وبا کے خلاف یہ لڑائی ہمیں مل کے لڑنا ہو گی


کرونا وائرس نے بلا شبہ انسانی زندگی کی بنیادیں ہلا کہ رکھ دیں ہیں۔ وہ معاشی بنیادیں ہوں یا سماجی، قدیم رسوم و رواج ہوں یا مذہبی اقدار۔ اس آفت نے انسان کے اعتقادات اور عادات کو جھنجوڑ دیا ہے۔

مگر یہ بنی نوع انسان ہر آنے والی پہلی آزمائش نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی انسانیت نے اسپینش فلو اور طاعون جیسی کئی ابتلاوں کا سامنا کیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی بڑی آفت آئی ہے اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے انسان نے نت نئے طریقے وضع کیے اور ہمیشہ کے لئے کچھ سبق بھی سیکھے۔

موجودہ ابتلا بھی ایک ایسی ہی آزمائش ہے، کہنے والے اسے امریکہ کا حیاتیاتی ہتھیار بھی بتاتے ہیں جو اس نے چین کی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے بنایا تھا۔ اور کانسپیریسی تھیوری پر کام کرنے والے اسے۔ چین کا ہتھیار بھی کہتے ہیں جس کے ذریعے وہ کئی بڑی بین الاقوامی کمپنیوں کے دام گرانے اور کم قیمت پر انہیں خرید چکا ہے۔ مگر اس بحث سے قطعہ نظر کہ یہ آفت خود پیدا کردہ ہے یا سماوی ہے۔ کرونا وائرس نے ہمیشہ کے لئے انسانیت کو جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے۔

ہر طرف ایک خوف کی فضا ہے، پہلی مرتبہ تاریخ میں خانہ ّکعبہ کو از خود بند کر دیا گیا ہے۔ مساجد بند ہیں، مندر اور گرجا گھر بند ہیں۔ خانقاہیں اور لنگر خانے بند ہیں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے مذاہب اس صورتحال میں کوئی حل پیش کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ دانشور سائنس اور عقائد کو مدمقابل لے آئے ہیں اور سائنس کی برتری ثابت کر رہے ہیں حالانکہ مذاہب اور ِخاص کر اسلام ان حالات میں نہ تو اپنے عقیدت مندوں کو اکیلا چھوڑتا ہے اور نہ ہی سائنس سے متصادم ہے۔ اسلام نے علاج کی کوشش کو واجب قرار دیا ہے۔ طب نبوی سے خود کئی طرح کے علاج ثابت ہیں۔

لوگوں کا رویہ البتہ اس آفت کے حل میں رکاوٹ ضرور ہے۔ مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے یہ وہ خود سے قران و حدیث کو پڑھنے اور تفکر کرنے کے بجائے سنی سنائی باتوں پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ پاکستانیوں کا میل جول کا بنیادی شوق، دعوتوں اور تقریبات کا ذوق اور مشترکہ ِخاندانی نظام مل جل کر مسئلے کو اور گمبھیر بنا دیتے ہیں۔ یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ پاکستانی قانون کو چکمہ دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں، خطرہ مول لینے کو بہادری سے تعبیر کرتے ہیں اور اپنی جان کی پرواہ کرنے کو خود غرضی سمجھتے ہیں۔ یہی وہ عوامل ہیں جو اس وبا سے لڑنے میں رکاوٹ ہیں۔

حکومت کی طرف سے شادی گھروں پر پابندی لگائی گئی تو گھروں میں بڑی بڑی تقریبات منعقد کی جانے لگیں۔ برسیوں کی دعوتیں پھر بھی موصول ہوتی رہیں۔ یہاں تک کہ کرونا سے بچنے کے لئے اجتماعی دعاوں اور قربانیوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔ جامعہ الازہر کے فتوی کے باوجود رائے ونڈ کا تبلیغی اجتماع بھی موِخر نہیں کیا جا سکا۔ چھٹیاں دیں گیئں تو لوگوں نے سیاحت کی کوششیں شروع کر دیں۔

ہمارے یہاں مشترکہ خاندانی نظام رائج ہے جہاں دادا، دادی عموما اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کے ہمراہ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، گویا اکثر گھروں میں تین سے چار نسلیں ایک ساتھ رہتی ہیں۔ بزرگوں کو آتے جاتے سلام کرنا اور دعائیں لینا رواج کا حصہ ہے۔ اسی طرح بچوں کا بزگوں کے ساتھ تعلق بہت گہرا، اور قربت کا ہے۔ اس صورتحال میں بزرگوں کا خیال رکھنا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ علیحدگی بزرگوں کو ناگوار گزر سکتی ہے۔

اس سلسلے میں اسلامی احکامات ہماری بہت مدد کر سکتے ہیں۔ یہ سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ آپ کا احتیاط نہ کرنا نہ تو بہادری ہے اور نہ ہی ایمان کی مضبوطی بلکہ یہ اپنے پیاروں کی زندگی سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح احادیث ہیں کہ ”بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹوں کے درمیان نہ لاو“ اسی طرح حضرت عبد الرحمان بن العوف نے بیان کیا کہ طاعون کے متعلق استفسار پر آپ نے فرمایا کہ ”وبا کے علاقے میں مت جاؤ اور نہ ہی اس علاقے سے باہر جاؤ جہاں وبا پھیل چکی ہو“ (بخاری 5734 ) اس طرح کئی احادیث اور واقعات ہیں جن سے احتیاط کا درس ملتا ہے۔

ایک اور حدیث جو کے انس بن مالک کے ذریعے سے ہمارے پاس پہنچتی ہے اس کے مطابق ایک شخص نے سوال کیا کہ اسے اونٹنی باندھ لینی چاہیے یا اللہ پر توکل کرتے ہوئے اسے کھلا چھوڑ دینا چاہیے تو نبی پاک نے جواب دیا ”تم اونٹنی باندھو اور اللہ پر بھروسا رکھو“ (ترمذی 2517 ) ۔ یہ واقعہ توکل اور احتیاط کے مسائل کو کھل کر بیان کر دیتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کورونا وائرس کو ایک عالمی وبائی بیماری کا درجہ دے چکا ہے، اور وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں قومی سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں (جو اعلی سول اور فوجی قیادت پر مشتمل ایک ادارہ ہے ) کورونا وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لئے حکمت عملی بنائی جا چکی ہے۔ حکومت نے ملک میں ان سفارشات کے تحت ہنگامی صورتحال کا پہلے ہی اعلان کر دیا ہے۔ مزید اقدامات کے طور پر افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحد پر مکمل طور پر بند کر دی جانی چاہیے۔

بین الاقوامی روانگی اور آمد دونوں قسم کی پروازوں پر پابندی لگانا، ہر قسم کے اجتماعات کو بند کرنا، ملک بھر میں نجی محافل کی حوصلہ شکنی کرنا شامل ہونا چاہیے۔ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعہ فوری طور پر بڑے پیمانے پر آگاہی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو خود سے روک تھام، ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے اور عوامی اجتماعات سے بچنے کی ترغیب دی جائے، اس طرح بڑھتی ہوئی خوف و ہراس کی صورتحال کو دور کیا جاسکے۔

مذہبی اسکالرز عوام کو گھر میں نماز ادا کرنے کے لئے ترغیب دیں اور لوگ ایک دو ہفتوں تک مساجد میں آنے سے گریز کریں، بڑے پیمانے پر اجتماعات سے بچنے کے لئے جمعہ کی نماز کو عارضی طور پر معطل کرنے کی ضرورت ہے۔ ضروری کام کی جگہوں پر، صفائی کے عمل کے ساتھ ساتھ معاشرتی دوری کی بھی پیروی کی جانی چاہیے۔ ضرورت کی اشیا کو دہلیز پر پہنچانے کے لئے ملک بھر میں آن لائن دواسازی اور گروسری خدمات کو متحرک کیا جانا چاہیے۔

نہ صرف ہوائی اڈوں پر بلکہ ٹرانسپورٹ کے دیگر مقامات جیسے ریلوے اسٹیشنوں اور پبلک ٹرانسپورٹ جیسے بس اسٹیشنوں پر بھی سخت جانچ اور اسکریننگ کے طریقوں کو اپنانے کی ضرورت ہے، موجودہ معیار بیماری کی روک تھام کے لئے ناکافی ہے۔ طبی امداد کی دستیابی کے لئے ہنگامی فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ اسپتالوں کو با اختیار بنانے کی ضرورت ہے جب کہ قرنطین مریضوں کے لئے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

لوگوں کے پسندیدہ اداکاروں، مقبول ّکھلاڑیوں اور سماجی رابطے کے پر اثر لوگوں کو استعمال کر کے آگاہی مہم چلائی جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ مزدور اور دیہاڑی دارطبقے تک ضرورت کی اشیا پہچانے کے لئے ِخصوصی فنڈ کا قیام عمل میں لائے تاکہ لوگ عطیات دے سکیں۔ یہ ذاتی پسند اور ناپسند سے بالا ہو کر حکومت وقت کا ساتھ دینے کا وقت ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ اس نازک وقت میں نہ صرف اپوزیشن کے مشورے سے فیصلہ سازی کی جائے بلکہ معاشی ماہرین کی مدد بھی لی جائے۔ قومی ہم آہنگی پیدا کر کے اس آفت سے نمٹنا ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments