باجماعت نماز :حکومت واضح فیصلہ کرے


آج جمعۃ المبارک ہے۔ نماز جمعہ ادا کی جانی ہے جبکہ کورونا وائرس سے مزید لوگوں کی جانوں کو خطرہ درپیش ہے۔ ایسے میں کیا کیا جانا چاہیے؟ کیا نماز جمعہ معمول کے مطابق مساجد میں ادا کی جائے یا گھروں میں نماز ظہر ادا کی جائے؟

لوگ کیا چاہتے ہیں

1۔ بہت سے لوگ چاہیں گے کہ اللہ پر ”بھروسا اور توکل“ کرکے اور ایمان ”کی طاقت دکھا کر نماز جمعہ جم غفیر کے ساتھ مساجد میں ادا کی جائے مگر ساتھ ہی وہ خطرے سے بھی بچے رہیں۔

2۔ اور بہت سے لوگ وائرس سے انسانی جانوں کو درپیش خطرے کے پیش نظر گھروں میں نماز جمعہ پڑھنے کے آرزومند ہوں گے مگر ساتھ ہی یہ بھی نہیں چاہتے کہ گھر میں نماز پڑھنے پر انہیں ایمان کی کمزوری کا طعنہ ملے۔

اس مخمصے کا حل کیا ہے؟

کئی راستے کھلے ہیں۔ آئیے ہر ایک کا تجزیہ کرتے ہیں۔

ا۔ حکومت اس معاملے کو لوگوں پر چھوڑ دے۔

اس صورت میں مندرجہ بالا دونوں نتائج ممکن ہیں۔ مساجد میں نماز جمعہ پڑھنے والے خطرے سے دوچار ہوں گے جبکہ گھروں میں پڑھنے والوں کو ایمان کی کمزوری کے طعنے ملیں گے یا وہ خود اپنی نظروں میں گر جائیں گے کہ باقی سب جارہے اور ہم گھروں میں ہیں۔

ب۔ حکومت اس معاملے کو علماء پر چھوڑ دے۔

کیوں کہ اسے خدشہ ہے کہ اگر لوگوں کو نماز جمعہ سے روکا تو بدنامی ہوگی اور مذہبی طبقہ ناراض ہوجائے گا۔ لیکن یہی مخمصہ علماء کو بھی درپیش ہے۔ وہ لوگوں کو ہمیشہ مساجد کی طرف راغب کرتے رہے ہیں تو اب کس منہ سے لوگوں کو مساجد نہ آنے کا کہیں گے۔ انہیں یقیناً خدشہ ہوگا کہ اگر ان کے کہنے پرلوگ مساجد میں آگئے اور اس سے بیماری پھیل گئی تو کل حکومت انہیں مورد الزام ٹھہرائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بھی چاہتے ہیں حکومت خود یہ فیصلہ کرے۔

چنانچہ ہم نے دیکھا کہ کل تمام مکاتب فکر کے علماء نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں ایک طرف کہا کہ ”مساجد کھلی رہیں گی اور ‏باجماعت نماز کا سلسلہ جاری رہے گا“ اور ساتھ ہی کہا کہ ”اگر حکومت طبی بنیاد پر مساجد میں نمازیوں کی تعداد کم کرنے کی ہدایت دیے یا کسی خاص عمر کے افراد کو مساجد میں آنے سے منع کرے تو ایسے افراد گھر پر ہی نمازیں پڑھیں۔ وہ شرعاً معذور سمجھے جائیں گے۔ “۔

ج۔ حکومت خود فیصلہ کرے۔

شریعت کے مطابق مسلمانوں پر اپنے امیر کے حکم کی اطاعت معروف میں فرض کی گئی ہے اور ظاہر ہے انسانی جان کو خطرے سے بچانے کے اقدامات گناہ کے کام نہیں ہیں۔ ہمارے دین میں مسجد سے زیادہ ساجد اور نماز سے زیادہ نمازی کی اہمیت ہے۔

علماء نے اپنے اعلامیہ میں اس معاملے پرحکومت کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے۔ بوڑھوں، بچوں، بیمار اور وائرس سے متاثرہ افراد کو مساجد آنے سے روکنے پر تو علماء بھی متفق ہیں کیوں کہ کل انہوں نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں کہا۔ ”جو افراد وائرس کے شکار ہوں یا جن میں وائرس کا شبہ ہو، جن افراد کو کھانسی، بخار، نزلہ وغیرہ ہو یا دوسری بیماریاں ہوں جو مساجد انے سے بڑھ جانے کا خدشہ ہو، پچاس سال سے زیادہ عمر والے افراد اور بچوں میں سے کوئی بھی باجماعت نماز کے لیے وبا کے پورے عرصے کے دوران مساجد نہ آئیں“۔

باقی رہ گئے فی الحال صحت مند لوگ تو حکومت ان کو وائرس سے بچانے کی کوشش کرے۔ اس مقصد کے لیے ہر قسم کے اجتماع پر پابندی لگائے کیونکہ انسانی جان کی حرمت اور حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔

کورونا وائرس پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر سعودی عرب سمیت کئی مسلم ممالک میں مساجد عوامی باجماعت نماز کے لیے بند کردیے گئے ہیں۔ صدر مملکت کے خط کا جواب دیتے ہوئے مصر کے جامعہ ازہر نے بھی ایسا کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ حرمین الشریفین، امارات فتویٰ کونسل اور نجف اشرف سے بھی اس قسم کے فتوے آ چکے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند نے بھی ہندوستانی عوام خصوصاً مسلمانوں کو محکمہ صحت کی طرف سے جاری کردہ احکام کی اطاعت کرنے کی ہدایت کی ہے اور علماء کو کہا ہے کہ وہ مساجد میں بڑے اجتماع سے گریز کریں اور محدود جماعت کا اس طرح بندوبست کرے کہ سرکاری حکم پر بھی عمل درآمد ہو اور مساجد میں باجماعت نماز کا سلسلہ بھی قائم رہے جیسے امام، موذن اور چند اہل محلہ نماز باجماعت قائم کریں۔

چنانچہ اب لازمی ہوگیا ہے کہ حکومت کنفیوژن ختم کرے، جرآت دکھائے اور خود فیصلہ کرے۔ مساجد کو بند کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم پنجگانہ باجماعت نمازوں اور نماز جمعہ کے اجتماعات کو محدود کیا جاسکتا ہے جیسے مسجد کے امام، موذن، خادمین اور نزدیک کے قریب رہنے والے افراد نماز باجماعت ادا کریں لیکن نماز کے دوران فاصلہ رکھیں۔

وبا کے دوران نماز باجماعت کا شرعی حکم

شریعتِ مطہرہ میں مسجد میں باجماعت نماز نہ پڑھنے کا ایک عذر یہ بھی ہے کہ آدمی ایسی حالت میں ہو جس سے انسانوں کو یا فرشتوں کو اذیت ہو، اسی وجہ سے جس نے نماز سے پہلے بدبودار چیز کھالی ہو تو اسے اس حالت میں مسجد نہیں جانا چاہیے، بلکہ منہ سے بدبو دور کرکے مسجد جانا چاہیے، فقہاءِ کرام نے ایسے مریض کو بھی اس میں شمار کیا ہے جس سے لوگوں کو طبعی طور پر کراہت و نفرت ہوتی ہوجیسے جذامی۔ ایسے مریض کا لوگوں کی ایذا کا سبب بننا یقینی ہو اس سے جمعہ کا وجوب ساقط ہوجائے گا۔ (عمدۃ القاری) ۔ مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یقینی طور پر کرونا وائرس میں مبتلا مریض کو مسجد میں نماز نہ پڑھنے کے سلسلے میں معذور سمجھا جائے گا۔ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سخت سردی، بارش، آندھی و طوفان اور خطرے کے موقع پر لوگوں کو گھروں میں نماز ادا کرنے کی اجازت بھی دیتے تھے۔

اسی عمدۃ القاری کے مطابق ابوسلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیمار اونٹوں والا شخص ہرگز اپنے اونٹ صحیح اونٹ والے کے پاس نہ لائے۔ (عمدة القاری شرح صحیح البخاری۔ 6 / 146 ) ۔

صحیح مسلم کے مطابق عمرو بن شرید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بنوثقیف کے وفد میں ایک جذامی شخص بھی آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے پیغام بھجوایا ”ہم نے تمہیں (یہیں سے ) بیعت کرلیا ہے، چناں چہ آپ لوٹ جائیے“۔

کفایت المفتی میں درج ہے۔ ”ا ن صورتوں میں خود مجذوم پر لازم ہے کہ وہ مسجد میں نہ جائے اور جماعت میں شریک نہ ہو، اور اگر وہ نہ مانے تو لوگوں کو حق ہے کہ وہ اسے دخولِ مسجد اور شرکتِ جماعت سے روک دیں اور اس میں مسجد محلہ اور مسجد غیر محلہ کا فرق نہیں ہے، محلہ کی مسجد سے بھی روکا جاسکتا ہے تو غیر محلہ کی مسجد سے بالاولی روکنا جائز ہے اور یہ روکنا بیماری کے متعدی ہونے کے اعتقاد پر مبنی نہیں ہے، بلکہ تعدیہ کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ نمازیوں کی ایذا یا خوفِ تلویث مسجد یا تنجیس وباء نفرت و فروش پر مبنی ہے“۔ (ج 3 / ص 138، دار الاشاعت) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments