میو ہسپتال میں ایڑیاں رگڑتے بڑے میاں اور ریاست مدینہ


میں اس کہنہ سال و بے بس بڑے میاں کا نام نہیں جانتا۔ شاید میو ہسپتال کا طبی عملہ بھی اس کے نام سے واقف نہیں۔ جہاں وہ گئی شب ایڑیاں رگڑ رگڑ کر واش روم کے فرش پر دم توڑ گیا اور اس کے بے دم ہوتے ہی انسانیت بھی دم توڑ گئی۔ وہ زندہ دلوں کے شہر لاہور کی کسی دور افتادہ گلی کے کسی خستہ مکاں کا مکیں تھا۔ بے اماں اور تہی داماں تھا۔ کرونا کی علامات ظاہر ہونے پر بڑے مان اور آس امید سے شفاخانے کا رخ کیا تھا۔ اسے بتایا گیا تھا کہ جولائی 2018 کے بعد ملک خداداد چوروں، لٹیروں اور ڈاکوٶں کے عہد ستم گر نجات پا کر ایک صادق و امین، نیک دل اور خدا ترس بادشاہ کے زیر نگیں آ چکا ہے۔ یہ اس پاک نظر و پاک باز بادشاہ کا دور ہے جس کے لیے در توبہ بھی کھول دیا گیا تھا۔ اب انصاف کا بول بالا اور ظلم کا منہ کالا ہو رہا تھا کیونکہ نیک سیرت اور عادل بادشاہ نے ریاست مدینہ کا احیا کر لیا ہے۔

اس نے سن رکھا تھا کہ اس کے نظام سنبھالتے ہی ہر طرف عدل فاروقی کی یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔ عہد رفتہ کے قصاب واقعی مسیحا بن چکے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں شفا، دل میں دکھی انسانیت کے لیے تڑپ اور روح میں خوف خدا جاگزیں ہو چکا ہے۔ وہ کرونا کے خلاف بے جگری سے خطرناک ترین جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کے بچے، بوڑھے، مرد، عورتیں، کسان، مزدور، طالب علم، دکاندار، وکیل، جج، انجینئرز سب ان کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے ہیں۔

ان کو پتہ ہے کہ اگر انہوں نے پچھلے بادشاہ کے دور کی طرح ذرا بھی غفلت کی تو نیا بادشاہ ان کی کھال کھینچ لے گا۔ انہیں تندور میں جھونک دے گا۔ یہی مان ایمان لیے وہ نیم جان کہنہ برس شہری نہیں بلکہ شناختی کارڈ ہسپتال پہنچا۔ مگر یہاں تو ہر طرف افراتفری، نفسا نفسی اور آپا دھاپی کا عالم تھا۔ وقت بڑا ظالم تھا۔ کچھ اجنبی چہروں نے اس کی حالت زار دیکھ کر اسے برآمدے میں ایک خستہ حال چارپائی پر پڑی بوسیدہ اور میلی کچیلی چادر پر لٹا دیا۔

اسے شدید کھانسی کے دورے پڑ رہے تھے۔ وہ بری طرح کراہتا اور تڑپتا تھا۔ پاس سے گزرنے والوں کا دامن پکڑنے کی کوشش کرتا تھا مگر ہر ایک پتہ نہیں کیوں اسے کوئی بھوت، سڑی یا جزامی سمجھ کے دور بھاگتا تھا۔ ہر ایک اپنا دامن اس سے بچاتا تھا بلکہ بہت سوں نے تو دامن چھڑا بھی لیا۔ کچھ ستم ظریفوں نے تو دامن بری طرح جھٹک بھی دیا۔ وہ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے ریاست مدینہ کے نظام کو دیکھ رہا تھا۔ یہ نظام تو پہلے والے بادشاہ کے دور کے نظام سے بھی زیادہ زہرناک اور سفاک تھا۔

جب کسی نے یاوری نہ کی تو خود ہی اپنی اکھڑتی سانسوں کو سنبھالتا ہوا گرتا پڑتا چارپائی سے اٹھا۔ شدت درد کی وجہ سے اس کے دونوں ہاتھ پیٹ پر تھے۔ کھانسی کا دورہ ناقابل برداشت تھا۔ سانس گلے میں پھانس بن رہی تھی۔ حلق میں جیسے کانٹے چبھ رہے تھے۔ خمیدہ کمر چشم تر، زرد رنگ کے ساتھ وہ خود کو گھسیٹتا ہوا ڈیوٹی روم تک پہنچا۔ اکھڑتی سانسوں میں اسے وینٹی لیٹر کی ضرورت تھی۔ مگر نرسیں، ڈاکٹرز اور طبی عملہ اسے دیکھ کر سہم گیا۔

ڈاکٹر نے وارڈ بوائز کو بلا کر اشارہ کیا جنہوں نے اپنے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کر کے اسے اسی حالت میں گھسیٹ کر واش روم میں بند کردیا۔ وہ دہائی دیتا رہا۔ ہاتھ جوڑتا رہا، فریاد کرتا رہا۔ گریہ کرتا رہا۔ اس نے بہتیرا منتیں کیں کہ مجھے یہاں سے نکال دو میں ونٹی لیٹر نہیں مانگوں گا۔ بیڈ نہیں مانگوں گا۔ دوا نہیں مانگوں گا۔ کوئی فریاد نہیں کروں گا۔ کسی کا دامن نہیں پکڑوں گا۔ مگر ریاست مدینہ کے شفا خانے کے مسیحاٶں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی۔

معاً اس کی فریاد و فغاں کی لے مدہم ہوتی گئی۔ اس کی آواز واش روم کی پختہ دیواروں سے ٹکرا کر پلٹ آتی۔ اس کا دھڑ واش بیسن پر پڑا تھا۔ سر کونے میں گڑا تھا۔ دونوں ہاتھ واش بیسن سے نیچے لٹک رہے تھے۔ دونوں ٹانگیں واش بیسن سے باہر پڑی تھیں۔ اس کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ آنکھیں نیم وا تھیں۔ دنیا اندھیر ہو رہی تھی۔ دم واپسیں آن پہچا تھا۔ دم آخریں سب گھر والوں کے چہرے ایک ایک کر کے اس کیے سامنے آرہے تھے۔ وہ اپنے سب سے چھوٹے پوتے کو شدت سے یاد کر رہا تھا جو اپنی توتلی زبان میں دادا دادا کہہ کر جب اس سے لپٹ جاتا تھا تو اس کے سب غم خوشی میں بدل جاتے تھے۔

اس کی دنیا روشن ہوجاتی تھی۔ اس نے اوپر والے کی طرف یوں دیکھا جیسے اپنی اندوہناک اور کرب انگیز موت پر شکایت کر رہا ہو۔ پھر ریاست مدینہ کے نئے بادشاہ کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ اب تو اس کا سانس کئی منٹوں بعد آتا تھا۔ اس کا جسم پسینے میں شرابور تھا۔ سانسوں کی ڈور ٹوٹنے والی تھی۔ اس نے کلمہ پڑھا۔ اب کی بار سانس ایسے گیا کہ دوبارہ نہ آیا۔

صبح ریاست مدینہ کا امیر کہہ رہا تھا کہ بڑے میاں کی اندوہناک موت کی ذمہ داری پچھلے ظالم بادشاہ پر عائد ہوتی ہے۔ اور لوگ کہہ رہے تھے کہ دنیا پر یہ قہرالٰہی کشمیریوں پر مودی کے ظلم کی وجہ سے ٹوٹا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments