کورونا وائرس: انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کے دوران عوام پر سخت پابندیاں نافذ
انڈیا کے زیر انتطام کشمیر میں 19 مارچ کو کورونا سے متاثرہ پہلے مریض کی شناخت ہوتے ہی پوری وادی میں لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا گیا۔ گذشتہ دس روز سے جاری لاک ڈاؤن کو نافذ کرنے کے لیے وادی بھر میں پولیس نے سخت اقدامات کیے ہیں جبکہ اس عرصے میں دو خواتین اور دو بچوں سمیت 20 افراد وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے چھ کا تعلق جموں سے ہے۔
اس دوران وادی اور جموں کے کئی علاقوں میں لوگوں نے پولیس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کو بھی جنگ سمجھ رہی ہے۔
ایک مقامی شہری ستیش نے بی بی سی کو فون پر بتایا ’پولیس اس میں اپنا مزہ لے رہی ہے، جس کو بھی سڑک پر دیکھتے ہیں اس کو مارتے ہیں، کان پکڑواتے ہیں۔ ظاہر ہے لاک ڈاؤن ہے، کوئی سیر سپاٹے کے لیے تو نہیں نکلے گا، مجبوری ہی ہو گی۔ دراصل یہاں پولیس کو لاٹھی کی زبان بولنے کی عادت ہے۔‘
شمالی ضلع بارہ مولہ کے علاقے دیلینا میں جمعے کو ایک شخص اپنے بیٹے کے ہمراہ سڑک پر جا رہا تھا کہ اسے پولیس نے روکا اور ہلکی تکرار کے بعد اس کی پٹائی کی گئی۔ اس واقعے کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔
اکثر حلقوں نے بے رحمی کے ساتھ لاک ڈاؤن نافذ کرنے پر پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
پانچ چیزیں جو فوج عالمی وبا سے مقابلے کے لیے کر سکتی ہے
کورونا کے خوف میں تنہائی کیسی ہوتی ہے؟
کورونا وائرس کو عالمی وبا اب کیوں کہا گیا اور اس سے کیا ہوگا
کورونا وائرس: چہرے کو نہ چھونا اتنا مشکل کیوں؟
صحافی پیرزادہ عاشق کہتے ہیں کہ ’یہاں کی پولیس اور فورسز کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کوئی امن و امان کا مسئلہ نہیں جسے حکومت ہند کو خوش کرنے کے لیے کسی بھی طرح نافذ کرنا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’30 برس سے جو عادت پولیس کی رہی ہے، یہ اسی کا نتیجہ ہے۔ سڑکیں سنسنان ہوجائیں تو انھیں لگتا ہے کہ ہر راہ چلنے والا شہری ان کا شکار ہے۔‘
جموں کشمیر پولیس کے سربراہ دل باغ سنگھ نے لوگوں سے لاک ڈاؤن میں تعاون کی اپیل کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ جموں کشمیر میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف پچھلے دس روز میں 326 مقدمے درج کیے گئے ہیں جبکہ600 گاڑیاں اور دکانیں سربمہر کی گئی ہیں۔جمعے کو پورے جموں کشمیر میں کسی بھی مسجد یا خانقاہ میں جمعے کے اجتماع کی اجازت نہیں دی گئی۔
حالانکہ مذہبی جماعتوں نے حکومت کے اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے لوگوں سے جمعے کو اجتماعی نماز سے اجتناب کی اپیل کی تھی، تاہم کئی علاقوں میں پولیس نے خلاف ورزی کرنے والے کئی علما اور خطبا کو حراست میں لیا۔
حکومت نے لاک ڈاؤن کو سو فیصد ممکن بنانے کے لیے سرینگر کے دو لاکھ چھبیس ہزار کنبوں کو ضروری اشیا ان کے گھرتک پہنچانے کا اعلان کیا ہے۔
حکومت کے ترجمان روہت کنسل نے جمعہ کی شام یہ اعلان کیا کہ جموں کشمیر کے ہسپتالوں میں 2400 بستر کورونا متاثرین کے لیے مختص کیے گئے ہیں جبکہ مزید ایک ہزار بستر تشویشناک حالت والے مریضوں کے لیے رکھے گئے ہیں۔
پولیس کے محکمے میں جمعے کی شام اس وقت کھلبلی مچ گئی جب پولیس کے ایک اہلکار نے شدید دمے اور کھانسی کی شکایت کی جس کے بعد اسے چھاتی کے امراض کے لیے مخصوص ہسپتال میں منتقل کیا گیا، ان کے خون کا نمونہ جانچ کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔
سنیچر کو خفیہ پولیس اور انتظامی امور کو دیکھنے والے پولیس کے سبھی دفاتر بند کیے گئے ہیں۔
پولیس کی طرف سے لاک ڈاؤن کو سختی سے نافذ کرنے پر کئی حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ حالانکہ گذشتہ ہفتے جب کشمیر میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تصدیق ہونے لگی تو سماجی فاصلہ بنائے رکھنے کی وکالت کرنے والے کئی سماجی حلقوں نے پولیس سے اپیل کی کہ وہ طاقت کے ذریعہ لاک ڈاون نافذ کریں۔
انڈیا کے کئی ٹی وی چینلز پر مباحثوں میں حصہ لینے والے صحافی ماجد حیدری نے سوشل میڈیا پر پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘۔ ان کے اس فقرے پر کئی حلقوں نے کہا کہ پولیس کو اب لائسنس مل گیا ہے کہ وہ دیکھتے ہی ہر شخص کو زدوکوب کریں۔
واضح رہے فی الحال 20 کورونا متاثرین میں سے نو کا تعلق سرینگر سے ہیں جن میں سے ایک شخص کی ہلاکت ہو چکی ہے۔ ضلع مجسٹریٹ شاہد اقبال چوہدری بار بار لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وائرس کی کڑی کو توڑنے کے لیے لاک ڈاؤن ضروری ہے۔
سرینگر کے علاقے صفاک دل سے تعلق رکھنے والے ایک شہری طارق احمد نے بی بی سی کو بتایا ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب ہماری خاطر ہو رہا ہے۔ لیکن جب پولیس اور عوام کی رائے ایک ہو، تو کشمیر میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا رویہ اس کرفیو سے الگ ہونا چاہیے جسے نافذ کرنے کے لیے پولیس طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ ہم لوگ تو گذشتہ سات ماہ سے محصور ہیں۔ پولیس افسروں کو سڑک پر تعینات اہلکاروں کو سمجھانا چاہیے کہ کوئی باہر نکلے تو لاٹھی چلانے سے پہلے اس سے وجہ پوچھی جائے۔‘
قابل ذکر ہے بات یہ ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز سمیت کئی عالمی اداروں نے انڈیا کی حکومت سے اپیل کی تھی کہ گذشتہ برس اگست سے تیز رفتار انٹرنیٹ پر پابندی کو ختم کیا جائے تاکہ لوگوں کی زندگی آسان ہو سکے۔ تاہم جمعے کو حکومت نے اعلان کیا کہ امن کی صورتحال کے پیش نظر پابندی ہٹانے کے لیے مناسب وقت نہیں ہے لہذا نہایت سست رفتار انٹرنیٹ پر ہی گزارا کرنا ہو گا۔
کشمیر میں سردیوں کی چھٹیوں کے بعد سکولوں اور کالجوں میں نئے تعلیمی سال کی سرگرمیاں ہونے میں چند دن باقی تھے کہ کشمیر میں لاک ڈاؤن شروع ہو گیا۔ تاجر برادری نے پہلے ہی وزیراعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھ کر مطلع کیا تھا کہ گذشتہ برس اگست میں کشمیر کی نیم خود مختاری کے خاتمے کے بعد قدغنوں اور کرفیو سے جو صورتحال پیدا ہوئی اس سے یہاں کی معیشت کو اٹھارہ ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔
تاجر عبدالمجید خان کہتے ہیں ’انڈیا اور کشمیر میں فرق ہے۔ وہ لوگ تین دن میں بور ہو گئے۔ ہم سات ماہ سے محصور ہیں۔ ہماری تجارت ختم ہو گئی۔ پانچ لاکھ لوگ بے روزگار ہیں۔ ہم سب نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ ایسے میں کوئی بچے کے لیے دودھ کا پاوڈر خریدنے نکلے اور اس پر ڈنڈے برسائے جائیں، تو کیا یہ انصاف ہے۔ پولیس کو سمجھنا چاہیے کہ یہ کشمیر ہے، دلی یا ممبئی نہیں۔ ہم پہلے ہی بہت پریشان ہیں۔‘
- خاتون فُٹ بال شائق کو گلے لگانے پر ایرانی گول کیپر پر 30 کروڑ تومان جُرمانہ عائد: ’یہ تاریخ میں گلے ملنے کا سب سے مہنگا واقعہ ثابت ہوا‘ - 24/04/2024
- ’مغوی‘ سعودی خاتون کراچی سے بازیاب، لوئر دیر سے تعلق رکھنے والا مبینہ ’اغوا کار‘ بھی زیرِ حراست: اسلام آباد پولیس - 24/04/2024
- جنوبی کوریا کے ’پہلے اور سب سے بڑے‘ سیکس فیسٹیول کی منسوخی: ’یہ میلہ خواتین کے لیے نہیں کیونکہ ٹکٹ خریدنے والے زیادہ تر مرد ہیں‘ - 24/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).