بحیثیت پاکستانی مسلمان کورونا سے میں نے کیا سیکھا؟


برصغیر میں عموما اور پاکستان میں خصوصا، مسلمانوں کے مختلف گروہوں / فرقوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ ہر کوئی اپنی دکان سجائے بیٹھا ہوتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال ہمیں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران دیکھنے کو ملی۔ اس کے علاج کے لئے کوئی دم کر رہا تھا تو کوئی اجتماعی دعا (یا پھر تعریف) ، کوئی تعویز تو کوئی کبوتر کے پوٹہ سے علاج کا مشورہ، کوئی خواب کا حوالہ دے رہا تھا تو کوئی وظیفہ بتا رہا تھا۔ غرض ہر طرف افرا تفری کا عالم تھا۔

اس وبا کے دونوں میں جو چند ایک باتیں کھل کر سامنے آئیں وہ کچھ یوں ہیں :

اول، برصغیر کے مسلمانوں (اکثریت) کا المیہ ہی یہی ہے کہ وہ ایک سنت کی پیروی میں دس فرائض کو پامال کرنے میں کوئی دکھ محسوس نہیں کرتے ہیں بلکہ اس بات کی تلقین بھی کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی۔ مثال کے طور پر کسی کی جان بچانا افضل ہے بنسبت ہاتھ ملانے کے۔ لیکن ان دنوں ہمارے لوگ مصافحہ کر کے جان لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ حالانکہ سنت نبوی سے یہ ثابت ہے کہ اس طرح کے معاملات میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

دوم، برصغیر پاک و ہند میں جو بات حق ہو اس کی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ ’کس‘ نے ’بات‘ کی ہے اس کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر آپ کے مخصوص گروہ کا لیڈر پیر/امام/امیر کوئی بات کرتا ہے (چاہے وہ کتنی ہی بے کار بات ہی کیوں نہ ہو) اسے ہی کلمہ حق مانا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن بار بار اس بات پر زور دے رہی تھی کہ ائسولیشن میں رہیں، ہاتھ دھوئیں، وغیرہ۔ لیکن سارے ’مقلد اور پیروکار‘ لوگ ان باتوں کا مذاق اڑانے میں مصروف عمل تھے۔ لیکن پچھلے چار پانچ دنوں سے جوں ہی مذہبی رہنماؤں نے ان ہی باتوں کو دھرانا شروع کیا تو یہ لوگ ان کو کسی الہامی ذرائع کا درجہ دینے لگے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس پر صحت کے شعبے سے منسلک اداروں کی باتوں کو اہمیت دی جاتی۔

سوم، اس افراتفری کی وجہ مذہبی گروہوں کی بے لگامی ہے۔ اگر ان سب گروہوں /فرقوں کو انسٹیٹیوشنلائز کیا جائے تو بہت سارے مسائل حل ہوں گے۔ اس بات کو اگر پاکستانی تناظر میں دیکھا جائے تو اسماعیلی کمیونٹی زبردست منظم ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی اور جمیعت علماء اسلام والے قدرے ریشنل ثابت ہوئے ہیں۔ اور اس کو اگر عرب دنیا کے تناظر میں دیکھا جائے تو خانہ کعبہ کی بندش کے بعد بھی کوئی افرا تفری نہیں پھیلی جبکہ پاکستان میں مساجد کو بند کرنے کی طرف اشارہ دینے سے ہی حکومت وقت پر یہودی ایجنٹ ہونے کے الزاماتلگ رہے ہیں۔ ان میں نظم و ضبط کا تعلق ان ملکوں میں مذہبی نظم و ضبط یا ان گروہوں کا منظم ہونے سے ہے۔

اس وبا کے دوران سب کچھ ہو رہا تھا، اگر کچھ نہیں تو وہ تھی تدبیر۔ ان سب کی وجہ شاید ہماری دین سے دور ہے۔ دین فطرت (اسلام) سے دوری کی وجہ جو میری سمجھ میں آئی ہے وہ مولانا مودودی کے یہ الفاظ ہیں : ”اسلام عجم تک پہنچتے پہنچتے اپنی اصل روح کھو گیا“۔

اسلام دین فطرت ہے نہ کہ غیر لچکدار قوانین کا پلندہ۔ یہ وقت اور حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی پے۔ اس وجہ سے دین اسلام کو یونیورسل مذہب کہا جاتا ہے۔

بحیثیت امت مسلمہ ہمارا المیہ ہی یہی ہے کہ ہم کوئی بھی چیز جو ہم نے سیکھا ہو چاہے وہ جہالت پر ہی مبنی کیوں نہ ہو اس کو بھلانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ جب پہلی سیڑھی ہی عبور نہیں کر پاتے ہیں تو پھر دوسری سیڑھی یعنی سیکھنے تک کس طرح پہنچ سکتے ہیں!

اس لئے وقت کا تقاضا یہی پے کہ ہم اپنے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ حق کو حق کہیں، چاہے جس کسی نے بھی کہا ہو۔ اسلام کو برصغیر یا فرقے کی عینک سے نہ دیکھیں بلکہ اسے عالمگیریت کی عینک سے دیکھیں۔ حالات کو سمجھیں اور ان حالات کے مطابق فیصلہ کریں نہ کہ کسی کی اندھی تقلید کر کے اور نہ ہی کسی پیر و مرشد کی بات کو حرف آخر جان کر، بلکہ حق کو حق کہیں قطع نظر اس کے کس نے یہ بات کہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments