کرونا وائرس پھِیلاؤ میں اتنا کامیاب کیوں ہو رہا ہے؟


حلانکہ یہ ناول وائرس جانوروں سے انسانوں میں آیا ہے لیکن یہ یقینی طور پر انسانوں کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ٹھہرا ہے۔ اس وائرس کی سب سے زیادہ مماثلت چمگادڑوں میں پائے جانے والے وائرس سے ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ناول کرونا وائرس کا ظہور بھی چمگادڑوں ہی سے ہوا ہے اور وہیں سے یہ بالواسطہ یا بلاواسطہ انسانوں تک پہنچا۔ ( کرونا وائرس کی ایک اور قسم جو کہ جنگلی یینگولین میں پائی جاتی ہے اس کا چھوٹا حصہ ناول کرونا وائرس کے چھوٹے حصہ سے بہت ملتا ہے اور یہی حصہ انسانی جسم میں پائی جانے والی پروٹین ACE 2 سے چپکتا ہے جبکہ باقی کا تمام وائرس پینگولین وائرس سے مختلف ہے اس لیے ہم اس وائرس کے بارے یہ نہیں کہ سکتے کہ یہ پینگولین سے آیا ہے ) ۔ جب سارس وائرس آیا تھا تو اس کو ACE 2 پروٹین کو پہچاننے کے لئے کچھ وقفہ درکار تھا تا کہ اس دوران وہ ضروری تبدیلیاں کر سکے لیکن یہ جو نیا کرونا وائرس ہے اسے ایسی کوئی تبدیلی درکار نہیں اور یہ پہلے دن سے ہی ایسا کر رہا ہے۔ اسے انسانوں کا وائرس بننے کے لئے بہترین راستے کا شاید پہلے ہی پتا تھا یہ کہنا تھا میتھیو فرائی مین کا جو کہ یونیورسٹی اور میری لینڈ کے اسکول آف میڈیسن سے وابستہ ہیں۔

یہ جو پراسرار مماثلت ہے بلاشبہ یہ سازشی نظریات پھیلانے والوں کی ہمت بڑھاتی ہے۔ اس میں عجب یہ ہے کہ ایک ایسا چمگادڑوں کا وائرس سامنے آتا ہے جس میں وہ تمام خصوصیات اس ترتیب سے موجود ہیں جو کہ وہ ظاہر ہوتے ہی بڑے موثر انداز میں انسانوں کے خلیے میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر وہاں سے کسی غیر مشکوک شخص میں داخل ہو جاتا ہے۔ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے۔ انڈریسن کا کہنا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو باہر لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں وائرس ہوتے ہیں۔ یہ وائرس اتنے زیادہ ہیں کہ جو عموماً نہیں بھی ہونا ہوتا بعض اوقات وہ ہو بھی جاتا ہے۔

جب سے یہ ناول کرونا وائرس آیا ہے تب سے اب تک اس میں کوئی بھی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی۔ یہ خود کو اسی طرح تبدیل کر رہا ہے جیسے طرح کہ دوسرے وائرس کرتے ہیں۔ لیکن سو سے زیادہ تبدیلیاں جو کہ اس میں اب تک رونما ہوچکی ہیں ان میں سے کوئی بھی غالب نہیں ہے جس کامطلب یہ ہوا کہ یہ تبدیلیاں اہمیت کی حامل نہیں ہیں۔ اور یہ وائرس قابل ذکر حد تک مستحکم ہے جس کا اندازہ اس کے پھیلاؤ سے ہوتا ہے یہ کہنا تھا لیزا گریلنسکی کا جو کہ یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا سے وابستہ ہیں۔ یہ کوئی اتنی غیر معقول بات بھی نہیں ہے کیوں کہ وائرس پہ مزید بہتری کے لئے کوئی ارتقائی دباٶ نظر نہیں آ رہا ہے کیوں کہ وہ پہلے ہی دنیا بھر میں بہت اچھی طرح سے اپنا کام کرتا نظر آرہا ہے۔

ہاں البتہ ایک قابل ذکر تبدیلی سنگاپور کے ان لوگوں میں سے پائی گئی ہے جو کووڈ۔ 19 کا شکار ہوئے ان کے جسم سے ملے ناول کرونا وائرس میں 6 جینز کا ایک ایسا حصہ موجود نہیں تھا جو کہ سارس کے پھیلاؤ کے وقت بھی اس بیماری کے اختتامی لمحات میں غائب ہو گیا تھا۔ اس تبدیلی سے اصل وائرس کی ہلاکت آفرینی میں کمی واقع ہوئی تھی۔ لیکن ناول کرونا وائرس کے بارے میں ابھی یہی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ بے شک ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کچھ کرونا وائرس دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ زہریلے کیوں ہوتے ہیں؟ فرائی مین کا کہنا ہے کہ حقیقتاً ہمیں اس بارے بالکل بھی جانکاری نہیں ہے کہ سارس اور ناول کرونا وائرس اتنے ہلاکت خیز کیوں ہیں جب کہ OC 43 صرف ناک کے بہنے تک ہی اثر رکھتا ہے۔

محققین ابھی تک ایک ابتداعی نوعیت کا جائزہ ہی پیش کر سکتے ہیں کہ کیسے ناول کرونا وائرس لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جیسے ہی یہ انسانی جسم پر پہنچتا ہے تو یہ ایسے خلیوں پر حملہ آور ہوتا ہے جن میں ACE 2 پروٹین موجود ہوتی ہے اور جو کہ ہمارے جسم میں ہوا کی گزرگاہوں کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ اب یہاں پر خلیے مرتے جاتے ہیں اور جمع ہوتے جاتے ہیں جس سے ہوا کے راستے میں رکاوٹ پیدا ہوتی جاتی ہے اور وائرس انسانی جسم میں مزید آگے کی طرف بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ پھیپھڑوں میں پہنچ جاتا ہے۔ جیسے جیسے وائرس کی بڑھوتری ہوتی جاتی ہے انسانی پھیپھڑوں میں مرے ہوئے خلیات اور رطوبت کی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے جس سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔

ہمارا مدافعت کا نظام حرکت میں آتا ہے اور وائرس پر پلٹ کر حملہ کرتا ہے جس کی وجہ سے سوزش اور بخار کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں۔ لیکن انتہائی حالات میں ہمارا مدافعاتی نظام اتنا شدید ردعمل دیتا ہے جو کہ ہمیں وائرس سے بھی زیادہ گزند پہنچا دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ہماری خون کی نالیاں مدافعاتی خلیوں کو بیماری کی جگہ پر پہنچانے کے لئے مزید کھل جاتی ہیں، یہ بہت اچھی بات ہے لیکن اگر خون کی نالیوں سے خون بہنا شروع کردے تو ہمارے پھیپھڑوں میں بہت زیادہ مائع مواد جمع ہو جائے گا۔ اس طرح کے نقصان دہ بے جا شدید ردعمل کو Cytokine Storms حرکیت خلوی کا طوفان کہتے ہیں۔ اور تاریخی طور پر اس سے 1918 میں پیدا ہونے والے وبائی زکام، H 5 N 1 بڑڈ فلو اور 2003 میں سارس جیسی وباٶں کے پھوٹنے پر بہت زیادہ اموات ہوچکی ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ کووڈ 19 سے ہونے والے شدید نوعیت کے واقعات کے پیچھے بھی یہی ردعمل کار فرما ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments