سچا پیار دیکھنا ہو تو اپنے والدین کو دیکھیں


میاں بیوی کو جوانی سے زیادہ بڑھاپے میں ایک دوسرے کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اولاد بیٹے ہو یا بیٹیاں اپنے اپنے کام اپنی زندگی اور اپنی فیملی میں بزی ہو جاتے ہیں۔ ان کے پاس والدین کو دینے کے لئے پھر وقت نہیں ہوتا۔ ایسے میں میاں بیوی کا ساتھ ایک دوسرے کے لئے نعمت سے کم نہیں ہوتا۔

میاں بیوی سائیکل کے دو ایسے پہیے ہوتے ہیں، جنہیں یکساں رفتار سے ہی چلنا ہوتا ہے۔ اگر خدانخواستہ ایک نہ رہے تو دوسرے کے لئے اکیلے چلنا محال ہو جاتا ہے۔ میرے والدین کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔

ابو درویش صفت ہیں ساری زندگی حلال کھایا اور کھلایا۔ ایک چھوٹا گھر سکینڈ ہینڈ گاڑی ہی ان کا اثاثہ رہی۔ ایک بڑی پوسٹ سے ریٹائر ہوئے۔ پنشن فنڈ سے ہی بچوں کی شادیوں کرنے کے قابل ہوسکے۔ اب ایک مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔

سروس کے آخری سالوں میں ہی بینائی سے محروم ہو گئے۔ آنکھ کے پردے کمزور تھے جوانی میں تو گزارہ ہو گیا۔ عمر کے ساتھ ساتھ مزید کمزور ہوتے گئے اور بینائی آہستہ آہستہ مکمل طور پر ختم ہو گئی۔ سروس جاری رہنے تک ان کے سٹاف نے بہت ساتھ دیا اور وہ اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔ لیکن ریٹائر منٹ کے بعد گھر تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔

نماز کے لئے مسجد جانے کے لئے بھی سہارا درکار ہوتا ہے۔ مالز اور شاپس وغیرہ جانے سے گھبراتے ہیں کہ کسی سے ٹکر نہ ہو جائے۔ دوست زیادہ ہیں نہیں۔ جو ہیں وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ان کو آوٹنگ کرانے کی۔ چاہے وہ آؤٹنگ پینشن کے کسی کام کی صورت میں ہی ہو۔

ایسے حالات میں والد اور والدہ کا ساتھ دیکھ کر ہمیں اطمینان ہو جاتا ہے کہ دونوں اکٹھے ہیں۔ صبح سے شروع ہو کر رات تک اور تہجد سے عشا کی نماز تک ان دونوں کا ساتھ رہتا ہے۔ ابو کا ناشتہ کھانا چائے، چائے کے ساتھ لوازمات کا صرف ماما کو پتہ ہوتا ماما اٹھتی ہیں تو وہ ناشتہ کرتے ہیں۔

ماما کھانے پر ساتھ بیٹھتی ہیں تو وہ کھانا کھاتے ہیں۔ ماما کو پتہ ہوتا ہے کہ سالن کس پلیٹ اور کس حصے میں ڈالنا ہے۔ رائتہ سلاد کس سائیڈ پر رکھنا ہے روٹی کس سائز کی پکانی ہے ان کے لئے ٹیبل پر رکھے جگ میں پانی کبھی ختم نہیں ہوتا۔

ابو سے زیادہ ماما کو پتہ ہوتا ہے کہ انہیں اس وقت کس چیز کی ضرورت ہے۔ ماما تھوڑا اونچا سنتی ہیں آلہ لگوایا ہوا ہے۔ ابو اکثر شرارتاً یہ گلہ بھی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ آلہ صرف تب ہی لگاتی جب سہیلیوں سے باتیں کرنی ہو۔ ابو آہستہ بولتے ہیں ہلکی سے آواز میں ماما کو آواز دیتے ہیں جو اکثر ماما نہیں سن سکتی ہیں۔

پھر ابو ایک دم سے پریشان ہو جاتے ہیں بیڈ پر ہاتھ مارتے ہیں اور اگر وہ نہ ملے تو لاؤنج تک آتے ہیں۔ جب تک ماما جواب نہ دے دیں انہیں سکون نہیں آتا۔ ماما کی آواز ان کے سانس کی رفتار اور چال سے ان کی طبیعت کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی دوائیوں کا دھیان رکھتے۔ نبض اکٹھے چیک کرتے ہیں، اکٹھے ٹی وی دیکھتے ہیں، اور ٹیب انجوائے کرتے ہیں۔

ابو نے قرآن پاک کی تلاوت سننی ہوتی ہے۔ لیکن وہ خیال رکھتے ہیں کہ ماما کہیں تنگ تو نہیں ہوں گی۔ اکثر انہیں کہتے سنا ہے کہ تنگ ہو گی ابھی تو تھک کر بیٹھی ہے۔ دونوں لڑتے بھی ہیں ہنسی مذاق بھی کرتے ہیں دکھ سکھ بھی اور ہمیں ایک دوسرے کی شکایتیں بھی لگاتے ہیں۔

ابو نے اپنی بیماری کو بڑی خوشدلی سے قبول کیا ہے۔ اکثر میں ان سے پوچھتی ہوں کہ ابو جی اتنا سکون اور توکل کیسے؟ تو جواب دیتے ہیں میں نے اپنی زندگی کا بہترین ٹائم بھی دیکھا ہوا ہے جب ہم بڑے سے سیشن ہاؤس میں رہتے تھے، ملازم گارڈز سہولتیں سب کچھ تھا۔ وہ اس وقت کو یاد کر کے اپنے آپ کو خوش کر لیتے ہیں کہ وہ بھی اللہ کی دین تھا اور یہ آزمائش بھی۔

اکلوتے بھائی کو اللہ پاک نے دس سال بعد اولاد کی نعمت سے نوازا ہے۔ ابو اپنی پوتی کو بھی ماما کی نظروں سے دیکھتے ہیں ابو اکثر سوچتے تھے اور بارہا اس چیز کا اظہار بھی کیا کہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد خوب گھوموں گا لیکن ان کا یہ خواب پورا نہیں ہو سکا ہم کوشش کرتے ہیں ان کو باہر لے کر جانے کی۔ میرے بچے تو زبردستی ساتھ لے آتے ہیں اور جتنے دن ہمارے پاس رہتے ان کی فیورٹ غزلیں اور مشاعرے سنواتے ہیں۔

میرے گھر بھی ماما کو ہی پتہ ہوتا کہ ابو کو کس وقت کیا چاہیے۔ ابو ماما کے بغیر ایک دن نہیں رہ سکتے اور اسی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کے لئے قربانی دیتے ہیں۔ کبھی ماما ان کی وجہ سے کہیں نہیں جا پاتی اور کبھی ابو ان کی خوشی کے لئے ان کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔

ان کے بینک کے کام ہوں یا آؤٹنگ ماما ان کا ہاتھ پکڑ کر قدم سے قدم ملا کر چلتی ہیں حالانکہ ایک گھٹنے میں تکلیف کی وجہ سے وہ ایک ٹانگ پر زیادہ دباؤ نہیں ڈال سکتی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو واک بھی کراتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کے اس واک میں ابو ان کا ہاتھ تھامے ان سے آگے نکل جاتے ہیں۔

میاں بیوی کا رشتہ شاید سب سے زیادہ دیر ساتھ چلنے والا رشتہ ہے والدین اتنی دیر ساتھ رہتے نہ اولاد۔ ہم لوگ اس تیز زندگی کی باگ ڈور میں اس رشتے کی خوبصورتی کو سمجھ ہی نہیں پاتے ازدواجی ذمہ داریاں چاہے گھر کی ہوں یا باہر کی انہیں نبھانا ہمیں مشکل لگتا ہے۔
پیار کی لوگ بس باتیں ہی کرتے ہیں۔ کسی نے سچا پیار نبھاتے کسی کو دیکھنا ہو تو اپنے گھروں میں موجود اپنے بوڑھے والدین کو دیکھ لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments