہ سے واسطہ پڑ گیا۔ ہمارے ایک وٹس ایپ گروپ میں ایک آڈیو میسج آیا کہ آج رات ساڑھے بارہ بجے سے ساڑھے تین بجے تک اپنے موبائل فون بند رکھئے گا کیونکہ امریکہ خطرناک شعاعیں چھوڑ رہا ہے جس سے آپ کی جان کو خطرہ ہو سکتاہے۔ اس افواہ سے زیادہ مجھے اس بات نے پریشان کیا کہ یہ میسج شیر کرنے والے دوست سائنس کے استاد ہیں۔ وبا سے شاید ہم بچ نکلیں لیکن افواہ ہمیں ہلاک ضرور کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments