نیب احتساب نہیں کر رہا، احتساب کو بدنام کر رہا ہے


احتساب ہونا چاہیے۔ سب کا بلاتفریق اور بے رحم۔ اس پر پوری قوم کا اتفاق ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ گزشتہ سترہ مہینوں سے احتساب کا قومی ادارہ قومی احتساب بیورو (نیب ) اور حکومت احتساب کے نام پر جو کچھ کر رہی ہے کیا وہ احتساب ہے یا ذاتی انتقام؟ دوسرا احتساب کا مطلب یہ ہے کہ جس نے بھی قومی دولت لوٹی ہے، اس سے مال برآمد کرکے قومی خزانے میں جمع کیا جائے؟ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو جب پاناما مقدمہ میں عدالت عظمیٰ نے نا اہل قرار دے دیا اور نیب کو حکم دیا کہ ان کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا جائے تو نیب نے ریفرنس دائر کردی۔

احتساب عدالت اسلام آباد نے ان کو قصو روار ٹھہرایا۔ عدالت نے حکم دیا کہ ان سے مال مسروقہ برآمد کرکے قومی خزانہ میں جمع کیا جائے۔ میاں نواز شریف اس وقت علاج کے لئے ملک سے باہر ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا نیب قوم کو بتاسکتی ہے کہ میاں نواز شریف سے انھوں نے کتنے پیسے برآمد کرکے قومی خزانے میں جمع کیے ہیں؟ ابھی تک جو مصدقہ اطلاعات ہیں وہ یہ ہیں کہ نیب ایک پائی بھی ان سے وصول کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

لیکن اس سے بھی اہم سوال کہ اس دوران میاں نواز شریف کی حفاظت پر قومی خزانے سے جو کچھ خرچ کیا گیا اس کا حساب کیا ہے؟ کیا نیب بتا سکتی ہے کہ انھوں نے میاں نواز شریف کی حفاظت پر کتنا پیسہ خرچ کیا؟ یقینا اس سوال کا جواب یہی ہوگا کہ نیب نے کھایا، پیا کچھ نہیں اور گلاس تھوڑا بارہ آنے کا۔ بلکہ یوں سمجھ لیں کہ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔ اگر ہم پیسوں کا حساب کتاب چھوڑ بھی دیں اور اخلاقی پہلو کا جائزہ لیں تو نیب کا اس بات پر محاسبہ کرنا ضرور ی بنتا ہے کہ جب میاں نواز شریف کے خلاف ناکافی ثبوت تھے تو ان کو اپنی بیمار اہلیہ کی تیماں داری سے بلا کر جیل میں کیوں ڈالا؟

اگر تمھاری اہلیت نہیں کہ جس نے قومی خزانے کو لوٹا ہے اس سے برآمدگی کی، تو کیوں ان کی حفاظت پر مزید قوم کے دولت کو برباد کیا؟ میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کو بھی قومی خزانے کو لوٹنے کے الزام میں جیل جانا پڑا۔ ضروری ہے کہ نیب جواب دیں کہ ان سے کتنا لوٹا ہوا دولت وصول کرکے انھوں نے قومی خزانے میں جمع کیا؟ یہ بھی حساب ہونا چاہیے کہ دوران اسیری ان کی حفاظت پر نیب اور دیگر اداروں کا کتنا خرچہ آیا؟ یہ موازنہ بھی ضروری ہے کہ ان سے برآمدگی کتنی ہو ئی ہے اور ان کی حفاظت پر خرچہ کتنا آیا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ نیب نے قومی خزانے کو فائدہ دیا ہے یا مزید نقصان پہنچایا ہے۔

پیپلز پارٹی کے سربراہ اور سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی اس دوران پابند سلاسل کر دیا گیا۔ ان پر بھی قومی خزانے کو لوٹنے کا الزام تھا۔ وہ بھی مہینوں جیل میں رہے۔ ان کی بہن فریال تالپور کو بھی قومی خزانہ لوٹنے کے الزام میں گر فتار کیا گیا۔ دونوں چند مہینے نیب کا مہمان بن کر آزاد ہو چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نیب نے ان سے کتنی برآمدگی کی؟ تاحال صورت حال یہ ہے کہ ان دونوں سے کوئی بھی برآمدگی نہیں ہوئی۔ لیکن یہ سوال نیب سے ضرور پوچھنا چاہیے کہ دوران اسیری ان دونوں کی حفاظت پر آپ نے قومی خزانے سے کتنا پیسہ خرچ کیا؟

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو بھی نیب نے دھر لیا تھا۔ ان پر بھی قومی خزانے کو لوٹنے کے الزامات تھے۔ وہ بھی ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔ نیب سے سوال تو بنتا ہے کہ انھوں ان سے کتنا مال وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کیا ہے؟ دوران اسیری ان کی حفاظت پر نیب اور دوسرے اداروں نے جو خرچہ کیا ہے اس کا حساب بھی قوم کے سامنے رکھنا چاہیے تاکہ معلوم ہو کہ نیب قومی خزانے کو بھرنے کی کوشش کررہا ہے یا خالی کرنے میں مصروف ہے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وفاقی وزیر احسن اقبال بھی ان سترہ مہینوں میں گرفتار کیے گئے۔ ان پر بھی قومی خزانے کو لوٹنے کا الزام تھا۔ یہ دونوں بھی کئی مہینوں تک جیل میں رہے اور اب ضمانت پر رہا ہے۔ دونوں کو گرفتار اس لئے کیا گیا تھا کہ جو کچھ انھوں نے لوٹا ہے اس کو برآمد کرکے قومی خزانے میں جمع کرنا ہے، لیکن نیب ابھی تک ان دونوں سے ایک کوڑی بھی برآمد کرنے میں ناکام ہے۔ اگر نیب وصولی نہیں کرسکتا تو پھر یہ سوال ضروربنتا ہے کہ وہ یہ سب کچھ کس کے لئے اور کیوں کر رہے ہیں؟

اس لئے کہ ان دونوں کی گرفتاری کے بعد نیب نے قومی خزانے سے خرچہ ہی کیا ہے برآمدگی کچھ بھی نہیں۔ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کو بھی نیب کا مہمان بننے کا شرف حاصل ہوا۔ دونوں ضمانت پر رہا ہے۔ حمزہ شہباز بھی گرفتار ہوئے۔ نیب کو چاہیے کہ وہ ان تمام گرفتار شدگان سے وصولی اور ان کی حفاظت پر کیے گئے خرچ کا حساب قوم کے سامنے رکھیں تاکہ قوم جان سکے کہ قومی احتساب کا یہ ادارہ ملکی خزانے کو بھرنے کا سبب بن رہا ہے یا مزید خالی کرنے کا؟

روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمان بھی ان دنوں نیب کی مہمان نواز ی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ان پر بھی عشروں پہلے زمین کی غیر قانونی انتقال کا الزام ہے۔ میر شکیل الرحمان پر جو الزام ہے وہ اس کا حساب دیں، بلکہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان کا محاسبہ کریں۔ اگر وہ قصور وار ہے تو سزا دی جائے۔ اگر بے گناہ ہے تو ان کو باعزت بری کیا جائے۔ عدالتی جنگ وہ لڑتے رہیں گے۔ جس بھونڈے انداز سے ان کو گرفتار کیا گیا ہے وہ ہرگز قابل قبول نہیں۔

ہتک آمیزطریقے سے گرفتاری کسی کی بھی ہو وہ جائز نہیں۔ وفاقی مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ میر شکیل الرحمان کی گرفتاری سیٹھ کی گرفتاری ہے، اس کا میڈیا سے کو ئی تعلق نہیں۔ اگر اس منطق کو مان لیا جائے تو پھر سوال بنتا ہے کہ سزا جیو اور روزنامہ جنگ کو کیوں دی جاری ہے؟ آپ سیٹھ کا احتساب کریں، لیکن آپ نے جیوکو غیر اعلانیہ طور پربند کیوں کیا؟ آپ نے جیو کو کیوں پیچھے نمبروں پر دھکیل دیا؟ آپ نے کیوں جنگ اور جیوگروپ کے اشتہارات بند کیے؟

گزشتہ سترہ مہینوں سے حکومت اور نیب نے احتساب کے نام پر حماقتوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے ضروری ہے کہ ملک کی اعلی عدلیہ اس پر از خود نوٹس لیں۔ دونوں سے جواب طلب کریں کہ بتاؤ برآمدگی کتنی ہوئی ہے اور خرچہ کتنا ہے؟ اگر خرچہ وصولی سے زیادہ ہے تو پھر ان دونوں بے لگام گھوڑوں کو لگام دیں، اس لئے کہ حکومت اور نیب دونوں مل کر قومی اداروں کی تذلیل اور احتساب کوبدنام کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments