کورونا وائرس: بنکاک میں پھنسے پاکستانی ، ’گھر والے پوچھتے ہیں گھر کب آؤ گے، انھیں کیا بتاؤں؟‘


گھر والے پوچھتے ہیں گھر کب آنا ہے، انھیں کیا بتاؤں کب آنا ہے؟

گذشتہ ہفتے جب تھائی ائیر ویز کی پرواز ٹی کے 349 کے مسافر بورڈنگ پاسز حاصل کرنے کے بعد جہاز میں سوار ہونے جا رہے تھے تو گیٹ پر انھیں بتایا گیا کہ آپ کی فلائٹ کینسل ہو گئی ہے اور انھیں گیٹ سے واپس لوٹا دیا گیا۔

یہ 50 مسافر مختلف ممالک سے براستہ بینکاک اسلام آباد جا رہے تھے۔ لیکن کورونا وائرس کے خدشے کے پیشِ نظر حکومتِ پاکستان نے اپنی فضائی حدود اچانک بند کر دیں۔

یاد رہے چار اپریل تک پاکستان میں بین الاقوامی فضائی آپریشن معطل ہیں جس کے سبب بے شمار پاکستانی مختلف ممالک کے ائیر پورٹس کے اندر اور باہر پھنس کر رہ گئے ہیں۔

line

خالی روضہ اور ویران کار پارک: خلا سے کورونا کا اثر کیسا لگتا ہے

کورونا وائرس: ایران حکومت کیا کہتی رہی اور شواہد کیا تھے؟

کورونا وائرس نے کیسے ’چین سے خوف‘ کو مزید عیاں کیا

چین میں مقیم پاکستانی طلبا وطن واپسی کے خواہشمند

’ڈر ہے کہ کورونا سے پہلے بھوک سے نہ مر جائیں‘


ان میں سے کچھ مسافروں کو بذریعہ سپیشل فلائٹس پاکستان لے جایا جا چکا ہے تاہم بےشمار افراد ابھی تک مختلف ممالک میں بنا ویزوں کے پھنسے ہیں۔

بینکاک ائیر پورٹ میں پھنسے 50 افراد میں بزرگ، 7 بچے اور ایک حاملہ خاتون بھی شامل ہیں۔ انھیں ائیر پورٹ میں بند ہوئے آج ایک ہفتہ ہونے کو ہے اور یہ سب افراد ایک ہی لاؤنج میں ایک طرح سے قید ہیں۔

انھی مسافروں میں جاپان سے پاکستان جانے والے عرفان بھی شامل ہیں۔ عرفان اپنی بیوی اور دو بیٹیوں (4 اور 2 سال) کے ساتھ ائیر پورٹ پر موجود ہیں۔

عرفان کہتے ہیں ’جب جاپان سے جہاز اڑا تو میں نے چیک کیا کہ کیا اگلی فلائٹ مقررہ وقت پر ہے یا نہیں۔ اگلی فلائٹ بالکل مقررہ وقت پر جارہی تھی۔ سب ٹھیک تھا۔‘

’ہم 3:15 پر یہاں پہنچے اور اس وقت تک بھی اگلی فلائٹ مقررہ وقت پر جا رہی تھی اور ہم مطمئن تھے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہونے والا۔ 6:45 پر ہماری فلائٹ روانہ ہونی تھی لیکن جب 6:30 پر ہم بورڈنگ کرنے لگے تو انھوں نے اعلان کیا کہ آپ کی فلائٹ کینسل ہو گئی ہے۔‘

عرفان کہتے ہیں ’یہ پچھلے سنیچر کی بات ہے اور آج ہمیں ائیر پورٹ میں بند ہوئے پورا ہفتہ ہو گیا ہے۔ ہم باہر نہیں نکل سکتے۔۔ یہاں کے حکام ویزہ نہیں دیتے اور ہاکستانی حکومت جہاز لینڈ کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کیا کریں۔ تھائی ائیر والے کہتے ہیں آپ کی حکومت کا قصور ہے انھوں نے آخری وقت میں پروازیں بند کر دیں اس لیے ہم نہیں جا سکتے۔‘

عرفان کے مطابق ’ہم تقریباً 57 افراد ٹرانزٹ والے تھے اس کے علاوہ 20 مسافر اور تھے کیونکہ اس روز دو فلائٹس پاکستان جا رہی تھیں، ایک لاہور اور دوسری اسلام آباد اور دونوں تقریباً ساتھ ساتھ ٹیک آف کر رہی تھیں۔ جو تھائی لینڈ سے بورڈ ہو رہے تھے وہ وہیں سے باہر نکل گئے۔ 5-6 لوگ ایسے تھے جو کوریا اورملائشیا سے آ رہے تھے ان کے پاس ان ممالک کے ویزے تھے اس لیے وہ واپس لوٹ گئے۔‘

پہلے چار روز تو ہم نے بنچوں پر بیٹھ کر گزار دیے۔ پھر تھائی ائیر لائن نے ہمیں ایک لاؤنج کھول دیا (عرفان نے بتایا کہ تھائی ائیر نے لاؤنج میں منتقل کرنے سے قبل ان سب کا چیک اپ اور کم از کم 10 افراد کا کورونا ٹیسٹ بھی کیا ہے) لیکن اس میں بھی انھوں نے ہمیں پچھلے 48 گھنٹے سے بند کیا ہوا ہے۔‘

عرفان ہنستے ہوئے کہتے ہیں یہ ’ایک طرح کی آئسولیشن ہی ہے بس اتنا ہے کہ ہم 51 افراد ایک ہی کمرے میں ہیں۔‘

پاکستانی سفارت خانے سے امداد کے متعلق عرفان کہتے ہیں کہ سفارت خانے کا عملہ ان کی ہر طرح سے مدد کر رہا ہے۔ سفارتی عملہ تین وقت کا کھانا، دوائیں، بچوں کے لیے دودھ اور پیمپر وغیرہ سب پہنچا رہا ہے۔

عرفان کے مطابق سفارت خانے والوں نے ویزے کے لیے بھی بھرپور کوشش کی اور ہوٹل بھی بک کروا لیا تھا جہاں پروازوں کی اجازت ملنے تک ہمیں رکھاجا سکے لیکن تھائی حکام نے ویزہ نہیں دیا۔

عرفان کہتے ہیں ’یہاں سارا قصور حکومتِ ہاکستان کا ہے جنھوں نے سب سے پہلے تو جلدی میں فیصلہ کیا اور فلائٹس آپریشن صرف 4 گھنٹے کے نوٹس پر بند کر دیا۔ ہاکستان میں صبح کے چار بجے تھے جب انھوں نے اعلان کیا۔ انھوں نے اتنا وقت بھی نہیں دیا کہ وہ سب لوگ جو ائیرپورٹس پر ٹرانزٹ میں تھے کم از کم وہ پاکستان پہنچ سکتے۔‘

وہ کہتے ہیں ’دنیا میں جتنے ممالک بھی ایسا کر رہے ہیں وہ کم از کم 48 گھنٹے کا نوٹس دیتے ہیں۔ کچھ ملکوں نے تو چار چار پانچ پانچ دن تک کا نوٹس دیا ہے تاکہ ان کے جتنے لوگ باہر کسی بھی وجہ سے گئے ہیں وہ اپنے ملک واپس آ سکیں۔ پاکستان نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اسی لیے پاکستانی دبئی، دوحہ اور ترکی کے ائیر پورٹ میں پھنس کر رہ گئے۔‘

یاد رہے دبئی اور دوحہ میں پھنسے مسافروں کو بذریعہ سپیشل فلائٹس ہاکستان لے جایا جا چکا ہے تاہم پاکستانی سفارت خانے کے مطابق اس وقت کم از کم 175 افراد ترکی میں پھنسے ہیں۔ اس کے علاوہ ترکی ائیر پورٹ کے اندر پھنسے 40 مسافروں کو ترکی کے قرنطینہ مراکز میں لے جایا جا چکا ہے۔

چھوٹے بچوں کے ساتھ ایک ہفتے تک ائیر پورٹ کے ایک کمرے میں پھنس کر رہ جانا یقیناً بہت اذیت ہے۔ عرفان اور ان جیسے تین اور خاندانوں کے لیےبھی بچوں کو سنبھالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

خصوصی پرواز کے انتظامات کے متعلق عرفان کہتے ہیں ’ہمیں بتایا گیا ہے کہ شاید کل ہاکستان جا سکیں لیکن پچھلے پانچ دن سے وہ کل ہی نہیں آ رہا۔ میں تب تک 100 فیصد یقین نہیں کروں گا جب تک ہاکستان اتر نہ جاؤں۔‘

وہ کہتے ہیں ’پاکستان پہنچ کر میں اپنے خاندان سمیت خوشی خوشی قرنطینہ میں 14 دن گزارنے کو تیار ہوں لیکن خدا کے واسطے ہمیں یہاں سے نکالیں۔‘

ان مسافروں میں کمبوڈیا میں زیرِ تعلیم سعدیہ چوہدری بھی شامل ہیں۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے کے باعث سعدیہ کی یونیورسٹی میں کلاسز کینسل ہوگئیں اور وہ گھر واپس جا رہی تھیں۔

سعدیہ کہتی ہیں ’پہلی رات سفارت خانے والے آئے ہمیں ڈنر واؤچر دلا کر چلے گئے کہ کل آئیں گے۔ اگلے دو روز میں انھوں نے آہستہ آہستہ کھانے اور ادویات، ماسک اور سینیٹائزر کا انتظام کیا لیکن ہاکستان جانے کا کچھ بھی نہیں بتایا کہ کیا ہو گا۔ بس یہی کہتے ہیں کہ ہم کوشش کر رہے ہیں۔‘

یہ سب افراد ایک ہی لاؤنج میں بند ہیں۔ سعدیہ پریشان ہیں کہ کسی بھی وقت کسی مسافر میں کورونا کی تشخیص ہو جائے تو پھر باقیوں کا کیا ہو گا۔

سعدیہ کے مطابق ’سفارت خانے والے کھانا تو دے رہے ہیں لیکن صرف کھانا دینا حل نہیں نا۔ گھر والے پوچھتے ہیں کہ تم نے کب آنا ہے تو اب انھیں کیابتاؤں؟۔‘

سعدیہ چاہتی ہیں حکومت جلد از جلد کوئی فیصلہ کرے ’ہر روز یہی سنتے ہیں کل کچھ ہو جائے گا۔۔ قطر اور دوحہ ائیر پورٹ میں پھنسے لوگوں کو ہاکستان لے جایا جاسکتا ہے تو ہمیں کیوں نہیں؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp