فواد چوہدری کا ٹویٹ اور پنجاب یونیورسٹی


ارادہ تو یہ باندھا تھا کہ اس وبائی صورتحال کی روک تھام میں حکومت سندھ کی قابل تقلید کارکردگی کا تذکرہ کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے تحرک اور فعالیت کو خراج تحسین پیش کیا جائے۔ تاہم وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے ایک ٹویٹ نے میری توجہ کا محور (اور ارادہ) بدل ڈالا۔ فی الحال مراد علی شاہ کی کارکردگی کو اگلے کالم تک موقوف رکھتے ہیں۔ وزیر موصوف کا کہنا ہے کہ ”کہاں ہیں پاکستانی جامعات؟ دنیا بھر میں جامعات حکومتوں کو اپنے ممتاز تحقیقی اور پالیسی مضامین کے ذریعے رہنمائی فراہم کر رہی ہیں۔ پاکستانی جامعات کیوں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں؟ “

باقی جامعات کی تو مجھے خبر نہیں، تاہم جامعہ پنجاب اس وبائی ( اور بحرانی) صورتحال میں ڈٹ کر کھڑی ہے۔ اپنا کردار نہایت خاموشی سے ادا کر رہی ہے اور قومی سطح پر اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ چند اقدامات تو میرے علم میں تھے، مزید آگہی اور تصدیق کے لئے رئیس الجامعہ ڈاکٹر نیاز احمد سے رجوع کیا۔ میرے مختصر سوال کے جواب میں انہوں جو تفصیلات بتائیں، انہیں سن کر خوشگوار حیرت کا ایک در کھل گیا۔ پتہ یہ چلا کہ جب سے حکومت کی طرف سے تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ (جو کافی کنفیوژن کے بعد سامنے آیا تھا) ہوا ہے، پنجاب یونیورسٹی ایک نئے محاذ پر مورچہ زن ہے۔

یوں سمجھیں کہ جامعہ نے ایک بڑے ہیلتھ سنٹر کا روپ دھار رکھا ہے۔ وائس چانسلر کی ہدایت پر جامعہ کے متعلقہ شعبہ جات سینی ٹائیزر تیار کر رہے ہیں۔ یہ سینی ٹائزر جامعہ کے اساتذہ اور دیگر عملے کے ساتھ ساتھ مختلف محکموں کو بھی سپلائی کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی نے اس مقصد کے لئے باقاعدہ لائسنس حاصل کیا ہے۔ تاکہ مزید تیزرفتاری کے ساتھ سینی ٹائیزر بنایا جاسکے۔ لٹروں کے حساب سے نہیں، بلکہ ٹنوں کی مقدار میں۔ شعبہ کیمیکل انجینئرنگ کے ڈائریکٹر پروفیسر عبد اللہ درانی نے بتایا کہ ابھی چند دن پہلے ان کے شعبہ کے انجینئروں نے محکمہ سوئی ناردن کو ایک ٹن سینی ٹائزر فراہم کیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ سب کچھ ایسے حالات میں کیا جا رہا ہے جب سینی ٹائزر نامی شے مارکیٹ سے غائب ہے اور جنس نایاب بن چکی ہے۔

دنیا بھر کے تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کرونا کے ہنگام، بنیادی اور نہایت ضروری تدبیر یہ ہے کہ شہریوں کے زیادہ سے زیادہ تشخیصی ٹیسٹ کیے جائیں۔ میڈیا کے توسط سے ہم اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ ہمارے ہاں اس ٹیسٹ کے لئے درکار تشخیصی کٹس (diagnostic kits) کا انتہائی فقدان ہے۔ چین سے اور کبھی دیگر ملکوں سے ہم یہ کٹس مانگتے پھرتے ہیں۔ نہایت خوش آئند امر (بلکہ باقاعدہ خوشخبری) یہ ہے کہ جامعہ پنجاب کے سنٹر فار ایکسی لینس ان مالیکیولر بیالوجی (CEMB) نے یہ کٹس بنانے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔

ڈاکٹر نیاز نے بتایا کہ باقاعدہ تجربات کے بعد ان تشخیصی کٹس کی استعداد کار کو اچھی طرح پرکھ لیا گیا ہے۔ انہیں گمان ہے کہ کٹس بنانے کی یہ صلاحیت پاکستان میں شاید کسی ایک آدھ ادارے کے پاس ہو، وگرنہ پنجاب یونیورسٹی پاکستان بھر میں واحد ادارہ ہے، جسے یہ صلاحیت حاصل ہو گئی ہے۔ تکنیکی طور پر ان کٹس کی تیاری کے لئے کچھ کیمیائی مادے (chemicals) درکار ہوتے ہیں۔ فی الحال یہ کیمیکلز پاکستان میں دستیاب نہیں۔ جامعہ پنجاب نے ان کے حصول کے لئے چین اور ہانگ کانگ کو آرڈر لکھ بھیجا ہے۔ جیسے ہی یہ کیمیکلز موصول ہوں گے، اندازہ ہے کہ جامعہ دس ہزار تشخیصی کٹس بنا ڈالے گی۔

ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے، پنجاب یونیورسٹی اپنا ذاتی تشخیصی مرکز (diagnostic centre) قا ئم کرنے کے آخری مرحلے میں ہے۔ آئندہ چند روز میں اس کا افتتاح کر دیا جائے گا۔ یہ مرکز، وزارت صحت کے ساتھ مل کر کام کرئے گا اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ریفر ہونے والے کیسوں کو تشخیصی سہولت فراہم کرئے گا۔ قابل ذکر ( بلکہ قابل افسوس ) امر یہ ہے کہ اس وقت یہ تشخیصی ٹیسٹ پرائیویٹ لیبارٹریوں میں سات سے دس ہزار روپے کے عوض کیا جا رہا ہے۔ جامعہ پنجاب کی لیبارٹری میں یہ ٹیسٹ سستے داموں ممکن ہو سکے گا۔

ایک عمدہ اقدام یہ ہے کہ کرونا کی صورتحال ہی کے تناظر میں پنجاب یونیورسٹی نے ایک ٹیلی میڈیسن اور ڈرگ انفارمیشن سنٹر قائم کر رکھا ہے۔ ہفتہ عشرہ پہلے گورنر پنجاب نے اس کا باقاعدہ افتتاح کیا تھا۔ کم وبیش 150 ڈاکٹروں پر مشتمل عملہ اس مرکز کے ذریعے عوام الناس کو آن۔ لائن رہنمائی فراہم کر رہا ہے۔ عملہ میں شامل 14 ڈاکٹر وں کا تعلق براہ راست جامعہ پنجاب اور اس میں قائم ہیلتھ سنٹر سے ہے، جبکہ دیگر ڈاکٹرز پنجاب حکومت کے ماتحت اداروں سے وابستہ ہیں۔

تحقیقی حوالے سے ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ وائس چانسلر نے پنجا ب یونیورسٹی میں چار شعبہ جات پر مشتمل ایک تحقیقی گروپ (research group) قائم کر دیا ہے۔ اس گروپ کو کرونا وائرس کی ویکسین بنانے کا ٹاسک سونپا گیا ہے۔ میں نے سوال کیا کہ کرونا کی ویکسین بنانا تو ایک بہت بڑا کام اور ٹاسک ہے۔ ڈاکٹر نیازکا جواب تھا کہ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ دنیا کا کوئی ملک ابھی تک یہ ویکسین بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ تاہم چھ سات ماہ کی تحقیق کے بعد، ہم مثبت نتائج کی توقع کر رہے ہیں۔ (اللہ کرے کہ اس حوالے سے کوئی اچھی خبر سننے کو ملے)۔

داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ہنگامی صوتحال سے نمٹنے کے لئے، یعنی حفظ ماتقدم کے طور پر جامعہ نے دو آئسولیشن سنٹر تیار کر رکھے ہیں۔ ڈاکٹر نیاز کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑنے پر وائس چانسلر ہاؤس سمیت، جامعہ میں قائم گھر اور شعبہ جات کی عمارتیں بھی حاضر ہیں۔ ( اللہ کرئے کہ یہ نوبت کبھی نہ آئے ) ۔ بات چل نکلی ہے تو یہ ذکر بھی کیے دیتی ہوں کہ تعلیمی اداروں کی بندش کے بعد، جامعہ کے بیشتر شعبہ جات میں آن۔لائن کلاسز جاری ہیں۔ ان کلاسوں میں طالبعلموں کی حاضری 70 سے 80 فیصد ہے۔ ڈاکٹر نیاز کی خصوصی توجہ اور ہدایات کے باعث، تمام اساتذہ، عملے اور پنشنروں کو اس مہینہ کے اختتام سے ہفتہ بھر پہلے تنخواہوں کی ادائیگی کر دی گئی۔ حکمت عملی کے تحت ڈیلی ویجرز کو بھی کسی نہ کسی طرح مشغول (engage) رکھا گیا ہے، تاکہ سب کی روزی روٹی چلتی رہے۔ یہ بھی سن لیجیے کہ وائس چانسلر گھر بیٹھے اساتذہ کو آن۔ لائن کلاسوں کے ساتھ ساتھ تحقیقی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کے لئے تحقیقی مضامین کی اشاعت پر حوصلہ افزائی کی غرض ملنے والے اعزازیے (research incentive) کی رقم میں 50 فیصد سے زائد اضافے کا اعلان کرنے والے ہیں۔

رئیس الجامعہ ڈاکٹر نیاز احمد سے ہونے والی گفتگو تو یہاں پہنچ کر ختم ہوتی ہے۔ تاہم اس سارے قصے میں کچھ نکات غور طلب ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ قلم اور کیمرہ کی مدد سے ہم اداروں کی کارکردگی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا تے ہیں، تو ان کے مثبت اقدامات کو بھی اسی شد و مد سے سراہنا چاہیے۔ اداروں اور شخصیات کی اچھی کار گزاری کو خراج تحسین پیش کر کے، عوام الناس اور حکومتی ایوانوں تک پہنچانا ہمارا فرض سہی، تاہم اصل ذمہ داری برسرا قتدار حکومتوں اور صاحبان ارباب و اختیار پر عائد ہوتی ہے۔ لازم ہے کہ اچھے کاموں پر ادارے، اس کے سربراہ اور ٹیم کو تھپکی دی جائے۔ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ فقط زبانی کلامی نہیں، عملی طور پر بھی۔

پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کسی حکومتی یا سرکاری ہدایات کے بغیر ان کاموں کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ یہ تمام اقدامات (اور اضافی کام) یونیورسٹی اپنے محدود بجٹ اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کر رہی ہے۔ اس کام کو سراہا جانا چاہیے۔ ممکن ہے کہ کچھ اور یونیورسٹیاں بھی ایسے اچھے اقدمات کر رہی ہوں۔ اگر ایسا ہے تو ان کی بھی تعریف ہونی چاہیے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فواد چوہدری کا یہ سوال اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کہ کہاں ہیں پاکستانی جامعات؟

لیکن اس وقت اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ کہاں ہیں وزارت تعلیم، وفاقی اور صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمیشنز؟ کیا ان کی طرف سے اس وبائی صورتحال اور جامعات کے کردار کے ضمن میں، کوئی مشترکہ حکمت عملی اور قومی پالیسی سامنے آئی ہے؟ وزیر صاحب نے بجا فرمایا کہ ایسی ہنگامی صورتحال میں دیگر ممالک کے اعلی تعلیمی ادارے اپنی حکومتوں کا ہاتھ بٹاتے اور انہیں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ تاہم سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایسا ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں حکومتیں قومی سطح پر قائم پالیسی ساز مراکز اور کمیٹیوں میں جامعات کو نمائندگی دیتی ہیں۔ تعلیم کے لئے بھاری بھرکم بجٹ مختص کرتی ہیں اور تعلیمی اداروں کو وسائل فراہم کرتی ہیں۔

ہمارے ہاں صورت احوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کیجانب سے کی جانے والی زبردست بجٹ کٹوتی کے بعد جامعات جاں بلب ہیں۔ اپنے اساتذہ اور دیگر عملے کی تنخواہوں کی ادائیگی کی دوڑ دھوپ میں ہلکان ہو رہی ہیں۔ دیوالیہ ہونے کے دہانے ہر کھڑی ہیں۔ بنکوں سے قرضے مانگتی پھر تی ہیں۔ اپنے وجود کو قائم رکھنے کی جنگ لڑنے میں مصروف جامعات سے بڑی بڑی امیدیں رکھنا قابل جواز نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments