کرونا وائرس: اٹلی میں اتنی اموات کیوں؟


نوول کرونا وائرس کی وجہ سے، اٹلی میں اس وقت تک سوا آٹھ ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یہ تعداد چین، جہاں سے یہ مہلک مرض‌شروع ہوا تھا، میں اس مرض سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے اڑھائی گنا سے بھی زیادہ ہے۔

یہ تعداد وہ ہے جس کا سرکاری طور پر اندراج کیا گیا، درحقیقت اموات اس سے کئی گنا زیادہ ہوئی ہوں گی۔ لومباردی کے شہر برگامو کے میئر جارجیو گوری کہتے ہیں، ”مرنے والے ہر رجسٹرڈ شخص کے ساتھ تین ایسے افراد ہیں جو کسی نوع کا ٹیسٹ ہوئے بغیر نمونیا میں مبتلا ہو کر گھروں میں مر گئے“۔

جمعرات کے روز اس شہر میں اس مرض میں مبتلا 32000 سے زائد افراد کی تصدیق ہو چکی تھی۔ صرف سوموار کے روز 2000 سے زیادہ لوگوں کے مرض میں مبتلا ہونے اور 400 سے زیادہ ہوئی اموات کو رجسٹر کیا گیا تھا۔

اگرچہ ”سرکاری“ طور پر وبا کے کچھ حد تک کم ہونے کی بات کی گئی ہے مگر اطالوی جنرل پریکٹیشنر ڈاکٹرز فیڈریشن کی جنرل سیکرٹری پاول پیدرینی کا کہنا ہے کہ حقیقت میں صورت احوال کہیں زیادہ بگڑی ہوئی ہے۔

” متاثر ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد کے ٹیسٹ نہیں ہو پائے ہیں، اگر پہلے ہفتے میں ہم نے حقیقت میں مرض میں مبتلا ہونے والے لوگوں کی تعداد کا اندزاہ مثال کے طور پر سرکاری اعداد و شمار سے پانچ گنا زیادہ لگایا تھا تو اب یہ اندازہ بلا شک و شبہ دس گنا سے زیادہ ہو چکا ہے“ خاتون ڈاکٹر نے بتایا۔

اگر یہ خیال کیا جائے کہ وہاں اس مرض میں مبتلا ہوئے لوگوں میں سے 75000 افراد کے ٹیسٹ مثبت آئے اور ڈاکٹر پیدرینی کے کہے پہ اعتبار کیا جائے تو یہ تعداد پوری دنیا میں اس مرض میں مبتلا ہوئے لوگوں کی تعداد سے زیادہ ہوگی، ممکن ہے دس لاکھ کے نزدیک۔

وہاں مرض اس قدر زیادہ کیونکر ہوا؟ اس کا حتمی جواب دیا جانا تو فی الحال ممکن نہیں ہے البتہ کچھ مفروضے ہیں، جن سے صرف نظر کیا جانا ممکن نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں۔

اٹلی میں اس طرح کا پہلا مریض 20 فروری کو صوبہ لمباردی کے شہر کودونو میں تشخیص ہوا تھا، تب تک سرکاری طور پر، دنیا بھر میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد تقریباً 70000 ہو چکی تھی جن میں 90 فیصد عوامی جمہوریہ چین میں تھے۔

ایک ماہ بعد اٹلی میں مریضوں کی تعداد بڑھ کر 50000 سے زائد ہو چکی تھی اور چار ہزار سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔

مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کی وضاحت، 20 مارچ کو، اٹلی کی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے یوں کی کہ پہلے مریض کی تشخیص سے کہیں پہلے صوبہ لومباردی کے بیشتر شہروں میں اس مرض کو بغیر ٹیسٹ کیے ”نامعلوم وائرس“ قرار دیا جاتا رہا اور اس سے متاثر ہر شخص نے کم سے کم مزید تین صحت مند افراد کو یہ مرض منتقل کر دیا۔

جن مریضوں پر تحقیق کی گئی ان کی اوسط عمر 69 برس تھی اگرچہ ان میں ایک ماہ کا بچہ اور 101 برس کی بڑھیا بھی شامل تھے۔ آدھے مریضوں کو ہسپتال میں داخل کیے جانے کی ضرورت پڑی جن میں سے ہر پانچویں مریض کو انتہائی نگہداشت کے شعبے میں ڈالنا پڑا تھا۔

محققین نے اپنی تحقیق میں یہ نہیں بتایا کہ اٹلی کے اس صوبہ میں مرض کا آغاز درحقیقت کب ہوا، بس اتنا لکھا ہے کہ ”بیس فروری سے بہت پہلے“۔

فلاڈلفیا یونیورسٹی میں ‌ حیاتیات کے پروفیسر انریکو بچی Enrico Buchchi زیادہ صحت کے ساتھ وقت کا تعین کرتے ہیں۔

پروفیسر بچی نے اپنے دلائل اس علاقے میں پہلے مریض کی تشخیص سے ایک ہفتہ پیشتر اپنے ایک علمی بلاگ میں تحریر کیے تھے۔

پروفیسر موصوف نے خاص طور پر اس جانب توجہ دلائی کہ دسمبر کے آخری ہفتے میں شہر پیاچینتسا، جو کودونو سے چند کلومیٹر دور واقع ہے، کے ہسپتال میں پھیپھڑوں کی سوزش میں مبتلا چالیس افراد کا بیک وقت علاج معالجہ کیا جا رہا تھا، تب ہی مقامی پریس نے اس بارے میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا بھی تھا۔

فروری کے آخر میں، جن کا علاج کیا گیا تھا ان میں نئی وائرس کے خلاف مدافعتی ذرات یعنی Antibodies کا سراغ لگایا گیا تھا۔ بچی کہتے ہیں یہ لوگ وائرس تب تک ساتھ لیے پھرے جب تک ماہرین نے وائرس کو نام نہیں دے دیا۔

جب تک صاف مطلع سے وبا کے اٹلی پر گرنے کا سرکاری طور پر اعلان ہوا، وبا اس سے دو ماہ پیشتر کی شروع ہو چکی تھی جس پر توجہ نہیں دی گئی۔

اٹلی میں یہ وائرس کب پہنچی اس بارے میں واضح نہیں ہے۔ وائرس کا جینیاتی تجزیہ تائید کرتا ہے کہ چین میں شروع ہوئے وائرس سے ہو بہو مشابہ ہے۔

اس بات سے صرف نظر نہیں کی جا سکتی کہ دوسرے ملکوں میں بھی وائرس تب ہی پہنچ چکی ہوگی، دسمبر کے اوائل یا وسط دسمبر تک۔

اٹلی میں عام موسمی زکام سے 65 برس سے اوپر کی عمر والے افراد کی اموات کے اشاریے، گذشتہ کئی برسوں میں باقی یورپ کی نسبت قریبا ”دو گنا رہے ہیں۔

گذشتہ برس کے نومبر میں اٹلی کے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے اندازہ لگایا تھا کہ 2013 سے 2017 تک زکام کی وباؤں نے ملک میں 70000 افراد کی جان لی تھی جو اوسط سے کہیں زیادہ تھی۔

2016 − 2017 کے موسم سرما میں اٹلی میں زکام سے اموات، ہر ایک لاکھ افراد میں 40 افراد رہی تھی۔ اگر تقابل کیا جائے تو دنیا میں چھاتی یا غدود پراسٹیٹ کے سرطان سے مرنے والوں کی تعداد ہر ایک لاکھ افراد میں 10 افراد، ملیریا سے 20، تپ دق سے 25 اور ایڈز سے 44 افراد رہی تھی۔

اس بارے میں اطالوی ڈاکٹروں نے اپنی تحقیق میں زکام سے زیادہ اموات کی کچھ وضاحتیں دی تھیں جن میں سے پہلی لوگوں کی اوسط عمر ہے۔ ڈاکٹر لکھتے ہیں، ”زیادہ اموات کو قطعی غیر عمومی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اٹلی میں بری صحت والے معمر افراد کی ایک بہت بڑی تعداد ہے“۔

جہاں اٹلی میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی اوسط عمر 63 برس ہے وہاں جرمنی میں ایسے مریضوں کی اوسط عمر 45 برس ہے۔

دوسری بڑی ممکنہ وجہ اٹلی میں انٹی بائیوٹکس کے زیادہ استعمال کو بتایا گیا تھا۔ یہ ادویہ وائرس کے خلاف تو یکسر کارگر نہیں ہیں مگر ان کے خلاف لوگوں کے جسموں میں مزاحمت Resistence پیدا ہو چکی ہے جو پہلے سے خراب صحت پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔

اشاریوں کے مطابق باقی یورپی اتحاد کے ملکوں کے باسیوں کے مقابلے میں اطالوی ڈیڑھ گنا زیادہ انٹی بائیوٹکس کا استعمال کرتے ہیں۔ اٹلی کے کسان بھی جو مویشی پالتے ہیں، ان کے علاج میں انٹی بائیوٹکس کا استعمال باقی یورپی یونین میں مویشیوں کو دی جانے والی انٹی بائیوٹک ادویہ سے زیادہ کرتے ہیں۔

چنانچہ موجب حیرت نہیں کہ اطالوی ہسپتالوں میں انٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت بھی دو گنی سے زیادہ پائی جاتی ہے۔

بہت سے ماہرین کے مطابق کورونا وائرس سے متاثرین میں تیزی سے اضافہ کی ایک بڑی وجہ 19 فروری کو میلان میں ہوا فٹ بال کا میچ رہا تھا۔ اس میچ کو دیکھنے کے لیے شہر برگامو سے قریب 50000 افراد پہنچے تھے جن میں سے اکثر نے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کیا تھا۔

اٹلی میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے پہلے شخص اذانو لومباردو میں مرض کی تشخیص اس میچ سے ایک روز بعد ہوئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments