اداسی بھرے دن کبھی تو ڈھلیں گے


لاک ڈاون کو تیسرا ہفتہ ہونے کو آیا اور مجھے اندازہ ہوا کہ کارِ جہاں جسے ہم دراز سمجھتے تھے کچھ ایسا دراز بھی نہیں۔ سارا دن شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے، سارا ہفتہ ایک شہر سے دوسرے شہر اور سارا سال ایک ملک سے دوسرے ملک بھاگے بغیر بھی زندگی گزر جاتی ہے اور اچھی خاصی گزر جاتی ہے۔

وبا، قدیم زمانے کی کسی منتقم دیوی کی طرح کسی ملک میں اپنے پنجے گاڑ لیتی ہے۔ آج کل اٹلی اور امریکہ اس کے نشانے پر ہیں۔ ہزاروں قیمتی جانوں کے زیاں پہ سخت دُکھ ہے۔

وبائیں تو ہمیشہ ہی سے آتی رہی ہیں لیکن اس وبا کے بارے میں کچھ عجیب عجیب سرگوشیاں کچھ معتبر حلقوں کی طرف سے بھی سنائی دے رہی ہیں۔ شاید یہ انسان کی فطری بد گمانی ہے یا نئی تہذیب پہ حد سے بڑھی خوش گمانی کہ وہ اس وبا کو بھی قدرتی آفت کی بجائے انسانی خباثت سمجھ رہا ہے۔

حقیقت کیا ہے؟ یہ وقت بتائے گا مگر یہ وقت ابتلا کا ہے، آزمائش کا۔ پاکستان میں اب تک اس مرض کے چودہ سو سے اوپر مریض موجود ہیں۔ فی الحال صورت حال زیادہ بری نہیں لگ رہی لیکن خبردار کرنے والے ڈرا رہے ہیں کہ ہوشیار رہنا یہ وبا اسی طرح تھمی رہتی ہے اور جوں ہی انسان بے پروا ہوا، یہ دنوں اور گھنٹوں میں یم دوت کا روپ دھار لیتی ہے۔

ساری دنیا گھروں میں محصور ہے۔ باہر رہنے والے گھر کے درودیوار کو تاک رہے ہیں اور گھریلو خواتین یا وہ لوگ جو پہلے ہی گھر سے کام کرتے ہیں ان مہمانوں کو دیکھ رہے ہیں۔

فرصت کے ان دنوں میں بہت سی نئی باتیں دریافت ہوئیں۔ دھریک پہ پتے نکلتے ہی سفیدی مائل کاسنی کلیوں کے گچھے نمودار ہوتے ہیں اور دوسری رات کے تیسرے پہر یہ کلیاں کھل جاتی ہیں۔ تب ایک ایسی ہوا چلتی ہے جو اس خوشبو کو خواب گاہوں، کتب خانوں، کھیتوں اور سڑکوں پہ اڑائے پھرتی ہے۔

ٹریفک نہ ہونے کے باعث آج کل پنجاب کی ہواؤں میں دھریک کی خوشبو کا راج ہے۔ اس خوشبو کے ساتھ ایک اور میٹھی سی خوشبو، ترشاوہ پھلوں پہ آئے بور کی مہک ہے۔ یہ دونوں خوشبوئیں، رات بھر ویران سڑکوں پہ غدر مچاتی ہیں اور بند کھڑکیوں کی درزوں سے اندر گھس جاتی ہیں ۔

جنگلی کبوتر، گلہریاں اور گوریاں، بے تکلفی سے چھجوں، منڈیروں اور دیواروں پہ پھدکتے پھرتے ہیں۔ گھاس میں نئے پھول سر اٹھاتے ہیں جیسے انسان کو تسلی دے رہے ہوں کہ غم نہ کرو، زندگی بہت خوب صورت ہے۔ یہ چند دن کی تکلیف ہے۔ سب پھر سے پہلے جیسا ہو جائے گا۔

دعا یہ ہی ہے کہ وبا نہ پھیلے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ یہ آفت پاکستان میں کیسے اور کیونکر آئی ۔ ڈیڑھ سال پہلے چلے جانے والوں کا اس میں قصور ہو کہ نہ ہو لیکن آج تین ایئر پورٹس اور تین زمینی سرحدوں سے ملک میں وبا کا داخلہ نہ روک سکنا ایک کوتاہی ہے۔ خدا نہ کرے کہ ہمیں اس کوتاہی پہ پچھتانا پڑے۔

نقصان اب بھی بہت ہوا ہے۔ بچوں کا تعلیمی سال جانے کیا سے کیا ہو گا؟ نئے داخلے، نئی جماعتیں، نیا تعلیمی سال، پچھلے امتحانات اور ان کے نتائج، سب اتھل پتھل ہو گیا ہے۔ اس سب سے بچا بھی جا سکتا تھا۔ جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ کیسے بچا جا سکتا تھا۔ مگر کچھ لوگوں کی کوتاہیوں، سستیوں اور غلط فیصلوں کے نتائج آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔

خدا کرے کہ یہ آزمائش اتنی ہی ہو، خدا کرے کہ اتنی ہی قربانیاں دے کے ہم اس وبا کے قہر سے نکل آئیں۔ اب مزید غلط فیصلوں کا وقت نہیں ہے۔ ذاتی مفادات اور انا سے اوپر اٹھ کے، بڑے فیصلے کرنے کا وقت ہے۔

آزمائش جتنی بڑی ہوتی ہے، اس سے سرخرو ہو کے نکلنے والا اتنا ہی بڑا ہیرو ہوتا ہے۔ ڈنڈے کے زور پہ ہیرو نہیں بنا جاتا، آفتوں کو زیر کرنا پڑتا ہے، کوہ بے ستوں کاٹنا پڑتا ہے، آگ کا دریا عبور کرنا پڑتا ہے۔

وقت گزر جاتا ہے، اچھا ہو یا برا۔ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ اداسی بھرے یہ دن ، جلد یا بدیر گزر ہی جائیں گے۔

تب تک، شفق کے رنگوں، بہار کی خوشبو اور مٹی کی مہک سے وابستہ رہیں۔ بے شک فطرت سب سے بڑا طبیب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).