سینئر سیاستدان قمرزمان کائرہ سے ایک گفتگو


پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینئر سیاستدان قمر زمان کائرہ 5 جنوری 1960 کو گجرات میں پیدا ہوئے ہیں، انہوں نے 1985 میں نے ڈبل ماسٹر ڈگری کے لئے اپنا مقالہ لکھا اور اس کے بعد فلسفہ برائے سیاست میں ایم اے اور پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ایم ایس کی ڈگری حاصل کی۔ وہ سابق وزیر اطلاعات اور کشمیر افئیرز کے وزیر بھی رہے ہیں، سینئر سیاست دان قمر زمان کائرہ کے سیاسی سفر کا آغاز 2002 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ہوا تھا انہوں نے سیاسی فلسفے سے متعلق بہت سے مضامین پیش کیے ہیں اور ملک میں جمہوریت کے لئے آواز اٹھائی ہے۔ اپنے متوازن رویے اور سمجیدہ سیاست کی وجہ سے سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر قمر زمان کائرہ کا تمام سیاسی حلقوں میں احترام کیا جاتا ہے۔ ان سے کچھ حالیہ گفت و شنید قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔

صحافی : آپ جیسا تحمل مزاج انسان آج کل اسکرین پر اشتعالی انداز میں نظر آرہا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

قمر زمان کائرہ: میں اختلاف برداشت کرسکتا ہوں البتہ بدتمیزی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی ہے، مجھے جہاں ایسا لگتا ہے یہاں بدتمیزانہ ماحول بن رہا ہے میں اس ماحول کا حصہ نہیں بنتا اور اٹھ کر چلا جاتا ہوں۔

صحافی : آپ وزیر اطلاعات رہ چکے ہیں، میڈیا کی کون سی کوتاہیاں ہیں جن پر قابو پانا بہت ضروری ہے؟

قمر زمان کائرہ: غلطیوں سے سیکھنا بہت ضروری ہے، پہلے میڈیا میں ایڈیٹرول کا ادارہ ہوتا تھا اب ساری پالیسی سیٹھ مرتب کرتا ہے، جس سے صحافت کی کارگردگی متاثر ہوئی ہے، پھر سوشل میڈیا کے اثرات بھی روایتی میڈیا پر اثر انداز ہورہے ہیں، جس کی وجہ سے مزید خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔

صحافی : کیا سوشل میڈیا ریاست کا پانچواں ستون بننے جارہا ہے؟

قمر زمان کائرہ: ایسا نہیں ہے، سوشل میڈیا کی اخلاقی تربیت کی بہت ضرورت ہے، وہاں سب کچھ برا نہیں ہے البتہ اخلاقیات کی کمی ضرور ہے، جس کی اصلاح بہت ضروری ہے۔

صحافی : 2008 سے لے کر 2011 تک آپ کشمیر افئیرز کے وزیر رہے ہیں؟ ہماری مقبوضہ کشمیر پالیسی کتنی واضح اور متحرک رہی ہے؟

قمر زمان کائرہ: پاکستان کی جانب سے ہمیشہ مقبوضہ کشمیر کی پالیسی واضح اور متحرک رہی ہے۔

صحافی : ماضی کے سیاسی اتحاد میں ایسی کون سی نا پختگی تھی جس کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوا اور آج وہ برسر اقتدار ہے

قمرزمان کائرہ: پاکستان کے معاشی مسائل بہت زیادہ ہیں، وسائل کی کمی کی وجہ سے کوئی حکومت بھی پاپولر نہیں رہی ہے، پھر کچھ اداروں کی سیاسی مداخلت کی وجہ سے عمران خان کو لایا گیا، وہ ادارے پہلے بھی سیاسی جماعتوں کو پیپلزپارٹی کے خلاف آزماتے رہے ہیں، عمران خان بہترین کرکٹر کے طور پر ہر دل عزیز شخصیت رہے ہیں، پھر سماجی کاموں میں بھی فعال کردار ادا کرچکے ہیں، انہوں نے اسپتال بنایا، یونیورسٹی بنوائی یہ ان کی بہت بڑی کامیابیاں ہیں جنہیں استعمال کیا گیا، پاپولزم کا المیہ یہ ہوتا ہے وہ بنا کسی نظرئیہ اور سمجھ بوجھ کے تحت ہوتا ہے، پاپولزم کی وجہ سے عوام سے وہ وعدے کرلئے جاتے ہیں جن پر عملدر آمد کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، پھر یو ٹرن لینے پڑتے ہیں، کیونکہ کابینہ کی تشکیل نو کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا، وہ حکومت کبھی کامیاب نہیں ہوتی جس کی ڈور غیر جمہوری قوتوں کے پاس ہو، خان صاحب آئے نہیں, لائے گئے ہیں۔

صحافی : آپ اتنا حتمی طور پر کیے کہہ سکتے ہیں کہ خان صاحب کو ”کوئی“ لایا ہے؟

قمر زمان کائرہ: یہ بات تو کھلم کھلا ہے، اگرچہ خان صاحب 22 سال سے سیاست میں موجود ہیں مگر 2011 میں انہیں اچانک شہرت ملی، اچانک پیسے والی شخصیات نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور آج وہ وزیراعظم ہیں، میں پھر کہونگا، خان صاحب کی اسپیس بنوائی گئی ہے

صحافی : کیا خان صاحب پانچ سال مکمل کرلیں گے؟

قمرزمان کائرہ: یہ حکومت اپنی ناتجربہ کاری کی بنیاد پر ریاستی امور کے ہر سیکٹر میں ناکام ہوئی، یہ مزید رہے تو پاکستان کو نا قابل نقصان ہوگا لہذا انہیں فوراً چلے جانا چاہیں۔

صحافی : پاکستان میں کبھی میموگیٹ اسکیڈل، کبھی ڈان لیکس، کبھی ہوشیار کی تکرار، اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی، آپ تین سال ہیں ہم نے ہمیشہ رہنا ہے جیسی تقاریر ہوتی رہی ہیں، اس منظر نامہ کا پس منظر کیا ہے؟

قمر زمان کائرہ: میں آپ کے کا م میں مداخلت کرتا رہوں آپ کی سماجی شکل بگاڑنے کی کوشش کروں تو آپ کب تک برداشت کریں گئیں؟ پیپلز پاڑتی غیر آئینی قوتوں کی ہمیشہ مخالف رہی ہے، ہم آئندہ بھی غیر آئینی رویے کی مخالفت کریں گے

صحافی : قبل از یا اپنے وقت پر انتخابات ہو جاتے ہیں اور پیپلزپاڑتی وفاق کی حکمران جماعت بن جاتی ہے تو آپ کے بقول آپ لوگوں کو کام نہیں کرنے دیا جاتا تو وہی طاقتور ادارے آپ کے کام کے درمیان میں حائل رہیں گے۔

قمر زمان کائرہ: بہت سی سیاسی جماعتیں ان کی وجہ سے حکومت میں آتی ہیں، ہم عوامی پذیرائی کی وجہ سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں، پیپلزپارٹی کے خلاف محاذ آرائی کی تو ایک مکمل تاریخ ہے، اے آر ڈی کی تحریک، جنرل حمید گل کا کردار، اصغر خان کیس یہ سب تو آن ریکاڈر ہیں، ہم اپنی کوشش جاری رکھیں گے، جب تک ریاست کے چاروں ستون اپنے کام سے کام رکھ کر کام کریں گے جب ہی ملک بہتری کی جانب گامزن ہوگا۔

صحافی : ماضی کی اپوزیشن زیادہ مستحکم تھی یا حال کی؟

قمر زمان کائرہ: وقت و حالات کے تحت اپوزیشن کا رول ہوتا ہے، ماضی کی اپوزیشن بھی اچھی تھی آج کی بھی تگڑی ہے، بات یہ ہے کہ اپوزیشن یا حکومت کی کوئی ڈور نہ ہلا رہا ہو، جہاں ایسا ہوتا ہے وہ معاملات زیادہ دیر تک نہیں رہتے ہیں، کسی بھی سیاسی جماعت کو کسی طاقتور ادارے کی پشت پناہی حاصل نہیں ہونی چاہیں، سیاستدان چاہے وہ حکمران جماعت سے ہو یا حزب اختلاف کا اس کی ذمے داری ہے، وہ جمہوری نظام کو فروغ دے، پیپلزپارٹی یہ کام کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔

صحافی : تو پھر آرمی چیف قمر جاوید کی مدت ملازمت میں توسیع والے معاملے پر پیپلزپارٹی کی خاموش حمایت کی صورتحال کیوں رونما ہوئی؟

قمر زمان کائرہ: آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع تو حکومت وقت اگست 2019 میں کرچکی تھی، پارلیمان تک یہ بات نومبر 2019 میں آئی تھی، جس بل کو سب سیاسی جماعتوں نے مل کر پاس کیا، وہ اختیارت کا بل تھا کہ آرمی چیف کی تقریری کس کے پاس ہونی چاہیں، یقینا سیاسی اور جمہوری جماعت کے طور پر پیپلزپارٹی اس کے اختیارات وزیراعظم کو دینے کی حامی ہے، اگرچہ ہم توسیع والے معاملے پر ڈیبیٹ کے خواہشمند تھے مگر ہماری دوست مسلم لیگ نون نہیں مانی، ہم نے بھی ادارے کے احترام میں خاموشی اختیار کی۔

صحافی : پیپلز پارٹی، لبرل جماعت ہے، دوسری جانب ہم فضل الرحمان صاحب کے دھرنے میں بھی پی پی کو دیکھ چکے ہیں، کیا یہ لبرل ازم کے خلاف بات نہیں ہے؟

قمر زمان کائرہ: کیا یہ کافی نہیں ہے کہ آل پارٹی کانفرنس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری صاحب دوٹوک یہ کہہ چکے ہیں کہ میں مذہبی نکتہ نظر پر سیاست نہیں کروں گا۔ اسی لئے ہم دھرنے کا حصہ نہیں رہے تھے، تو کیا اتنا کافی نہیں ہے، فضل الرحمان صاحب کا اپنا طرز سیاست ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے ان سے اختلافات ہیں۔ ان کی اور ہماری سیاسی سوچ ایک ہے۔ ہم عمران خان سے پاکستان کو آزاد کرانا چاہتے ہیں مگر پیپلزپارٹی نے مذہب پر سیاست نہ کبھی کی ہے اور نہ ہی کرے گی۔

صحافی : فضل الرحمان دھرنے میں تنہا کیوں نظر آئے؟

قمر زمان کائرہ: مولانا تنہا نہ تھے نہ ہیں، دوران دھرنا پیپلزپارٹی نے ان سے کچھ وقت مانگا تھا، مولانا کی تیاری مکمل تھی ہم تیاری کے متمنی تھے، مولانا نے اپنی سیاسی طاقت دکھائی اور منوائی ہے، یہ ان کی کامیابی ہے، اگرچہ ہم ان کے دھرنے میں شامل نہیں تھے مگر ان کے اس اصولی موقف پر ہم ان کے ساتھ ہیں کہ اس حکومت کو جانا چاہیے۔

صحافی : کیا مولانا کا دھرنا کامیاب رہا؟

قمرزمان کائرہ: بالکل، مولانا اس دھرنے سے بہت ساری کامیابیاں لے کر گئے ہیں۔

صحافی : سیاسی جماعتوں میں پارٹی انتخابات کو کیوں نہیں اہمیت دی جاتی؟

قمر زمان کائرہ: ( از راہ مذاق) بی بی، اس ملک میں عام انتخابات کو اہمیت نہیں دی جاتی آپ سیاسی جماعتوں کے اندر الیکشن کرانے کی بات کر رہی ہے، ہونے چاہیں۔

صحافی : کیا وجہ ہے پیپلزپارٹی سندھ تک محدود ہوگئی ہے جبکہ ماضی میں چاروں صوبوں کی زنجیر کہا جاتا تھا

قمر زمان کائرہ: میں اس کا جواب دے چکا ہوں، طاقتور ادارہ ہمارے جمہوری کردار کو پسند نہیں کرتا ہے۔

صحافی : ماضی میں بلاول بھٹو زرداری صاحب نے پختون تحفظ موومنٹ کی جمہوری انسانی بنیاد پر حمایت کی تھی، حال ہی میں پی ٹی ایم کے رہنما افغانستان گئے، وہاں کے سرکاری وعسکری پروٹوکول سے لطف اندوز ہوئے، وہاں کی عسکری قیادت سے مصافحہ بھی کیا جبکہ وہ وردی کو دہشت گردی کی علامت سمجھتے ہیں، پی ٹی ایم کو لے کر اس حالیہ منظر نامے پر پی پی کا کیا موقف ہے؟

قمر زمان کائرہ: ہم نے پی ٹی ایم کے لئے نہیں دو آزاد امیدواروں کی گرفتاری پر یہ موقف اختیار کیا تھا، ہم نے اصول کو سپورٹ کیا پی ٹی ایم کو نہیں۔ جہاں تک افغانستان جانے کا معاملہ ہے، ہمارے یہاں مختلف لسان کی بنیاد پر بہت اسٹرونگ نیٹ ورک ہے جسے ٹوٹنا چاہیں مگر تاحال وہ بہت مضبوط ہے، لسان کی بنیاد پر ہی ولی خان، اجمل خٹک سمیت بہت سی شخصیات کے افغانستان سے بہت اچھے مراسم ہیں، ہماری بہت مذہبی جماعتوں کے قائدین کے شاگرد طالبان رہ چکے ہیں، ہمارے اہم ادارے کی طالبان تک رسائی ہے، تو کیا سب پر شک کریں؟ ایسا تو ممکن نہیں ہے، وردی کو دہشت گردی کی علامت کہنا سخت اور ناقابل قبول بات ہے، بہرحال ہمارے جوانوں نے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑی ہے، ان کی شہادتیں ہیں، اس قسم کے نعرے مناسب نہیں ہوتے ہیں۔

صحافی : آپ نے کہا کہ ہم لسانی بنیادوں پر اثرو رسوخ کو توڑ نہیں پائے، تو کیا اس امر کے پیچھے بھی کوئی ادارہ ہے؟

قمر زمان کائرہ : اس ملک میں مکمل جمہوریت کبھی پینپ نہیں پائی اس لئے لسانی بنیاد کا نیٹ ورک اسٹرونگ ہوتا گیا۔

صحافی : سر بہت دو ذاتی نوعیت کے سوالات، آپ کی زندگی کا خوشی و غمی کے لمحات، اگر آپ شئیر کرنا چائیں تو پلیز۔

قمر زمان کائرہ: میرے جوان سال بیٹے کا اس دنیا سے چلے جانا بہت تکلیف دہ ہے یہ میرا سب سے بڑا نقصان ہے، پھر پے در پے مارشل لا کے دور بھی مجھے بہت تکلیف دیتے رہے ہیں، خوشی کے لمحات بہت سے ہیں ایک خوشی کا انتظار ہے کہ پاکستان جلد از جلد مکمل جمہوری، مہذب اور ترقی یافتہ ملک بن جائے۔

صحافی : آپ بہت بڑے صدمے سے دوچار ہوئے بعد ازاں آپ نے اپنے آپ کو سیاسی سرگرمیوں میں مصروف کرلیا، ایک باپ کے لئے یہ کتنا مشکل ہے؟

قمر زمان کائرہ: یقینا بہت مشکل ہے، مگر میرے اللہ نے مجھے ہمت دی دوستوں نے ساتھ دیا، میں اپنے ہم وطنوں کا بہت شکر گزار ہوں انہوں نے مشکل ترین گھڑی میں میری اور میری فیملی کی بھرپور حوصلہ افرائی اور دعا کی، میرے بیٹے کی مغفرت کی دعائیں کیں،


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments