عمران اور عوام: کون کس کے قابل نہیں؟


مرزا عباس بیگ

\"abbas-baig\"ان سب کو شاباش جنہوں نے عمران خان کے اسلوبِ سیاست کو ایک بار نہیں بلکہ دو بار ناکام کرنے کے لیے سوچا، لکھا اور کہا۔ شاباش ان کو بھی جو خلوصِ نیت سے سمجھ رہے تھے کہ عمرانی اسلوبِ سیاست درست ہے اور اس کی کامیابی کی صورت میں پاکستان کے کرپشن پھیلاؤ ایسے مسائل جلد از جلد حل ہو جائیں گے۔

اسٹیبلشمنٹ کے اس حصہ کا بھی کردار مثالی رہا جو باوجود یہ کہ بہت سی ترغیبات اور کچھ غیر جمہوری عناصر کی پکار کے، میرے عزیز ہموطنوں کے الفاظ اور قومی غم میں نڈھال لہجے میں مخاطب ہونے سے گریزاں رہا۔ تاہم اس کے دوسرے حصے سے تو اب اظہارِ ہمدردی ہی کیا جا سکتا ہے۔
گذشتہ دنوں میں میڈیائی تقسیم بھی دیدنی تھی۔ ایک طرف جمہوری عمل کے تسلسل کی دہائی دینے والے اور جمہوریت کو پاکستان کے لیے ناگزیر سمجھنے والے اور دوسری طرف جمہوریت کو تبرا کرنے والے اور جمہوریت پسندوں کو للکارنے والے اور انہیں مختلف القابات سے پکارنے والے تھے، بہرحال اب ہر دو قسم نے عوام سے اپنی جزا و سزا پائی ہے۔

عمران نیازی بھی بہت سارے قابلِ تعریف محبِ وطنوں کی طرح ایک شہری تھا لیکن عوام کی محبت نے اسے عمران خان بنا دیا اور وہ خدمتِ خلق کے مثالی کارنامے سرانجام دے سکا جنہوں نے بعدازاں اس کے وادی سیاست میں داخلہ کو آسان بنا دیا۔

اب بے شک اسلام آباد کو بند کرنے کے پروگرام میں ناکامی کو یومِ تشکر کے کمبل کے نیچے چھپایا جائے یا شرمندگی کے زخموں کو چھپانے کے لئے رنگ برنگے بہانے تراشے جائیں۔ اصل کہانی یہ ہے کہ عمران خان نہیں بلکہ عمرانی اسلوبِ سیاست ناکام ہوا ہے، کیونکہ آج کے پاکستان میں یہ چیز ہی ناکام ہونے والی تھی۔ اس کہانی کی وضاحت کے لئے کالم نہیں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں تاکہ نوجوان نسل آئندہ پھر کسی ایسے بکھیڑے میں پڑنے کی بجائے، وقت کی آواز پر لبیک کہے اور اپنی نایاب اور کمیاب توانائیاں ملک کے لیے زیادہ سے زیادہ استفاده حاصل کرنے کے لئے لگائے۔
عمران خان کی سیاسی جدوجہد کے یقیناً کچھ مثبت پہلو بھی ہیں لیکن اس کے طرزِ سیاست کی ناکامی کی جہات میں سے ایک یہ ہے کہ اب اس فکر کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے عوام اس قابل ہی نہیں کہ انہیں عمران خان جیسا اچھا لیڈر نصیب ہو۔ ظاہر ہے جب شخصیت پرستی کے طلسم میں گرفتار افراد اسے ایک ماورائی تخلیق کے درجے پر بٹھا دیں گے تو وہ اس قسم کے ناقص پروپیگنڈے کا شکار کیسے نہ ہوں گے۔ عمران خان کو ایک فرشتہ کا روپ دینے میں ہماری تہذیبی، مذہبی اور تاریخی روایات اور پاکستان کے معروضی حالات کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ اس بات کی وضاحت کسی آئندہ کالم میں آپ سے ملاقات پر ہوگی۔

اس بات میں تو کوئی شک نہیں عمران خان جیسی حکمتِ عملی رکھنے والا لیڈر پاکستانی عوام کے قابل نہیں لیکن یہ کہنا کہ پاکستانی عوام کسی اچھے لیڈر کے قابل نہیں، عوام کی سراسر توہین ہے اور حقیقت سے دور ہے۔

کاش! قیامِ پاکستان کے بعد بھی عوام کو اپنے لیڈر چننے کا موقعہ دیا جاتا یا جسے جسے عوام نے اپنا لیڈر بنانے کی کوشش کی انہیں زندہ رہنے دیا جاتا اور انہیں قومی مفاد کی بنیاد پر پالیسی بنانے اور چلانے دی جاتی تو نہ آج عمران جیسے کو اپنا مسیحا بنانے میں وقت اور ذرائع ضائع ہوتے اور شاید نہ نوازشریف اور آصف زرداری جیسے قائدین جمہوری عمل کے تسلسل کا صدقہ کھاتے بلکہ اپنی نااہلی اور بدعنوانی کی وجہ سے کب کے عوامی غیض و غضب کا نشانہ بن کر ماضی کا ایک قصہ پارینہ بن چکے ہوتے۔

پاکستان میں جمہوری عمل کے جاری نہ رہنے کی کہانی بہت دردناک، دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ اہل فکر کو اس کہانی کی گتھیاں کھول کھول کر نوجوان نسل کے سامنے رکھنی چاہئے تاکہ وہ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کے لیے اپنی راہیں متعین کر سکیں۔

چونکہ ملک میں بار بار کے آمرانہ تسلط اور اس کے دور رس اثرات کی وجہ سے پاکستانی عوام کو وہ قیادت نصیب نہیں ہو سکی جس کی وہ مستحق ہے۔ تاہم وقت کا تقاضا ہے کہ ہمیں پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت کو امرِ حقیقت نہیں بلکہ ایک امرِ واقعہ کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔ انہیں دن رات محض گالی گلوچ کی بجائے عوام کے سیاسی شعور کو بلند کرنا ہوگا، جمہوری کے تسلسل اور اسے زیادہ موثر بنانے میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ اگر حکمرانوں کو گالیاں دینا کارگر ہوتا تو گذشتہ چھ ماہ میں ہوا کے دوش پر اڑائی جانے والی گالیوں کی تعداد ہی اتنی تھی کہ عمران خان کے علاوہ ساری سیاسی قیادت اپنی آل اولاد سمیت سمندرِ دشنام میں غرقاب ہو چکی ہوتی۔

پاکستان کے پیچیدہ اور بہت الجھے ہوئے مسائل کو سلجھانے کے لیے منطق سے عاری، جذبات میں لتھڑی اور اجتماعی بصیرت سے محروم حکمت عملی کی ضرورت نہیں اور نہ کسی فرد کو مسیحا بنا لینے یا کسی مسیحا کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کی ضرورت ہے۔

اچھی قیادت کے ظہور کے لیے اور پاکستانی عوام کو کسی اچھے لیڈر کے قابل یا مستحق نہ سمجھے جانے کے پروپیگنڈہ کو خاک میں ملانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں عوامی راج کی راہ میں رکاوٹوں کو سمجھا جائے، روحِ عصر کو جانا جائے،  جمہوری جدوجہد کے امور سے شناسائی حاصل کی جائے،  ایشوز کی سیاست کو رواج دیا جائے اور جمہوری عمل کے تسلسل سے کم پر کسی بھی حال میں سمجھوتہ نہ کیا جائے تو پاکستان کا منہ چڑاتے مسائل بشمول بھوک، بیماری، کرپشن اور دہشتگردی وغیرہ پھسلنا شروع ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments