کرونا کا عذاب اور حاجی صاحب کا پانچواں حج


کرونا کرونا کرونا، کون ہے جو آج اس لفظ سے آشنا نہیں۔ آج سے چھ ماہ پہلے پوری دنیا اس لفظ سے قطعی نا واقف تھی۔ انٹر نیٹ ہو، نیوز ہو یا روزمرہ کے پیغامات، 90 فیصد اسی کی خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔

دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے اس وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ 26 مارچ 2020 تک 190 ملکوں میں پانچ لاکھ سے زائد افراد میں اس بیماری کی تصدیق ہو چکی ہے، 23 ہزار سے زائد کی اموات کی اطلاع ہے اورتقریباً ایک لاکھ سے زائد مریض شفا یاب بھی ہوئے ہیں۔ یہ تو وہ اعداد و شمار ہیں جو رجسٹرڈ ہیں، نجانے کتنے مریض ہیں جو ابھی مخفی ہیں اور خاموشی سے دوسروں میں بیماری کی منتقلی کا باعث بن رہے ہیں۔

ابھی کوئی بھی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ وباء کب تک رہے گی، صرف قیاس آرائیاں ہی کی جا رہی ہیں، 6 مہینے، سال، ڈیڑھ سال کچھ پتہ نہیں۔ مستقبل کا تو صرف اللہ ہی کو علم ہے، دنیا والے تو صرف اندازے لگاتے ہیں مگر جس تیزی سے یہ مرض پھیل رہا ہے اُس سے پوری دنیا خوف کی لپیٹ میں ہے۔ اور دنیا کی جو صورت ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھی۔ ائر پورٹس بند، نماز باجماعت منع، مقدس مقامات میں داخلہ ممنوع اور تو اور اللہ کا گھر بھی بند، یقیناً یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ دنیا بھر کے سائنسدان، مذہبی سکالر، حکومتیں، عام لوگ جہاں اپنی اپنی جگہ پریشان ہیں وہیں پر سب اپنے اپنے طور پر اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے میں بھی مصروف ہیں۔

ہر روز ایک خبر آتی ہے کہ اس کی ویکسین بننے والی ہے یا فلاں دوائی اس میں کار آمد ہے یا فلاں نقصان دہ۔ خیر سائنسی تحقیقات تو ہمیشہ جاری رہتی ہیں اور اس کی ہر زمانے میں اپنی ایک اہمیت رہی ہے۔

حکومتوں نے اسے روکنے کے لئے اپنے اپنے طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں۔ یہاں برطانیہ میں ریسٹورنٹس، کلبوں، شراب خانوں، پارکوں اور ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی، امتحانات منسوخ، سکول یونیورسٹیز بند اور اب مکمل لاک ڈاؤن کا نفاذ ہوچکا ہے۔

انٹر نیٹ کے پیغامات کے ذریعے بہت سے لوگوں نے گھریلو ٹوٹکوں سے بھی اس کا علاج بتایا۔ مندرجہ بالا تمام کوششوں کا شاید کوئی مثبت حل نکل أئے۔

مگر ایک طبقہ ایسا ہے جس کا خیال ہے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے اور اس کا حل استغفار کرنے نمازیں پڑھنے اور بہت سی دوسرے وظائف میں ہے۔ یقیناً یہ اللہ کا عذاب ہے تو اس عذاب سے بچنے کے لئے یہ طبقہ جو طریقہ کار بتا رہا ہے، کیا وہ درست ہے؟ اس کا فیصلہ کیسے کیا جائے؟ عذاب سے بچنے کے لئے پیغامات میں کہیں تو توبہ استغفار کی تسبیحات بھیجی جارہی ہیں تو کہیں پر لا الہ کا ورد بھیجا جارہا ہے تو کہیں پر نمازوں پر نمازیں پڑھنے کو کہا جارہا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ یہ سب دین سے دوری کی وجہ سے ہورہا ہے۔ کیا ہم نے اپنے دین کو سمجھا بھی ہے؟ ہمارے دینی احکامات نوے فیصد دنیاوی معاملات اور حقوق العباد سے متعلق ہیں اور صرف دس فیصد ظاہری عبادات سے متعلق، اسی لئے کہا گیا ہے کہ

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرّ و بیاں

ہم کیا سمجھتے ہیں کہ گھر میں استغفار کی تسبیح پڑھنے کے بعد اپنی دکان پر ایک کلو گرام گوشت کی قیمت دُگنا کرنے پر خدا ہم سے عذاب اُٹھا لے گا؟
دال چاول اپنے سٹور میں ذخیرہ کرنے کے بعد نماز پڑھ لی تو یہ عذاب ختم ہوجائے گا؟
یا بہت سارا راشن خود غرضی سے اپنی گھر میں ذخیرہ کر لیا اور ساتھ میں آیت کریمہ کا ورد کرلیا تو کیاہم عذاب سے بچ جائیں گے؟
یا اپنے گریبانوں میں جھانکے بغیر دوسرے لوگوں کو نصیحت بھرے پیغامات بھیج کر کیا ہم اللہ کے آگے سرخرو ہوجائیں گے؟

کروڑں اربوں کے بزنس کرنے والے جو سب سے پہلے اپنے غریب کام کرنے والوں کی مزدوری، کہ جن کے گھر کا چولہا روز کی کمائی پر چلتا ہے، ان حالات میں روک لیں تو کیا خدا ان سے خوش ہوگا؟

رمضان کی آمد آمد ہے دیکھئے گا مسجدیں بھری ہوں گی، تراویح کے لئے صفوں پر صفیں لگی ہوں گی، رمضان کے احترام میں دن بھر دکانیں بند رکھیں گے مگر ظہر عصر باجماعت پڑھنے کے بعد جب دکانیں کھولیں گے تو ہر چیز کو دگنی قیمت پر بیچیں گے۔ تو کیا یہ تراویح، یہ روزے اور باجماعت نمازیں ہمیں بخشوادیں گی؟ اور ہمیں عذاب سے بچا لیں گی؟ کیا ہم نے اس نماز اور اس قرآن کے معنی کو سمجھا بھی ہے؟ کیا ہم اپنی عبادات میں محض دکھاوا نہیں کرتے؟

اللہ صاف صاف فرماتا ہے میرے حقوق میں کوتاہی کی تو میں معاف کردوں گا، کیونکہ وہ ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا ہے، مگر اگر میرے بندوں کے حقوق میں کوتاہی کی تو میری معافی نہیں ہے جب تک وہ انسان خود نہ معاف کرے۔ اس چھوٹی سی بات کے بڑے مفہوم کو اگر سمجھ لیا جائے اورعمل کیا جائے تو کیا یہی ہمارا اصل اسلام نہیں؟ اورکیا یہی وہ کامل دین نہیں ہے جسے ہم تک پہنچانے کے لئے خدا نے ہمارے آخری نبی کو بھیجا تھا جو قرآنِ صامت کے حامل بھی تھے اور قرآنِ ناطق بھی۔

مجھے خدا کی عبادات کی اہمیت سے قطعی کوئی انکار نہیں مگر کیا کبھی ہم نے ان عبادات میں چھپے فلسفہ کو سمجھنے کی کوشش کی؟ کہ خدا ہم سے چاہتا کیا ہے؟ اس کو ہمارے سجدوں کی ضرورت کیوں ہے؟

میرا سوال سب سے یہ ہے کہ کیا اپنے دنیاوی معاملات اور اعمال درست کیے بغیر محض نماز روزے تسبیحات ہمیں بخشوانے کے لئے کافی ہوں گے؟ اور کیا ہم دنیا اور أخرت میں خدا کے غضب سے بچ سکیں گے؟

اور اب چلتے چلتے ایک خبر جو پچھلے دنوں میں نے اخبار میں پڑھی دکان کا نام تھا ”حاجی ٹریڈرز“ ماشاللہ حاجی صاحب چار مرتبہ حج کر چکے تھے اور پانچویں مرتبہ حج پر جانے کی تیاریوں میں تھے۔ اپنے گودام میں آٹا ذخیرہ کرتے ہوئے اور اسے مہنگا بیچتے ہوئے پکڑے گئے۔

ذرا سوچیے تو سہی
کم از کم سوچیے تو ضرور
کہ کہیں حقوق العباد کی پامالی اور اللّہ کے عذاب میں تو کوئی تعلق نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments