ایسی دھوپ اور ایسا سویرا پھر نہیں ہو گا


اس شہر میں اترنا اور تنہا اترنا ایڈوینچر تھا، شوق، یا جستجو۔ ضرورت تھی کہ سیاحت؟ کچھ بھی تھا میں اس منزل سے گزر گئی تھی۔ جہاز کی کھڑکی سے نیچے نظر آتی وادی نما شہر اسلام آباد پر نظر ڈالتے نہ کوئی خوشی تھی نہ غم۔ پلکیں بھیگی تھیں اور دل میں خدشات کی تیز ندی بہہ رہی تھی۔ ایک انجان شہر کی انجان گلیوں میں، انجانے لوگوں کے بیچ مگر بس یہی احساس تھا کہ میری شناخت کے خانوں میں اس سرزمین کا نام لکھا تھا اور دنیا میں کہیں بھی ہمارے نام سے پہلے اس کا نام آتا تھا۔ حقیقتوں سے واصل ہونا تھا، کچھ اور خوابوں کی کرچیاں چننی تھیں، چہروں پر سے کچھ اور رنگ اترنے تھے اور فاصلوں کی دھند میں سے حقائق کو سر اٹھا کر اونچا ہو کر ابھرنا تھا۔ اس سفر اور دوسری ہجرت کا مقصد جو بھی تھا میں نے وہ تمام مقاصد پا لیے تھے۔

اور اب جب دوسری ہجرت میں سے ایک تیسری ہجرت یا واپسی کا سورج طلوع ہو رہا ہے تو ایوب پارک کی اس خوبصورت شاہراہ کے کئی دلوں اور تیروں سے کھدے ہوئے بینچ سے ٹیک لگائے میں سوچتی ہوں کہ پرندوں کی یہ چہچہاہت، اور نئی کھلتی کلیوں کی یہ مہک کیا مجھے تلاشے گی؟ ان درختوں کو جنہیں میں نے سرد رتوں میں لبادہ اتارتے، سوکھتے مرجھاتے اور پھر کونپل کونپل نیئے رنگ میں ڈھلتے نئے روپ سے کھلتے دیکھا ہے۔ کیا ان کی عمر میں میرے نام کا کوئی حوالہ ہو گا یا اگلی خزاں کے ساتھ یہ میرا ذکر اور حوالہ بھی نئے لوگوں کی راہ میں نچھاور کر دے گا۔

کیا یہ موسم، نظارے، وادیاں اپنے دیوانوں کو بھول جاتی ہیں؟ تو یہ ستم گر انساں کیوں یادوں، محبتوں اور اذیتوں کی گلی سڑی پوٹلی ہمیشہ کاندھے پر لادے زندگی کے ہر سفر پر ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہے۔ چاہے کندھوں میں کیسا ہی خم آ جائے، چاہے پاؤں کے نیچے چھالوں سے لال رنگ کی حرارت بہہ نکلے، چاہے دل میں دبی اذیتیں سب سانسیں نچوڑ دیں، ہاتھ سے چاہے حسن، صحت، زندگی دولت کچھ بھی جائے، بس کوئی یاد، کوئی زخم رہیں، جو کبھی نہ بھر سکیں، کچھ یادیں تلخ ہی سہی ہمیشہ پلو سے بندھی رہنی چاہیں۔

بہار کے آغاز سے درختوں پر نئی ہری ہری معصوم دوشیزہ کونپلیں ابھر رہی ہیں۔ خوبانی اور بادام کے سفید اور پیلے پھولوں سے خالی خشک شاخیں پھر سے زندگی سے امنڈنے لگی ہیں۔ کتے اسی طرح آزادی اور شان سے دندناتے ہیں اور انسان ”، کچھ انساں بھی تھوڑے بہت فرق سے کبھی بیماری سے عاجز کبھی بڑھتے وزن سے خوفزدہ اور کچھ میری طرح ان رنگوں کو جی بھر کر دیکھ لینے کے لئے، پرندوں کے گیتوں سے سماعتوں کو ہمیشہ کے لئے تر کرنے کے لئے اس سرخ اور مٹیالی اینٹوں کے اوپر ہواؤں کی طرح دائروں میں گھومتے ہیں۔

ان لوگوں سے آخر میرا تعلق کیا ہے؟ اب سوچتی ہوں کہ ان لوگوں سے بھلا کیا رشتہ تھا میرا؟ کیوں انسان گزرے موسموں کو ہمیشہ محبت سے سوچتا ہے؟ بچپن اور جوانی کی یادیں اس قدر محسورکن کیوں ہوتی ہیں کہ انسان ہمیشہ ان کی طرف لوٹ جانا چاہتا ہے؟ یہ بات الگ کہ ان کی طرف لوٹ کر بھی انسان اس طلسم و ہوش ربا کو چھو نہیں پاتا جو کوئی یاد بن کر اس کے دل و دماغ کے جسم میں ہمیشہ پیوست رہتا تھا۔ مگر یہ سچ ہے کہ ان انسانوں سے میرا آج بھی کوئی تعلق نہ تھا مگر ان روشوں کے رنگوں سے، پھولوں کی نرمی، پتوں کی تروتاذہ ہریالی سے، درختوں سے چھنکتی بکھرتی سورج کی تمازت سے اور جھیل میں پھیلتی پانی کی لہروں سے میرا رشتہ ان مہینوں میں اس قدر گہرا بندھ چکا تھا کہ مجھے اس شہر میں عمر بھر جینے کے لئے بھی بس یہی ایک تعلق کافی تھا۔

اس روش پر اکثر قدم قدم چلتے میں نے ہر بار رک کر پانی کی اس چھوٹی سی ندی کو دیکھا ہے جو ایک مائیکرو آبشار کی طرح نالیوں میں دھیرے سے گرتی تھی۔ خزاں میں درختوں سے گرتے سوکھے پتوں سے سجی راہ پر سے میں بارہا گزری اور کئی بار میں نے گزر گزر اور رک رک کر دیکھا۔ چڑیوں اور طوطوں کی چہچہاہٹ کے پیچھے لپک کر ان کے آشیاں تلاشے ہیں، پھولوں کے قریب ہو کر سونگھا، درختوں کی شاخوں، کلیوں کی نزاکت کو کئی بار دھیرے سے چھوا ہے اور سوچا ہے کہ کیا اس شہر کا انساں اس بات سے بے خبر ہے کہ اس سے محض چند قدم کے فاصلے پر ایک جنت بستی ہے جس میں جو چاہے جب چاہے اتر سکتا ہے۔

کوئی امیر ہو کہ غریب، جب چاہے ان مفت کے نظاروں میں خود کو کھو سکتا ہے، ان کی ٹھندی نرم چھاؤں کو بانٹ سکتا ہے، پھولوں کے رنگ اور خوشبو سے اپنا پورا جیون نہیں تو کم سے کم کچھ پل ضرور مہکا سکتا ہے، اپنی بصارتوں اور بصیرت کو جلا دے سکتا ہے۔ بدقسمتی سے انسانوں کے ہمارے ہجوم کے پاس بہت سی وجوہات کی بنا پر ان ذوق جمالیات کے تقاضوں کو نبھانے کا وقت اور حوصلہ نہیں۔ اس کے باوجود کہ یہ سب اسی زمیں کے غریب امیر، طاقتور مسکین انساں کے لئے رب کائنات نے ڈھیروں ڈھیر یہ نعمت اتار رکھی ہے۔

مگر خدا کی ہر نعمت جھٹلا دینے والا انساں اپنے سامنے اترتی ان خوبصورت صبحوں اور ان کی شفا، ڈھلتی پر تاثیر شامیں اور ان کے سکوں سے بیزار ہیں۔ اس شہر کے انساں کو محض ان نعمتوں سے غرض ہے جو اس کے ہاتھ میں تھامے ورق پر ان کے معاشرے نے لکھ دی ہیں۔ اس سے آگے اور اس سے زیادہ ان کے دامن میں اور قدموں تلے جیسی بھی نعمت آ کر گر پڑے یا کچلی جائے اسے غرض ہی نہیں۔

میرے آس پاس باغ کے مالی خموشی سے اپنی اپنی کیاریوں میں بیٹھے گوڈی میں مصروف ہیں۔ پھولوں سے بھری شاہراہوں پر، سبزے سے بھرپور زمین پر گوڈی میں مصروف یہ لوگ کیا معاشرے کا مسکین ترین طبقہ ہے یا مراعات یافتہ طبقہ ہے جسے ان بہاروں کی قربت فرض اور ذمہ داری بنا کر سونپ دی گئی ہے۔ بغیر چار کنال کا گھر بنائے، بغیر دیواروں کے اندر اپنی جگہ محدود کیے یہ ایکٹروں پر مشتمل باغ کے تنہا مالک ہیں۔ کیوں ہم انساں کاغذات پر اپنے نام زمینیں لکھوا کر، ا ینٹوں کی دیواروں کے اندر اپنی محدود سی جگہ گھیر کر خوش ہوتے ہیں؟ کیوں مفت کی ہر طرف پھیلی خوبصورت چھاؤں اور چمکتی دھوپ ہمیں اپنی نہیں لگتی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments