کرکٹ، آڑ جھاڑ اور پکھیرو


جب ٹیمیں نہ بانٹتے تو ہم نمبر لگا لیتے۔ ایک لڑکا زمین پر کھلاڑیوں کی تعداد کے مطابق لائنیں کھینچ دیتا اور لائنوں کے نیچے اپنی مرضی سے نمبر لگا دیتا۔ نمبروں کو بلے سے چھپا کر رکھتا۔ سبھی ایک ایک لائن پہ انگلی رکھتے۔ بلا اٹھتا تو بیٹنگ آرڈر کا تعین ہو جاتا۔

یا پھر ہم ’پگ‘ کر باریاں لیتے۔ تین لڑکے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر دائرہ بناتے۔ ایک ہی وقت میں تینوں ہاتھ چھوڑ کر بائیں ہتھیلی پر دائیں ہتھیلی الٹی یا سیدھی رکھ لیتے۔ تینوں میں جو الگ ہوتا وہ ’گیات‘ جاتا۔ اگر دو نے الٹی ہتھیلی رکھی اور ایک نے سیدھی تو سیدھی ہتھیلی والا ’گیات‘ جاتا۔ اس کا پہلا نمبر۔ اسی طرح بقیہ نمبر بھی الاٹ ہو جاتے۔

ہمیں وکٹوں کی ضرورت نہ تھی۔ شاید وکٹیں خریدنے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔ تبھی تو چھوٹے کمرے کی دیوار پہ چاک، کوئلے یا چکنی مٹی کے ڈھیلے سے تین موٹی لائنیں کھینچ لیتے اور اوپر بیلز کی ایک ترچھی لائن۔ روز کھیل سے پہلے مزید پکا کرتے ان لائنوں کو۔ پت جھڑ میں نیم اور شرینہہ کے پتے تو جھڑ جاتے تھے لیکن ہماری وکٹیں اس سنگ مرمر کی طرح ہمیشہ رہتیں جو سکول کے کمروں کے وسط میں ان کی پیشانی پہ جڑا تھا۔

پتھر کا وہ ٹکڑا کتنا پیارا لگتا تھا۔ اس پر پاکستان اور امریکہ کے جھنڈے تھے۔ وہ بھی رنگین۔ بہت ہی ملائم پتھر تھا۔ ہمارے گراؤنڈ کی ہر شے کی طرح خوبصورت۔ اس پتھر پہ یہ عبارت کندہ کی گئی تھی۔

” یہ سکول ریاستہائے متحدہ امریکہ کے تعاون سے 1975 میں تعمیر کیا گیا۔ “

یہی بات انگریزی میں بھی لکھی ہوئی تھی جسے چھٹی، ساتویں جماعت کے بچے ہجے جوڑ جوڑ کر پڑھا کرتے تھے۔ وہ عبارت سبھی کو ازبر ہو گئی تھی۔ اسی پتھر کی عین سیدھ میں ہم ایک اینٹ رکھتے تھے۔ اسی اینٹ سے ایک پاؤں پیچھے ایک آگے رکھ کر بالر گیند پھینکتا تھا۔

کبھی ہم جگہ بدل کر کھیلتے تو پھر بکھری اینٹیں، روڑے چن کر جوڑ لیتے۔ وکٹیں تیار۔ کوئی امپائر نہیں ہوتا تھا تب۔ یا کہہ لیجیے کہ سبھی امپائر ہوتے تھے۔ جھگڑے تو اٹوٹ انگ تھے ہماری کرکٹ کے۔ ’رودے‘ بھی لازمی حصہ ہوتے۔ جب کسی بات پر اختلاف ہوتا تو سبھی باجماعت کھپ ڈال دیتے۔ سبھی قسمیں اٹھانے لگتے۔ ’اللہ پاک دی قسم گیند کبھی وکٹ نوں لگی اے‘ ۔ ’مینوں اپنے ماں پیو دی قسم اک گٹھ دوروں لنگی اے‘ ۔ ’نبی رسول دی قسم‘ ۔ ’بابا فرید دی قسم‘ ۔ مینوں مردی واری کلمہ نصیب نہ ہووے جے کوڑ ماراں تاں ’۔ وغیرہ وغیرہ۔ کسی کو کسی پہ بھی یقین نہ آتا۔ بول بول کے تھک جاتے تو زمین پہ‘ پتھلا ’مار کر بیٹھے رہتے۔ پھر دھیرے دھیرے جو جھوٹا ہوتا وہ نرم پڑ جاتا یا جس کی باری جاتی نظر آتی وہ تصفیہ کرنے پہ مائل ہوجاتا۔

سبھی خاص خیال رکھتے کہ جس کا گیند یا بلا ہے وہ کسی صورت ناراض نہ ہونے پائے۔ کہیں روٹھ کر بلا کندھے دھرے یا گیند قمیض کی سائیڈ جیب میں ٹھونسے گھر کی راہ نہ لے۔ ان کی ’وکھری ٹور‘ ہوتی تھی۔

درختوں کی شاخوں پہ بندر کی طرح چمٹا لڑکا بھی امپائرنگ کے فرائض انجام دیتا۔ یا پھر کھیتوں کو جاتا کسان جس کے ہاتھ میں درانتی اور تان ہوتا، جو پل بھر کو ٹھہر گیا تھا، وہ فیصلہ سنا دیتا۔ ایسا چچڑ بیٹسمین جس کو آؤٹ کرنا مشکل ہوتا اسے پھر ہم رودے اور قسموں کے زور سے ہی آوٹ کیا کرتے تھے۔

ہماری کرکٹ میں ہر قسم کا باؤلنگ ایکشن قابل قبول تھا۔ وٹہ باؤلنگ عام چلتی۔ ایک سادہ سا اصول تھا۔ ’جیسے باؤلنگ کراؤ گے ہم بھی ویسے ہی کرائیں گے‘ ۔ سبھی فاسٹ باؤلر ہی تھے۔ ہمارے نزدیک صرف تیز گیندبازی کو کھیلنا مشکل سمجھا جاتا تھا۔

سنگل ڈبل کا رواج نہیں تھا۔ کیوں بھاگ بھاگ کر ہلکان ہوں اور رن آؤٹ پہ بار بار تو تو میں میں ہو۔ صرف چھکے چوکے لگتے تھے۔ کوئی سکورر کہاں سے لاتے۔ سبھی کھلاڑی رنز گنتے رہتے۔ درخت پر بیٹھا لڑکا بھی ہانک لگاتا رہتا۔ رنز اتنے اونچی آواز میں گنتے کہ بعید از قیاس نہیں کہ قریبی گھروں کی برتن مانجھتی خواتین کو بھی رنز کا پتہ چلتا رہتا ہوگا۔

اسٹمپ آؤٹ، رن آوٹ، ایل بی ڈبلیو تو ہماری ڈکشنری میں بھی نہ تھے۔ کیچ اور بولڈ سے ہی کھلاڑی آؤٹ ہوتا۔ زیادہ پیڑ ہونے کی وجہ سے ’آڑ جھاڑ‘ کا اصول بھی لاگو ہوتا تھا۔ شاٹ لگی اور گیند شاخوں میں پھنس گئی۔ بس فیلڈنگ سائیڈ کے کھلاڑی لگے پتھر وٹے مارنے۔ گیند شاخوں کے چنگل سے نکلی تو پھر کیچ کرنے کی تگ و دو شروع ہوتی۔ نیچے آتی گیند سے درخت کے پتے شاخیں پنگ پانگ کھیلتے تو گیند کہیں سے کہیں پھسل جاتی۔ نیچے کیچ کے متمنی بھی کبھی ادھر بھاگتے تو کبھی ادھر۔ جیسے وانجو کھیل رہے ہوں۔

سکول کی چھت پہ گیند جائے گی تو بیٹسمین آؤٹ۔ اور اگر گیند کسی کے گھر جائے گی تو اور بھی کڑی سزا ملے گی۔ آوٹ تو ہوگا ہی بیٹسمین خود گیند بھی واپس لانے کا ذمہ دار ہوگا۔ گیند واپس لانا کبھی بھی آسان نہ ہوتا۔ گھریلو کام کی چکی میں پستی، تھکی ہاری خواتین کھری کھری سناتی تھیں۔ کڑوی کسیلی سننا، منت سماجت کرنا یہی سزا تھی خراب شاٹ کھیلنے کی۔ گیند کبھی واپس ملتی کبھی نہ ملتی۔ قسمت ہر بار مہرباں نہ ہوتی تھی۔

گیند کھو جانے پہ سب کے منہ لٹک جاتے جیسے بیر کی چوٹی پر لال سرخ بیر کو بہت دیر سے وٹے مار رہے ہوں اور سب نشانے خطا جا رہے ہوں۔ جب نشانہ ٹھیک بیٹھا تو وہ لال سرخ، میٹھا بیر نہ جانے وٹے کے ساتھ اڑ کر کہیں دور چلا گیا ہو اور کھو گیا ہو۔ ہائے کمبخت! کہیں تو پڑا ہوگا۔

ہماری کرکٹ میں لنچ بریک نہیں ہوتی تھی۔ صرف پانی کا وقفہ۔ شرینہہ کے نیچے نلکا لگا تھا جس کا پانی بہت ٹھنڈا ہوتا تھا۔ لگتا تھا جیسے چاچا نذیر سبزی والے سے کسی نے برف کی ڈلی لا کر نلکے میں ڈال دی ہو۔ پیاس تو بجھتی ہی، ساتھ من بھی ٹھنڈک کے احساس سے سرشار ہوجاتا۔

گرمیوں کی چھٹیاں ہوتیں تو ماسٹر جی چوری کے ڈر سے نلکے کی ہتھی اتار کر الماری میں محفوظ کر لیتے۔ پھر ہم گز ہاتھوں سے کھینچ کھینچ کر پانی نکالتے یا پھر بلے کی مٹھ گز میں اڑیس کر نلکا گیڑنے کی اپنی سی کوشش کرتے۔

نلکا کبھی کبھی پانی اتار جاتا تھا۔ مسیت کی ٹونٹی سے ’استاوے‘ میں پانی بھر کر نلکے کی نال میں ڈالتے اور پھر گیڑتے جاتے۔ جی بھر کر پانی پیتے۔ ہاتھ، منہ، پاؤں دھوتے۔ گرمی زیادہ ہوتی تو سر بھی ٹھنڈا کر لیتے۔ بعد میں نلکے کے کھاڈے میں ٹھہرے پانی میں چڑیاں پانی پیتیں اور نہاتی رہتیں۔ چڑیوں کے علاوہ اور بھی پکھیرو پانی پینے چلے آتے۔ پانی پی کر فاختائیں، مینائیں، کوے، چڑیاں، طوطے، بلبل، سون چڑیاں اور پکھو ترکھان پیڑوں کی شاخاوں پہ بیٹھے گیت گاتے رہتے۔ کبھی تو ان کا شور ہمارے شور و غوغا کو مات دے دیتا۔ کئی لڑکے سائیکل کی پرانی ٹیوب یا فٹبال کے پھٹے بلیڈر کاٹ کر غلیل بنا لاتے اور ان میں ’گلیلے‘ یا ’گگڑیں‘ ڈال کر نشانے باندھتے۔ وہ تو اچھا یہ تھا کہ ہمارے گاؤں کے زیادہ غلیل چلانے والوں کے نشانے خطا جاتے تھے اور پرندے پھر سے اڑ جاتے تھے۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 77 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments