پاکستان میں کورونا وائرس بحران میں قیادت عمران کی جگہ بلاول کررہے ہیں


کورونا وائرس (کووڈ۔ 19 ) نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ تبدیلی اتنی مؤثر ہے کہ ستمبر 2001 کے بعد امریکہ کا بنایا نیا عالمی نظام گرنا شروع ہو گیا ہے۔ آج کل کوئی بھی طالبان، القاعدہ یا داعش سے نہیں ڈر رہا، دنیا کو خطرہ ہے تو کرونا وائرس سے۔ یہاں تک کہ امریکہ جیسی طاقت بھی کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے میں جدوجہد کر رہی ہے کیونکہ وہ خطرے کو بھانپنے کے قابل نہیں تھی۔

دنیا کے ممالک نے اپنی توجہ صحت کی سہولیات پہ رکھی ہوئی ہے، پیسے ویکسین ڈھونڈنے پہ خرچ کر رہے ہیں اور عالمی وبا کے بعد کے وقت کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی معیشتوں کی تنظیم نو میں مصروف ہیں۔ ایسے میں پاکستان میں اس بات پہ بحث ہو رہی کہ نماز جمعہ کے اجتماعات کی اجازت ہونی چاہیے کہ نہیں؟ یہ وبا دنیا میں جو تبدیلیاں لا رہی ہے اس پہ کوئی بھی پریشان نہیں دکھ رہا، ان کی ساری توجہ س بات پہ ہے کہ مساجد کو کھلا رہنے دیں یا غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیں۔

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت، جس کی پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں بھی حکومت ہے، نے نیز جمعہ کے اجتماعات، جن میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد شرکت کرتی ہے، کی بندش نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ پی پی کی سندھ حکومت نے تمام مشکلات کے باوجود 5 اپریل تک صوبے میں باجماعت نماز پہ پابندی عائد کی ہے۔

جب ملک کو اتحاد کی ضرورت ہے ایسے وقت میں یہ ملک میں سیاسی اور مذہبی تفریق کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان سیاسی قیادت کو جوڑنے میں مکمل ناکام ہوئے ہیں، اس کے بجائے پی پی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری یہ کام کر رہے ہیں اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خلاف یکساں پالیسی بنانے کے لئے ہر ایک سیاسی جماعت سے رابطہ کر رہے ہیں۔

میڈیا کے ذریعے ایک بدعنوان اور خراب جماعت کے طور پر پیش کیے جانے کے باوجود پیپلز پارٹی نے نہ صرف صوبہ سندھ میں اس بیماری کے پھیلاؤ کوروکنے کے لئے مؤثر اقدامات کیے ہیں بلکہ وہ اس مثالی قیادت بھی کر رہی ہے۔ معاشرتی تنہائی اور تالا بندی کی بات پہلی مرتبہ بلاول نے کی تھی اور سندھ میں پی پی حکومت نے ہی صوبہ بھر میں تالا بندی کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہاں تک کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کو میدان میں دیکھا جا سکتا ہے، وہ باقاعدگی سے ہسپتالوں اور قرنطینہ مراکز کا دورہ کر رہے ہیں۔ نظر یہ آ رہا ہے کہ ہم ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو والی پرانی پی پی کو دوبارہ زندہ ہوا دیکھ رہے ہیں جس کو عوام کے لئے جذبات رکھنے کی وجہ سے پسند کیا جاتا تھا اور جس میں مشکل فیصلے کرنے کی صلاحیت تھی۔

شاید بلاول نے اپنی مرحومہ ماں والا راستہ اختیار کیا ہے، یہی سبب ہے جب پاکستان تحریک انصاف مرکز کے ساتھ پنجاب اور کے پی میں دباؤ میں تھی اور تالا بندی کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں فیصلہ کرنے میں متامل تھی، ایسے میں کرونا وائرس سے مؤثر مقابلے کے لئے دستیاب محدد وسائل کے باوجود چیلنج کو قبول کیا۔

ایسے ملک میں جہاں علماء کو دین پہ اجارہ داری حاصل ہو اور وہ لاکھوں لوگوں کے ذہنوں کو آسانی سے بدل سکتے ہوں وہاں نمازکے اجتماعات پہ بندش لگانا آسان فیصلہ نہیں تھا، پی پی حکومت کا یہ فیصلہ بہت دلیرانہ ہے اور اس کی تعریف کی جانی چاہیے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پی پی دوسری مرکزی دھارے میں شامل وسط کی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف سے بالاتر اور بہت آگے ہے۔

البتہ سندھ حکومت کی وبا کے خلاف جنگ اور بلاول بھٹو کی سیاسی قیادت کو اکٹھا کرنے کوششیں ملک کو اس بیماری کے جانوں کے ضیاع اور معیشت پہ پڑنے والے اثرات سے بچانے کے لئے کافی نہیں ہیں۔ جب لوگوں کو مساجد میں اکٹھا ہونے کی اجازت ہو تو اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنا نا ممکن ہے، پر وفاقی حکومت اور عمران خان ہمیشہ کی طرح دائیں بازو کے ووٹ بینک اور مذہبی لوگوں کو راضی کر کے خوش ہیں۔

حقیقت میں اس مرحلے پہ بھی وفاقی حکومت یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ ملک بھر میں تالا بندی ضروری ہے کہ نہیں، جیسے خان نے صوبوں کو اپنے تالا بندی کے فیصلے پہ دوبارہ غور کرنے اور شرائط نرم کرنے کا کہا ہے۔ خان کی ختم نہ ہوتی خودپسندی اسے دنیا کا مانا ہوا یہ بنیادی نقطہ سمجھنے نہیں دے رہی کہ صرف تالا بندی ہی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو کم کر سکتی ہے۔

وفاقی حکومت نے وبا کے وجہ سے پیدا ہوئے بحران سے نمٹنے کے لئے 1.2 ٹرلین روپے کا امدادی پیکیج منظور کیا ہے۔ اس میں سے 150 ملین روپے مزدوروں اور 280 ملین روپے گندم کی خریداری کے لئے رکھے گئے ہیں۔ حکومت نے تیل کی قیمتوں میں 15 روپے کمی کی ہے۔

البتہ غریبوں کے لئے جو پیکیج رکھا ہے وہ مذاق لگتا ہے، کیونکہ اس میں روزانہ اجرت پہ کام کرنے والے مزدوروں کے خاندان کو صرف 3000 روپے ملیں گے، جو کہ تین سے چار افراد والے خاندن کے ایک ہفتے کے گزارے لئے بھی ناکافی ہیں۔ اس کے مقابلے میں سندھ حکومت غریبوں کو پورے ایک مہینے کا راشن دے گی، اور اس کو تب تک جاری رکھنے ک ارادہ رکھتی ہے جب تک وبائی بحران ختم نہیں ہوجاتا۔

مرکزی حکومت صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس نے امدادی پیکیج کے حصے کے طور پہ % 13.5 سے % 11 شرح سود میں بالکل تھوڑی کمی کی ہے۔ اس نے نتیجے میں زیادہ شرح سود کی لالچ میں سرمایہ کاروں نے جو پیسے لگائے تھے وہ نکال لیں گے۔

نتیجتاً جمعرات کو ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کافی گراوٹ ہوئی۔ یہی حال اسٹاک مارکیٹ ک ہے جہاں حکومتی امدادی پیکیج کے باوجود روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے غیر یقینی کی صورتحال اب بھی باقی ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکی سینیٹ کی طرف سے پاس ہوئے 2 ٹرلین ڈالر کے پیکیج نے نہ صرف سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مضبوط کیا ہے بلکہ وہ اسٹاک مارکیٹ میں نئی روح پھونکنے میں کامیاب ہوا ہے، جس کی وجہ سے ڈاؤ نے منگل کے روز ایک دن کی سب سے بڑی چھلانگ لگائی اور % 11 بڑھ گیا۔

پاکستان یقیناً امریکہ نہیں اور یہ اتنا بڑا پیکیج نہیں دے سکتا۔ پر شرح سود میں تھوڑی کمی اور غریب خاندانوں کو 3 ہزارروپے دینے سے عوام اور تاجر برادری میں اضطراب اور گھبراہٹ کو کم کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔ معیشت کی تنظیم نو جیسے اہم پہلو کو مکمل طور پہ نظرانداز کیا جا رہا ہے، کیونکہ کورونا وائرس کے بعد کی دنیا ک انحصار ڈجیٹل معیشت پہ ہوگا، اور جب تک ویکسین نہیں ملتی کاروبار کرنے اور معیشت کو سنبھالنے کے روایتی انداز کارگر نہیں ہوں گے۔

حکومتی بے بصیرتی دکھائی دے رہی ہے، کیونکہ اس کی توجہ پی پی حکومت کی صوبہ سندھ میں وبا کے خلاف جنگ کو کم کرنے اورآزاد میڈیا کو دبانے کی طرف ہے۔

ایسے وقت میں جب وزیراعظم کو مشترکہ سیاسی حمایت درکار ہے، اس نے خود کو اکیلا کر لیا ہے۔ پاکستان کی پریشانی صرف یہ نہیں کہ کیسے اس وبا کے پھیلاؤ کو روکا جائے اور کیسے خراب معیشت کو گرنے سے روکا جائے، بلکہ مرکزی حکومت میں بالغ، آزاد فیصلے کرنے والوں کی غیر موجودگی سے بھی ہے۔

وہ حکومت جو محدود وقت کے لئے عبادت کرنے والوں کے اکٹھے ہونے پہ پابندی لگانے کے مذہبی لوگوں کے دباؤ کو برداشت نہیں کر سکتی وہ وبا کے پھیلاؤ کو نہیں روک سکتی۔ تحریک انصاف کی حکومت کو ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ ڈاکٹروں اور میڈیکل اسٹاف نے ہی کورونا کے خلاف نہ تھکنے والی جنگ لڑنی ہے اور معاشرے کے ہر فرد نے اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔

عوام کو اس بات پہ قائل کرنے کے لئے کہ بحران کے وقت کے وقت میں کیا کرنا چاہیے کے لئے حکومت کو نہ صرف مکمل سیاسی حمایت کی ضرورت ہے بلکہ اس کو کورونا کے بعد کی ضروریات کو بھی بہت جلد سمجھنا ہوگا۔

یہ قلیل مدتی لڑائی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک لمبی جنگ ہے اور عوام کو اس کے لئے تیر کرنے۔ کی ضرورت ہے۔ مذہب کے نام پہ مولوی کو ان کے نظریات تبدیل کرنے نہیں دیے جا سکتے۔

دنیا کا کوئی بھی مذہب کورونا کی ویکسین ایجاد نہیں کر سکتا اور ایسے وقت میں جب انسانی بقا کے لئے تنہائی بھی آکسیجن جتنی اہم ہے، کسی بھی مذہب کو اپنے پیروکاروں کو اجتماعی خودکشی کے لئے کسی عبادت کی خاطر جمعہ ہونے کے لئے نہیں کہنا چاہیے۔ اسی طرح عمران خان اور اس کی ٹیم کو بلاول بھٹو کی اکٹھا کرنے کی سوچ اور سیاسی حکمت اور سندھ کے وزیراعلی مراد علی شاہ سے مولویوں کے اوپر کیسے حکومتی رٹ قائم کی جائے اور منظم طریقے سے کیسے وبا سے لڑا جائے سیکھنا چاہیے۔

بحران کے وقت آدمی کا قد یہ فیصلہ کرتا ہے کہ بحران کے وقت اپنی نا اہلی وجہ سے وہ تاریخ کے کچرے کے ڈھیر میں دب جائے گا یا وہ حکمت اور دلیری سے چیلنج کا نبرد آزما ہوتے تاریخ میں اپنا مقام پا لے گا۔

اس وقت دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کو اس وبا کے خلاف لمبی لڑائی لڑنی ہے مگر مثبت بات یہ ہے کہ مرد علی شاہ کی شکل میں ہم نے دیکھا ہے جب کوئی وبا کے خلاف کے خلاف جنگ کا فیصلہ کر لے تو اس وبا کو روکا جا سکتا ہے اور کچھ وقت میں شکست بھی دی جا سکتی ہے، جیسے ہم انسان سینکڑوں ہزاروں سالوں سے اس سیارے پہ موجود ہیں اور کسی بھی حالت میں زندہ رہنے کی ہمارے صلاحیت کی وجہ سے ہمارا وجود برقرار رہے گا۔

اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری کا اچھے خیالات کے ساتھ ابھر کر سامنے آنا ور سیاسی قیادت کو اکٹھا کرنا ایک نیک شگون ہے کہ ملک کے کسی سیاستدان میں تو ذمے داری ک احساس ہے اور کوئی تو ہے جو وبا کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ وزیراعظم کو اپنا سیاسی قرنطینہ ختم کرنے اور اس جنگ میں قیادت کرنے کی ذمے داری لینے کی ضرورت ہے۔ اب بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ نے پاکستان میں وبا کے خلاف جنگ میں قیادت کی ذمہ داری لی ہوئی ہے۔
بشکریہ ایشیا ٹائمز، سماچار


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments