کووڈ-19 سے متاثرہ مریض قابل نفرت نہیں


کووڈ۔ 19 نے جہاں سائنسی اور طبی دنیا کی بنیادیں ہلا دی ہیں وہیں معاشرتی و سماجی سیٹ اپ میں بھی کئی طرح کی تبدیلیوں کاواضح اشارہ دے دیا ہے۔ سائنسدان اور طبی ماہریں و ادویہ ساز کمپنیز دن رات اس کوشش میں لگے ہیں کہ اس وائرس کے خلاف ویکسین تیار کی جائے۔ تیزرفتار تشخیص وعلاج کے سلسلے میں بھی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں اور جلد یا بدیر اس وبا پر قابو پا لیا جائے گا۔ تاہم جہاں اس وائرس نے دنیا کی تیز رفتار ترقی اور جدید ایجادات کو مات دیتے ہوئے سائنسی دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔

وہی مغربی دنیا کے سماجی و معاشرتی سائنسدانوں کے لئے بالعموم اور پاکستانی تحقیق دانوں کے لئے بالخصوص سماجی و معاشرتی تحقیق کے نئے رخ بھی متعین کیے ہیں جو کہ وبا کے دنوں میں معاشرتی و سماجی رویوں کے بدلاؤ اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں معلومات کی ترسیل اور اس لامحدود و غیرمصدقہ معلومات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشرتی انتشار اور ان پر قابو پانے کے لئے موثر حکمت عملی جیسے موضوعات پر سنجیدہ نوعیت کی تحقیقی کاوش کے طلبگار ہیں۔

صونہ پنجاب کے ضلع گجرات اور منڈی بہاؤالدین کی ایک کثیر تعداد یورپ میں بسلسلہ روزگار مقیم ہے۔ حالیہ وبا کے دنوں میں کئی افراد یورپ سے ان اضلاع میں واپس آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان اضلاع میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد کسی بھی دوسرے شہر سے زیادہ ہے۔ اور خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اس تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ اگرچہ اس مرض میں مبتلا ہونے کے بہت سی وجوہات ہیں اور باوجود تمام تر حفاظتی اقدامات و احتیاط کے سو فیصد تک بچنا ممکن نہیں ہے۔

کیونکہ بہت سے مریض ایسے ہیں جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں لیکن وہ دوسرے لوگوں تک اس وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ تاہم اس وبائی صورت حال کا جو افسوسناک پہلو سامنے آیا ہے وہ کرونا وائرس سے متاثرہ اشخاص کے ساتھ ہمارا معاشرتی رویہ ہے۔ اگرچہ پوری دنیا اس وبا کو ایک متعدی مرض سمجھ کر حتی المقدور اس سے بچاؤ کی کوشش کر رہی ہے ہیں۔ لیکن مریضوں اور ان کے خاندان کے دوسرے لوگوں کے معاشرتی رتبہ پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی جا رہی اور مریض سے سماجی فاصلے کو ایک وبائی مجبوری کے طور پر لیا جارہا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں مریضوں اور ان اکے خاندان کے حوالے سے جو رویہ سامنے آیا ہے وہ قدرے مختلف اور تکلیف دہ ہے۔

کووڈ۔ 19 کے مریضوں کے حوالے سے سنی سنائی اور سوشل میڈیا سے غیر تصدیق شدہ معلومات کے حصول اور بغیر پرکھے آگے ترسیل نے کرونا کے مرض کو ایک معاشرتی برائی کی حیثیت دے دی ہے۔ کورونا سے متاثرہ شخص نا صرف خاندان بلکہ معاشرے کے لئے ایک ناپسندیدہ اور خطرناک انسان ہے جو دوسرے لوگوں کے لئے موت کا پیغام ہے۔ متاثرہ شخص کو نہ صرف اس مرض میں مبتلا ہونے کا قصوروار گردانتے ہوئے دوسرے لوگوں کے لیے قابل نفرت قرار دیا جا رہا ہے۔

بلکہ یہ بالکل ویسی ہی صورت حال ہے جیسا کہ جذام کے مریضوں کے ساتھ معاشرتی بائیکاٹ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ حالانکہ اگر مناسب حفاظتی اقدامات کیے جائیں تو مرض کے پھیلنے کا خطرہ کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی مشتبہ مریض کے اطلاع کے صورت میں محکمہ صحت کی ٹیمیں، پولیس اور رینجرز کے جلو میں اس انداز میں مریض کے پکڑنے آتی ہیں جیسے مریض کے پاس کوئی ایٹم بم ہے اور مریض خودکش جیکٹ پہنے محکمہ صحت کے عملہ کا انتظار کر رہا ہے۔

متاثرہ مریض کے علاقہ یا محلہ کے داخلی و خارجی راستوں کو پولیس اور رینجرز کے دستوں کے مدد سے سیل کر دیا جاتا ہے اور بذریعہ اعلانات اہل علاقہ کو گھروں سے نہ نکلنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس تمام آپریشن کی تصویری و تحریری جھلکیاں بمعہ تمام تر سنسنی خیزی اور مریض کے شجرہ نسب سمیت فی الفور سوشل میڈیا کی زینت بن جاتی ہے۔ اور یہ تشہیری مہم نہ صرف مشتبہ مریضوں بلکہ عام عوام کے لئے بھی ایک خوفناک پیغام ثابت ہوتی ہے۔

اس سارے عمل کے تتیجے میں پورے گاؤں یا شہر میں ایک بے چینی اور گبھراہٹ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جو کئی طرح کی غلط اور مفروضوں پر مبنی معلومات کے تبادلہ کا ذریعہ بن کے معاشرتی خوف کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ جس کا بدترین نتیجہ یہ سامنے آ رہا ہے کہ اگر کوئی شخص اس وبا سے متاثر ہے تو وہ بھی اس کو چھپانے کے حتی الوسع کوشش کررہا ہے۔

اگرچہ وبا کی نوعیت انتہائی مہلک ہے اور ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ مشتبہ مریض یا علامات ظاہر ہونے کی صورت میں فی الفور متعلقہ محکمہ جات سے رابطہ کرے تاہم متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ متاثرہ افراد اور ان کے خاندان کو قرنطینہ پر آمادہ کرنے کے لئے کرفیو جیسی صورت حال نہ پیدا ہونے دیں اور نہ ہی اس کی تشہیر بذریعہ سوشل میڈیا کی جانی چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس وبا سے متعلقہ غلط معلومات شئیر کرنے والے اکاؤنٹس بلاک کیے جائیں اور ایسے صارفین کو انتباہ کیا جائے۔ میڈیا، سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کا مثبت کردار کرونا کے حوالے سے پائے جانے والی غلط معلومات اور معاشرتی رویوں کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ تا کہ وبا کے خلاف حکومتی کوششوں کو بہتر انداز میں کمک فراہم کی جاسکے نہ کہ ان کوششوں کو نقصان پہنچایا جائے۔

کرونا کی اس وبا کے متعلق اگرچہ طبی طور پر کی جانے والی تحقیق انتہائی اہم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کو ایک سماجی اور معاشرتی مسئلے کے تناظر میں دیکھا جانا بھی ضروری ہے تاکہ لوگوں کے اس ناگہانی وبا سے سماجی و معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچائے بغیر مقابلہ کرنے کے لئے تیار کیا جا سکے۔ اگر موجودہ صورت حال برقرار رہتی ہے تو کووڈ۔ 19 سے متاثرہ مریض صحت یاب ہونے کے بعد بھی صحت مند اور نارمل زندگی گزارنے کے قابل نہ ہوسکیں گے جس کے نتیجے میں سماجی فاصلے شاید ہمیشہ کے لئے قائم ہو جائیں گے جواس وبا سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments