کرونا وائرس اور اگلی معاشی طاقت


انسان کی 10000 سالہ معلوم سیاسی تاریخ میں کسی حکمران کا ایسا عظیم الشان جلوس کسی نے نہ دیکھا۔ 22 جون 1897 کو ملکہ وکٹوریہ کے اقتدار کی گولڈن جوبلی پریڈ ہوئی۔ بکنگھم پیلس سے شروع ہونے والی پریڈ کا اختتام سینٹ پال کے گرجا گھر میں ہونے والے دعا پر ہوا۔ چھ میل لمبی اس پریڈ کو دیکھنے لیے پوری دنیا سے تیس لاکھ لوگ آئے اور

پچیس ہزار فوجی اِس کا حصہ بنے۔ پریڈ کی ترتیب کچھ ایسی تھی کہ سب سے آگے شمالی بورنیو کی پولیس کے دستے، اس کے بعد نیوزی لینڈ کے قدیمی باشندے، مغربی افریقہ کے کالوں کے دستے، کیپ کالونی کے رسالے سوار، ہانگ کانگ کے کے مقامی فوجی، شاہی نائیجیریا کے جنگجو، سائپرس کے فوجی اور اس کے بعد آسٹریلیا اور کینیڈا کے فوجی۔ آرمی دستوں کے پیچھے مختلف علاقوں میں تعینات برطانیہ کے وزرائے اعظم اور گورنر، اس کے بعد برطانوی فوج کے مختلف عہدے دار۔ اس کے بعد پوری دنیا سے شرکت کرنے والے 20 بادشاہ۔ آخر میں ملکہ اس شان سے اپنی بگھی میں سوار تھی کہ اس کے چاروں طرف ہندوستانی فوجی محافظوں کا دستہ۔ اس پریڈ کا مقصد اس بات کا عملی مظاہرہ کرنا تھا کہ برطانوی حکومت اتنی بڑی ہے کہ اس میں سورج غروب نہیں ہوتا۔

جس وقت برطانوی حکمران اپنی نوآبادیوں سے دولت اکٹھی کرنے اور اپنے جاہ و جلال کی نمائش میں مصروف تھے۔ عین اسی عرصے میں امریکہ اپنی صنعتوں کو جدید طریقوں پر استوار کر رہا تھا۔ امریکہ اپنے صنعتکاروں کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا کہ وہ جدید صنعتی رجحانات کو سمجھیں، جدید مشینری اپنائیں، اپنی پروڈکشن تیز کریں تاکہ کم وقت میں زیادہ اور معیاری مصنوعات بن سکیں۔ اسی دور میں امریکہ میں ہیوی صنعتی مشینری اور گاڑیاں بنانے کے بڑے بڑے ادارے وجود میں آئے۔ جن میں سے ایک فورڈ اور جنرل موٹرز تھے۔

انیس سو انتالیس میں دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی۔ تقریباً پوری دنیا اس میں کود پڑی۔ امریکہ کا صدر فرینکلن روزویلٹ اور جنرل موٹرز کا صدر پال نوڈسن تھا۔ روز ویلٹ نے نوڈسن کو ایک ڈالر تنحواہ پر قومی دفاعی مشاورتی کونسل کا سربراہ بنا دیا۔ نوڈسن امریکہ کی 200 سالہ تاریخ کا واحد سویلین تھا جو براہ راست لیفٹیننٹ جنرل تعینات ہوا۔ آج تک کسی امریکی کو یہ اعزاز نہیں ملا۔ آگے کے پانچ سال دنیا کے لیے ایک سبق ہے۔ نوڈسن نے ملک کے تمام ہیوی مشینری بنانے والے کارخانوں کہ اسلحہ ساز فیکٹریوں میں تبدیل کر دیا۔

مثال کے طور پر جنرل موٹرز نے جنگِ عظیم دوم کا سب سے تباہ کن جنگی جہاز بی۔ 24 لیبراٹر بنانے میں اس قدر مہارت حاصل کر لی کہ پروڈکشن ٹائم کم ہو کر ایک گھنٹہ رہ گیا۔ یاد رہے جرمنی اور اس کے اتحادیوں کا سب سے زیادہ نقصان انہی جہازوں نے کیا تھا۔ مال برداری اور فوجی نقل و حمل کے لیے گھوڑے اور خچر استعمال ہوتے تھے لیکن امریکن کمپنیاں اور لینڈ اور فورڈ نے اس مسئلے کے حل کے لیے ہلکی جیپیں بنا ڈالیں۔ الغرض ٹینک، آبدوزیں، بم اور جنگی سامان امریکی کارخانوں میں بنا۔ پورے امریکہ کی روایتی فیکٹریاں اور کارخانے جنگی ساز و سامان بنانے میں مصروف ہو گئے۔

جب دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو سات سے آٹھ کروڑ لوگ مارے جا چکے تھے۔ یاد رہے اس وقت پوری دنیا کی آبادی اڑھائی ارب تھی۔ جنگ اتحادی جیت گئے۔ لیکن برطانیہ کی معاشی تباہی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنگ کے اختتام پر برطانیہ، امریکہ کا 4 بلین ڈالر کا مقروض ہو چکا تھا۔ ایک حالیہ تحقیق جو کولمبیا یونیورسٹی میں شائع ہوئی دو سو سال کے نوآبادیاتی استحصال کے نتیجے میں برطانیہ نے صرف ہندوستان سے اندازاً 45 ٹریلین ( 450 کھرب) ڈالر لوٹے۔ جو چھ سال کی جنگ میں براعظم امریکہ پہنچ گئے۔ جنگ کے اختتام تک امریکہ کا جی۔ ڈی۔ پی 1939 کے مقابلے میں تقریباً دگنا ہو چکا تھا اور دنیا پر اس کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔

اس وقت پوری دنیا کو کورونا وائرس کا سامنا ہے۔ ایک ماہر شماریات کے مطابق جب تک اس کا علاج دریافت ہوتا یہ آدھی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہو گا۔ یاد رہے تقریبا آٹھ فیصد متاثر ہونے والے مریضوں کو وینٹیلیٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔ وینٹیلیٹر کیونکہ عام طور پر صرف نفس بحال کرنے کے لیے ہوتا اور صرف قریب المرگ مریضوں پر ہی اس کا استعمال ہوتا ہے۔ بڑے سے بڑے ہسپتال میں بھی آٹھ دس سے زیادہ تعداد میں نہیں پائے جاتے۔

لیکن اس وبا کی وجہ سے ہر ملک کو لاکھوں کے حساب سے وینٹیلیٹرز، ماسک اور ایسی ہی دوسری چیزوں کی ضرورت ہے۔ چین نے پہلے ہی ہنگامی بنیادوں پر وینٹیلیٹرز کی پروڈکشن کا آغاز کر دیا ہے۔ اگلے دن ٹرمپ نے پھر جنرل موٹرز کو وینٹیلیٹرز بنانے کا حکم جاری کیا ہے۔ دیکھتے ہیں اگلی معاشی طاقت کون بنتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments