سوئیڈن سے پاکستانی بلوچ صحافی ساجد حسین لاپتہ


بلوچستان کے علاقے کیچ سے تعلق رکھنے والے صحافی اور دی نیوز اخبار کے سابق ڈیسک ایڈیٹر ساجد حسین سوئیڈن سے لاپتہ ہوگئے ہیں۔

ساجد حسین کے بھائی واجد بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ساجد سوئیڈن کی اُپسالہ یونیورسٹی میں ماسٹرز کا کورس کر رہے تھے۔

اس کی خاطر انھوں نے حال ہی میں سٹاک ہوم سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر واقع شہر اُپسالہ میں ایک ہاسٹل میں کمرہ کرائے پر لیا تھا۔

لیکن رواں ماہ 2 مارچ سے ساجد ہاسٹل میں شفٹ ہونے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔ اُن کے دوستوں نے پولیس میں 3 مارچ کو رپورٹ درج کرائی اور مقامی پولیس نے باقاعدہ طور پر 5 مارچ کو کام شروع کیا۔

سٹاک ہوم پولیس کی ترجمان کے مطابق اس وقت سٹاک ہوم پولیس اس کیس کی جانچ کررہی ہے اور مزید تفصیلات تفتیش مکمل ہونے پر ان کے خاندان کو دی جائیں گی۔

پولیس کی ترجمان کے مطابق ہاسٹل کے کمرے سے ساجد کا بیگ اور لیپ ٹاپ ملا ہے جبکہ سفر کے کاغذات جیسے کہ پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات غائب ہیں۔

دوسری جانب سٹاک ہوم میں مِسنگ پرسنز پر کام کرنے والے ادارے سے منسلک جینی جوہینسن اور ان کے ساتھیوں نے 2 مارچ سے اب تک کے عرصے میں ہاسٹل کے گرد و نواح جبکہ شہر کے جنگلات اور ندیوں میں بھی تلاش جاری رکھی ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’واپس آنے والے اسی حکومت میں لاپتہ ہوئے‘

ماما قدیر کون ہیں؟

‘کچھ لاتیں اور گھونسے مارے اور کہا غلط فہمی پر اٹھایا تھا’

کوئٹہ کی سڑکوں پر اتنی خواتین کیوں احتجاج کر رہی ہیں؟

ساجد کی گمشدگی کی اطلاع اُپسالہ یونیورسٹی کی ایرانی زبان کی پروفیسر کرینہ جہانی نے 2 مارچ کو پولیس کو دی۔

کرینہ اور ساجد پچھلے کئی ماہ سے بلوچی اور انگریزی زبان کی لغت تیار کرنے میں مصروف ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پروفیسر کرینہ نے کہا کہ ’ساجد ایک نہایت ہی اچھے اور وقت کی پابندی کرنے والے انسان ہیں۔ میں نے انھیں 2 مارچ کو سکائپ پر کال کی جس کا جواب نہیں آیا۔ مجھے تشویش ہوئی کیونکہ میں ان کے سوئیڈن آنے کا سبب جانتی تھی۔‘

کرینہ نے بتایا کہ پولیس نے انھیں کہا کہ ساجد شاید کچھ وقت کے لیے کہیں چلا گیا ہو۔ ’لیکن ساجد کے دوست اور میں کافی پریشان ہوگئے اس لیے ہم نے کیس رجسٹر کرنے پر زور دیا۔‘

کرینہ کے مطابق پولیس نے اُن کو اطلاع دی کہ 2 مارچ پیر کے روز ساجد کے بینک اکاؤنٹ سے پیسے نکالے گئے تھے۔ لیکن پولیس اس سے زیادہ اطلاع نہیں دینا چاہتی۔

ساتھ ہی کرینہ نے بتایا کہ سوئیڈن میں پرائویسی کا قانون بہت سخت ہے ’تو مثال کے طور پر اگر کل کو میں لاپتہ ہوجاؤں تو پولیس میرے شوہر کو میرے اکاؤنٹ کی معلومات نہیں دے گی۔‘

واجد بلوچ نے بتایا کہ ’ساجد اتنا غیر ذمہ دار نہیں ہوسکتا کہ گھر والوں کو بتائے بغیر اتنے لمبے عرصے کے لیے کہیں چلا جائے۔‘

واجد نے بتایا کہ ’ہم پولیس کی تفتیش مکمل ہونے کے انتظار میں تھے۔ اور کچھ معلوم ہونے سے پہلے خوف نہیں پھیلانا چاہتے تھے۔ لیکن جب اطلاعات سامنے نہیں آئیں تو ہم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے ذریعے ساجد کے دوستوں، صحافیوں اور بلوچی ادبی دائرے میں موجود لوگوں کو ساجد کی گمشدگی کی اطلاع کی۔‘

ساجد حسین نے کراچی میں پہلے ڈیلی ٹائمز اور پھر دیو نیوز اخبار میں 2008 سے 2012 تک کام کیا ہے۔

ساجد کے بھائی نے بتایا کہ 2012 میں ’ساجد نے اپنی جان بچانے کے لیے ہنگامی حالات میں ملک چھوڑ کر عمان میں پناہ لی تھی۔‘

ساجد کے دوست تاج بلوچ کے مطابق ساجد کے خاندان اور دوست احباب کے جبری طور پر گمشدہ اور بعد میں قتل ہونے کے نتیجے میں ساجد نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ان کے دوست کے مطابق ساجد کو ملک میں رہتے ہوئے اپنے زندہ رہنے کی امید نہیں تھی۔ اس لیے انھوں نے عمان جانے سے پہلے اپنی زیرِ تحریر کتاب کا ایک باب اپنے دوست کو ای میل کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ باب اُن کی بیٹی تہیر کو تب دینا جب وہ اٹھارہ سال کی ہوجائے۔

دو سال عمان میں رہنے کے بعد ساجد دبئی اور پھر وہاں سے یوگانڈا منتقل ہوئے۔ اس عرصے میں ساجد نے ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں بھی کام کیا۔ اس دوران ساجد نے صحافت کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے صحافی سے ٹرانسپورٹر بننے تک کے سفر پر ایک مضمون بھی لکھا۔

ساجد 2017 میں سوئیڈن پہنچے جہاں پر وہ اُپسالہ یونیورسٹی میں ایرانی زبان میں ماسٹرز کررہے ہیں۔ ساجد نے 2019 میں سوئیڈن میں پناہ لینے کے لیے درخواست دی جو قبول ہوچکی تھی۔ مارچ سے پہلے تک ساجد اپنے ایک دوست کے ساتھ سٹاک ہوم میں رہ رہے تھے۔ اور اُپسالہ آنے کا فیصلہ انھوں نے یونیورسٹی سے نزدیکی کی بنیاد پر لیا۔

ساجد اپنی بیٹی اور بیوی کا سوئیڈن منتقل ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔

کراچی میں دی نیوز کے سینئیر ایڈیٹر طلعت اسلم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ساجد ایک باصلاحیت اور قابل انسان ہیں۔ اُن کا اچانک سے ملک اور صحافت چھوڑ دینا ہم سب کے لیے کافی افسوسناک تھا۔‘

ساجد اس وقت آن لائن اخبار بلوچستان ٹائمز کے ایڈیٹر اِن چیف ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp