اُنّیس سال کی امُولیا، سو سال کے شیخ مجیب اور چار ماہ کا کرونا


پاکستان زندہ باد۔ ہندوستان زندہ باد۔

کیا آپ نے کبھی کِسی شخص کو یہ دونوں نعرے ایک ساتھ لگاتے سُنا ہے؟ قوی امکان ہے کہ نہیں۔ اور اگر سُنا ہے تو اُس شخص کی مخبوط الحواسی پر آپ کو ہرگز شک نہیں گُزرا ہوگا۔ کیونکہ ہندوستان ہو یا پاکستان، اِن دونوں نعروں کا ایک ہی زبان سے اَدا ہونے کا مطلب آشُفتہ سَری کے سِوا کُچھ اور نہیں۔ اور کوئی بھی صاحبِ فراسَت خُود کو اِن القابات سے نوازے جانے کا متمنّی و متحمل نہیں ہوسکتا۔

لیکن دیکھیے بنگلور کی امُولیا لِیونا کو جِس نے یہ دونوں نعرے ایک ساتھ، ہزاروں کے مجمع کے سامنے، بنگلور کے فریڈم پارک کے اسٹیج پر چڑھ کر ببانگِ دُہل اِس طرح لگائے کہ ایک طرف آل انڈیا مجلسِ اِتحادُ المُسلمین کے صدر، اسد الدین اُویسی جیسے زِیرک سیاستدان کی پچّیس سالہ گروہی سیاست کی ٹانگیں کپکپا اُٹھیں تو دوسری طرف دہلی کے اعلیٰ ایوانوں میں ہلچل پیدا ہوگئی۔

امُولیا لِیوں ا کون ہے؟ یہ غیر ملکی ایجنٹ ہے یا باغی؟ کیا واقعی وہ اپنا دماغی توازن کھو چُکی ہے یا اِن نعروں کے پیچھے کوئی اور سوچ کار فرما تھی؟

امُولیا خاص سوچ رکھنے والی ایک عام سی لڑکی ہے جو ریاستی و سماجی سطح پر ہر قسم کے ظلم اور بربریت کے خلاف آواز اُٹھانے کو اپنا بنیادی شہری و انسانی حق سمجھتی ہے۔ وہ خواتین کے حقوق کی بات ہو، طلباء کے مطالبات منوانے کی یا بھارتی حکومت کے متنازع شہریت بِل کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ سڑکوں پر نِکل آنے کی، امُولیا نے ہر مشکل وقت میں دوسرے انسانوں کی آواز بن کر اپنے انسان ہونے کا ثبوت دِیا۔

20 فروری کو فریڈم پارک میں لگائے گئے یہ نعرے اور اُس سے چند روز قبل فیس بک پوسٹ جہاں امُولیا نے ہندوستان کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بنگلہ دیش سے لے کر سری لنکا اور نیپال تک تمام پڑوسی ممالک کو زندہ باد کہا تھا، اِسی ثبوت کے مظاہر تھے۔ فیس بُک پوسٹ کا معاملہ تو دُشنام طرازیوں، دھمکیوں اور دیش دروہی ہونے کے سرٹیفیکٹس تک محدود رہا تاہم، فریڈم پارک والا واقعہ زدوکوب، گرفتاری اور بغاوت کے مقدّمہ پر مُنتج ہوا۔

اب امُولیا کی قِسمت میں عمر قید ہو یا رِہائی لیکن جو بات یہاں قابلِ غور ہے وہ دراصل وہ شعوری سفر ہے جو اِس لڑکی نے فقط انّیس سال کی عمر میں طے کرلیا اور جسے برِّ صغیر کے بیشتر افراد پچھلے تہتّر سالوں میں طے نہیں کر پائے۔

اِس واقعہ کے حوالے سے این ڈی ٹی وی کے روِش کُمار صاحب نے دو مماثلتی تاریخی واقعات کا احوال پیش کِیا۔ پہلا یہ کہ مہاتما گاندھی کے قتل پر، باوجود اِس کے کہ تقسیمِ ہند کو چھ ماہ کا عرصہ بھی نہ گزرا تھا، قائِدِ اعظم نے تعزیتی بیان میں اُنہیں ایک عظیم رہنُما قرار دِیا۔ پِھر ایک ہفتہ بعد، 4 فروری 1948 کو قائدِ اعظم کی ہی زیرِ صدارت منعقد ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں مہاتما گاندھی کو خصوصی طور پر خراجِ تحسین پیش کِیا گیا جِس میں لیاقت علی خان نے اُنہیں اپنے دور کا عظیم ترین انسان قرار دِیا۔

دوسرا یہ کہ قائدِ اعظم کے انتقال کے دو ماہ بعد، 4 نومبر 1948 کو ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں ڈاکٹر راجندر پرساد کی تجویز پر مہاتما گاندھی کے ساتھ ساتھ قائدِ اعظم کی قابلیت کا اعتراف کرتے ہوئے اُنہیں بھی اپنے لوگوں کے لیے علیحدہ مُلک کے حصول پر خراجِ تحسین پیش کِیا گیا اور پاکستانی قوم سے تعزیت کا اظہار بھی کِیا۔

دونوں طرف کے بانی قائدین اور رہنماؤں کی اِس اعلٰی ظرفی اور اِقدار کی پاسداری کو موجودہ دور کے تناظُر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی سات دہائیوں میں آگے کا سفر تو درکِنار، ہم رواداری کے اُس مقام پر بھی کھڑے نہیں رہ پائے جہاں اِن رہنماؤں نے ہمیں چھوڑا تھا۔

حال ہی کی ایک مثال لیجیے، رواں ماہ بنگلہ دیش نے اپنے بانی قائد شیخ مجیب الرحمٰن کی پیدائش کے صد سالہ جشن کا آغاز کِیا۔ یہ جشن اُن کے یومِ پیدائش ( 17 مارچ) تا بنگلہ دیش کے یومِ آزادی ( 26 مارچ) تک دس دِن کی خصوصی تقاریب کے انعقاد کے علاوہ پورا سال جاری رہے گا۔ 17 مارچ کی خصوصی تقریب میں ظاہر ہے نریندر مودوی کو مدعُو کِیا گیا لیکن غالباً پاکستان کو ایسا کوئی دعوت نامہ موصول نہیں ہوا۔ بنگلہ دیشی حکومت کے پچھلے کُچھ سالوں کے پاکستان مخالف رویّے پر نظر ڈالی جائے تو یہ دعوت نہ آنا باعثِ حیرت نہیں ہے۔

اِسی طرح، اِس موقع پر ایشیا الیون اور ورلڈ الیون کے مابین 21 اور 22 مارچ کو شیڈول ٹی ٹوئینٹی کرکٹ میچز کے لیے ایشیا الیون میں کوئی پاکستانی کرکٹر شامل نہیں تھا (گوکہ کرونا وائرس کی وجہ سے یہ میچز ملتوی ہوگئے ) ۔ حالانکہ پاکستان کے کُچھ کھِلاڑی، جن میں بابر اعظم اور شاداب خان سرِ فہرست ہیں، ٹی ٹوئینٹی کے بہترین کھِلاڑی مانے جاتے ہیں۔ خبر آئی کہ پی سی بی نے پی ایس ایل میں مصروفیت کی وجہ سے بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ کی پاکستانی کرکٹرز کی شمولیت کی درخواست کو قبول کرنے سے معذرت کرلی تھی۔

یہاں یہ فرض کرنا خلافِ عقل نہیں ہوگا کہ اگر اِس موقع پر دونوں طرف سے فیصلے مذکورہ بالا فیصلوں سے مختلف بھی ہوتے تو دونوں ملکوں کی عوام یا مخصوص حلقوں کی جانب سے شدید ردِّ عمل اور احتجاج متوقع ہوتا۔ اور ہوتا بھی کیوں نہیں کہ ہم آج صرف وہی فصل کاٹ سکتے ہیں جِس کی آبیاری ہم نے تمام عمر کی ہے۔ مستقبل کی کِتاب لِکھتے ہوئے، حال کے ہر صفحے پر ہم نے محض ماضی کے سیاہ ابواب سے اقتباسات کو مکرّر رقم کِیا اور یہی کِتاب آنے والی نسلوں کے نصابوں اور ہاتھوں میں تھمائی گئی۔

نتیجتاً، کم سِنی سے لے کر شعوری سفر کے لیے پہلا قدم اُٹھانے تک، اپنے وطن کے زندہ باد ہونے کے ساتھ دُشمن کا مُردہ باد ہونا فطری اور لازم و ملزوم کی صورت ہماری سوچ کا حصّہ بن گیا۔ اِس سوچ نے ہیرو و وِلن اور ابتر و کہتر کا جو تعارف و تصّور مہیّا کِیا، ہم اُسی کی بنیاد پر حال کا ہر فیصلہ کرتے ہیں اور مستقبل کی راہ متیّن کرنے کے لیے بھی اُسی سے رہنمائی حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ لیکن اِس روایتی سوچ کے ساتھ ہم آنے والے وقت کے سیاسی، معاشی اور مذہبی چیلنجز کا سامنا نہیں کرسکتے۔

آج دُنیا اچانک جِس مقام پر آکھڑی ہوئی ہے وہ نہایت غیر معمولی سوچ اور اقدامات کی ڈیمانڈ کرتا ہے۔ چار ماہ کی مختصر مدّت میں جِس طرح کرونا کی وباء نے دنیا میں تباہی پھیلائی ہے، اُس کی مثال عالمی جنگوں کے علاوہ پچھلے سو سال میں نہیں مِلتی۔ اِس وقت معیشت سے لے کر سماجیات تک، رویّوں سے لے کر عقائد تک، تمام بنیادی نظریات و اُصولوں کو چیلنج کا سامنا ہے۔

معاشی طور پر دیکھیے تو صرف پچھلے ایک ماہ میں عالمی منڈیوں کے مجموعی نقصان کا تخمینہ 1929 کو شروع ہونے والے تین سال کے عرصے پر محیط گریٹ ڈِپریشن سے بہت زیادہ دُور نہیں۔ اِس عرصے میں امریکی اسٹاک مارکیٹ میں 35 فیصد جبکہ یورپی مارکیٹس میں 30 فیصد تک گِراوٹ آچکی ہے۔ جبکہ گریٹ ڈیپریشن میں یہ 50 فیصد تھی۔ چین میں، جو کہ اقتصادی لحاظ سے پوری دنیا کے لیے اہم ہے، گوکہ بحالی کی اُمید نظر آئی ہے لیکن دو ماہ کے لاک ڈاؤن نے وہاں صنعتی پیداوار میں 14 فیصد تک کمی کردی ہے۔ ایئر لائن انڈسٹری کو نائن الیون سے زیادہ بدتر دھچکا پہنچا ہے اور دنیا کی بڑی ایئرلائنز کے موجودہ بحران جاری رہنے کی صورت میں چند ماہ میں دیوالیہ ہونے کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔

اِس بحران کے ملبے سے سب کی چیخیں سُنائی دے رہی ہیں۔ نہ اِسے فقط غیر مسلموں پر اللہ کا عذاب قرار دینے والے دامن بچا پارہے ہیں اور نہ مذہب کو دقیانوسیت گرداننے والے۔ مسائل میں گھِرے ہوئے اور وسائل سے مالا مال، اِس وباء کے پھیلاؤ کو روکنے میں بے بسی کی سطح پر ہم پلّہ نظر آرہے ہیں۔ پنجہ آزمائی میں مصروف اور ایک دوسرے کو اپنے سامنے گھٹنوں کے بَل جُھکا دیکھنے کے خواہش مند، آج ایک دوسرے کی طبّی اور مالی مدد پر سراپا تشکّر بنے ہوئے ہیں۔

لہٰذا، کرونا کے مزید پھیلاؤ اور نتیجتاً لاک ڈاؤن یا بتدریج محدود ہوتی کاروباری و معاشرتی سرگرمیوں کا دورانیہ طویل ہونے کی صورت میں بڑی تباہی منہ کھولے سامنے کھڑی ہوگی۔ ایسی صورت میں دنیا اُس مقام پر پہنچ سکتی ہے جہاں معاشی و معاشرتی نظام، ٹیکنالوجی و جدّت، مذہبی و روحانی رُجحانات اور نظریاتی و جغرافیائی سرحدیں بقاء کی جنگ میں اپنی موجودہ اہمیّت کھودیں۔ اور عین ممکن ہے کہ دنیا کو بہت پیچھے سے دوبارہ آغاز کی ضرورت پیش آئے۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو انفرادی اور اجتماعی سطح پر بنیادی ترجیحات و نظریات پر نظرِثانی کی اشد ضرورت ہوگی۔ اِس وباء کا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ گلوبل کنیکٹیویٹی کے اِس دور میں کوئی آفت کسی ایک خطّے تک محدود نہیں رہ سکتی۔ اور ترقّی یافتہ ممالک کے سہولیاتِ زندگی سے بھرپور مقامات میں رہائش پذیر ہوتے ہوئے بھی کوئی شخص خود کو اِن آفات سے محفوظ تصوّر نہیں کرسکتا۔ لہٰذا پوری دنیا کو ہر نوع کی تفریق سے بالاتر ہوکر ایسا نظام تشکیل دینا ہوگا جہاں گلوبل ہیلتھ کرائسس سے نمٹنے کے لیے گلوبل ہیلتھ کیئر میکنزم موجود ہو۔

وسائل اور طاقت کے اِرتکاز کو مکمّل رَد کِیا جائے۔ معیشت کو مخصوص منڈیوں کی ترجیحات اور نیشن اسٹیٹس کے طے کردہ کُلیوں سے چلانے کے بجائے اقوامِ عالم کے مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔ معاشرتی اور بین الاقوامی سطح پر تکثیریتی سوچ کو ترجیح دی جائے۔ قوم پرستی اور نسل پرستی کو پسِ پُشت ڈال کر یہ سمجھ لِیا جائے کہ کِسی فرد و قوم کی بقاء و آسودگی دوسرے افراد یا اقوام کے مرگ و زوال سے نَتھی نہیں ہوسکتے۔ جِس طرح ہواؤں کو صرف اپنے تنفّس کے لیے قید نہیں کیا جاسکتا اُسی طرح زندہ باد ہونے پر دعویٰ استحقاق خلافِ فطرت ہے اور اپنے زندہ باد ہونے کے لیے دوسروں کا مُردہ باد ہونا ضروری نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments