کرونا وائرس: طارق جمیل کی حور سے فواد چوہدری کی ٹویٹ تک


 مولانا طارق جمیل صاحب نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ انہوں نے ایک بار جنت کی حوروں کو دیکھ کر ان پر احسان کیا تھا۔ اس عینی شاہد گواہی کو انہوں نے اس طرح بیان کیا

” لیکن جو میں نے دیکھی ہے میں بیان نہیں کر سکتا۔ میں اسے اب بھی دیکھ رہا ہوں [سب خوشی سے قہقے مارتے ہیں]۔۔۔۔ لیکن جو اللہ نے مجھے دکھایا۔ وہ میرے پاس نہ لفظ ہے۔ اس کی مسکراہٹ۔۔ ہوہوہو [پس منظر میں سامعین کی داد و تحسین کی پر مسرت آوازیں سنائی دیتی ہیں]۔ اگر وہ دنیا میں ہوتی تو میں تو ویسے فوت ہی ہو جاتا۔ “

حوروں کو تو طارق جمیل صاحب بذات خود ملاحظہ کر کے آئے تھے، ان کے معین قد کی نسبت انہوں نے فرمایا

” اس سے مکمل ایک سو تیس فٹ کی لڑکی نکل کر باہر آ جاتی ہے [واہ واہ کی آوازیں بلند ہوتی ہیں]۔ لباس سمیت۔ یہ نہیں جیسے بچہ ننگا پیدا ہوتا ہے۔ ایسے نہیں پورے لباس کے ساتھ سو جوڑوں کے ساتھ وہ باہر آتی ہے۔ ” پھر ایک حور کا نام لے کر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اسے دوسری حوروں یہ کہتیں ہیں کہ اگر سکھر والوں کو تیرا پتہ چل جائے تو وہ ایک نہیں، تین چلے کاٹیں۔ (یہ ارشادات یو ٹیوب پر استفادہ عام کے لئے موجود ہیں۔)

جب دنیا میں کرونا کا شور و غل اُٹھا تو شاید طارق جمیل صاحب کی وسیع معلومات اور تبحر علمی سے متاثر ہو کر وزیر اعظم صاحب نے ان سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ وہ اس وبا کے بارے میں پاکستان کے عوام کی رہنمائی کریں۔ اس کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی حکومت کی درخواست پر اسکی کچھ رہنمائی کی۔ جب اس طرح کا بحران پیدا ہو تو ملک کے لیڈر ایسی ملاقاتیں کرتے ہیں۔ جیسا کہ چین کے صدر نے ڈبلیو ایچ او کے صدر اور بیجنگ دیتان ہسپتال جا کر ڈاکٹروں سے ملاقات کی تھی اور اس کے بعد سب سے زیادہ متاثرہ شہر ووہان جا کر بھی وہاں کے ہسپتال کے ڈاکٹروں اور نرسوں سے ملاقات کی۔ اور امریکی صدر نے ایٹلانٹا جاکر بیماریوں کو کنٹرول کرنے والے مرکز جا کر اس میدان کے ماہرین سے ملاقات کی۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے رائل فری ہسپتال جا کر وہاں وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹروں اور نرسوں سے ملاقات کی اور اس کے بعد انہیں خود بھی یہ وائرس لگ گیا۔ اسی طرح وزیر اعظم پاکستان نے مولانا طارق جمیل صاحب سے ملاقات کی تاکہ اس وبا پر قابو پایا جا سکے۔

میرے نزدیک مناسب ہوتا اگر وزیر اعظم پاکستان اس موقع پر کچھ نمایاں سائنسدانوں اور ڈاکٹروں سے تسلسل سے ملاقات کرتے رہتے۔ اس عاجز کے نزدیک اس سے کچھ فائدہ ہو سکتا تھا۔ جب کسی ڈاکٹر سے کوئی غلطی ہو تو اس بارے میں کارروائی ضروری ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ان کی حفاظت کا انتظام کرنا اور ان کا حوصلہ بڑھانا بھی ضروری ہے۔ اور ان کے مسائل معلوم کرتے رہنا بھی ضروری ہے۔

محترم وزیر اعظم! آپ کی حکومت نے ایک ایکشن پلان جاری کیا ہے۔ اور یقینی طور پر یہ ایک اچھا ایکشن پلان ہے۔ اس کے صفحہ 79 پر ڈاکٹروں کے لئے احتیاطی تدابیر لکھی ہیں۔ ان تدابیر میں صحیح ماسک، آنکھوں کی حفاظت کے انتظام اور پہننے کے لئے گائون کی تفصیلات درج ہیں۔ لیکن اس بحران کو شروع ہوئے اتنے روز گذر چکے ہیں اور خود حکومت کے اپنے ہسپتالوں میں یہ اشیا مہیا نہیں ہو سکیں۔ مجھے علم ہے کہ بڑے شہر کے ہسپتالوں میں محدود تعداد میں یہ اشیا مہیا کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے لیکن یہ سب کچھ بہت دیر سے ہو رہا ہے اور آہستہ رفتار سے ہو رہا ہے۔

میں نے خود ایک ضلع کے انچارج ڈاکٹر صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے بہت دکھ سے بتایا کہ ہمیں اب تک حکومت نے ڈاکٹروں کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں دیا۔ پہلے بھی حکومت اور ڈاکٹروں کے تعلقات نہایت خراب رہے ہیں۔ اس جنگ کی حالت میں کسی قسم کی غلط فہمی خطرناک ہو سکتی ہے۔ اگر یہ ڈاکٹر اور نرسیں ہی اس وائرس سے متاثر ہو گئے تو یہ اسے پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں یعنی انہوں نے اس صورت میں دوسروں کا علاج تو کیا کرنا ہے جنہیں یہ بیماری نہیں بھی ہو گی انہیں بھی یہ وائرس منتقل کر سکتے ہیں۔ یہ اشیاء ایسی نہیں ہیں کہ جنہیں پاکستان میں بنایا نہیں جا سکتا۔ بلکہ بلیک مارکٹ میں مہنگے داموں دستیاب ہیں اور بعض ڈاکٹر انہیں وہاں سے خرید بھی رہے ہیں۔ حکومت آسانی سے ان کو تیار کرنے کا کام بڑے پیمانے پر شروع کروا سکتی ہے۔

میری گذارشات کا مقصد یہ نہیں کہ حکومت نے کوئی کام نہیں کیا۔ یقینی طور پر مرکزی اور صوبائی حکومتیں کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن جب اس کوشش میں بہتری کی کوئی گنجائش نظر آئے گی تو ہم پاکستان کے شہری ہی اس طرف توجہ دلائیں گے اور یہ کام کس نے کرنا ہے؟

آج سائنس اور ٹیکنولوجی کے وزیر محترم فواد چوہدری صاحب کا ٹویٹ آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ انہوں نے اس ٹویٹ میں فرمایا ہے کہ دنیا بھر کی یونیورسٹیاں اس موقع پر اپنے ممالک کی حکومتوں کی راہنمائی کر رہی ہیں۔ پاکستان کی یونیورسٹیاں کہاں ہیں۔ ؟جناب من ! میں جائزہ لے کر بتا رہا ہوں کہ آپ نے بجائے اس کے کہ ان یونیورسٹیوں کے متعلقہ شعبوں سے رابطہ کر کے ان کی مدد کرتے، سب کو ایک لاٹھی سے ہانکتے ہوئے بند کر دیا۔ آپ کو چاہیے تھا کہ بجائے طارق جمیل صاحب اور اسلامی نظریاتی کونسل سے رابطہ کرنے کے کم از کم ان یونیورسٹیوں کے بایو ٹیکنولوجی اور وائرولوجی کے شعبوں سے اور ان کے ماہرین سے رابطہ کرتے۔ ان کو بتاتے کہ آپ ان سے کیا کام لینا چاہتے ہیں؟ ان کو بجٹ اور سہولیات مہیا کرتے جس طرح دوسرے ممالک میں کیا جا رہا ہے۔

مثال کے طور پر یہ ماہرین آپ کو بتا سکتے تھے کہ کس طرح ملک میں جلدی اس بیماری کا ٹسٹ پی سی آر وسیع پیمانے پر کیا جا سکتا ہے تاکہ ہم بیرونی مدد کے بغیر بھی کچھ کام چلا سکیں۔ میں نے خود اس میدان کی ایک پی ایچ ڈی ماہر خاتون سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ انہیں تو اپنے شعبے تک جانے کی اجازت تک نہیں ہے اور حکومت نے ان سے اور ان کے ساتھ کے سائنسدانوں سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

پاکستان کو جلد وسیع پیمانے پر ان ٹسٹوں کی ہنگامی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اب تک ہماری ضرورت سے بہت کم ٹسٹوں کی سہولت مہیا ہو سکی ہے۔ جیسا کہ برطانیہ نے آج اعلان کیا ہے، وہ وقت جلد آ سکتا ہے جب ہمیں لاکھوں کی تعداد میں اپنے ڈاکٹروں اور نرسوں کے لئے یہ ٹسٹ درکار ہوں۔ ان ماہرین سے مدد لے کر بڑے پیمانے پر  Real Time PCRکی مشینیں ہنگامی طور پر درآمد کی جا سکتی ہیں اور چین یہ مشینیں بڑی تعداد میں تیار کر رہا ہے۔ ہمارے ماہرین اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ ان ٹسٹوں کے لئے درکار پرائمر تیار کر سکیں۔ لیکن سائنسدانوں ، ماہرین اور ڈاکٹروں سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ ان کی مدد کرنی پڑے گی۔ ہمارا ملک اتنا بھی بنجر نہیں کہ یہ ماہرین بالکل ہی موجود نہ ہوں۔ یہ وقت کا تقاضا ہے۔ اس بحران سے بچ نکلنے کے بعد پھر سب مل کر طارق جمیل صاحب سے سنیں گے کہ انہوں جو حور دیکھی تھی وہ کیسی تھی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments