وبائی تنہائی میں مبتلا ایک دن کا احوال


وہ دن اور تھے جو گھڑی کے ہر گزرتے منٹ کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے علی الصبح شروع ہو جاتے اور سورج ڈوبنے تک بغیر کوئی مہلت دیے یوں بھاگتے کہ جیسے شام سے پہلے کہیں اور پہنچنا ہو۔ یہ وبائی تنہائی کے دن ہیں۔ عام تنہائی اور وبا کے دنوں کی تنہائی میں بھی اچھا خاصا فرق ہوتا ہے۔ عام دنوں کی تنہائی کو آپ اکیلے محسوس کرتے ہیں جبکہ وبا کی تنہائی میں آپ کی تنہائی ہر کوئی محسوس کرسکتا ہے۔

بھاگتی، دوڑتی زندگیوں کا انفرادی پہیہ جام ہو جاتا ہے اور تمام گاڑیاں ایک ہی ٹریک پر آجاتی ہیں جنہیں ایک ہی میکانزم کے تحت چلانا پڑتا ہے۔ نہ آپ اپنی مرضی سے رستہ بدل سکتے ہیں اور نہ ہی قافلے سے ہٹ کر کچھ کرسکتے ہیں۔ طے کردہ نظام پر کاربند رہنا ضروری ہو جاتا ہے ورنہ حادثے کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔

یہ انہی دنوں کا قصہ ہے۔ سٹور روم سے روز ہی کسی نہ کسی شور کی آواز پر آنکھ کھل جاتی ہے کیونکہ وبائی تنہائی میں مبتلا ہوئے گھر والوں کا ماننا ہے کہ خالی سے دنوں میں فرصت بھرنے کے لیے وہاں سے کچھ نہ کچھ ضرور مل جاتا ہے۔

وبا کے خوف نے سماجی نظام کے ساتھ ساتھ عام دنوں کی گھڑی کو بھی قفل لگا دیا ہے لہذا یہاں کڑکتی صبح کے نو بجے بھی کہیں جانے کی جلدی نہیں۔ ناشتہ آج بھی وقت پر تیار ہے لیکن بائیومیٹرک کے ڈر سے نوالوں کو وقت سے پہلے ٹھونسنے کی عادت کے باعث ابھی تک فراغت سے کھانے کی زحمت نہیں ہو پارہی۔

صحن میں کھڑے ہوکر گھر کی صورتحال پر ایک نظر دوڑانے سے پتا چلتا ہے کہ گھر سماجی بناوٹوں سے کٹ کر گھر والوں سے جڑ گیا ہے۔ یہ وبا دفتروں کی فائلیں، بچوں کے سکول کی گھنٹیاں، دودھ والے کی دستک، مشینوں کی گڑاگڑاہٹ، موٹر سائیکل کا دھواں، گھر بیٹھی اکیلی ماں کا انتظار، ان چاہے مہمان اور خالی کمروں کا سونا پن تک نگل گئی ہے اور ابھی بیسیوں مزید چیزوں کو فنا کی طرف لے جا رہی ہے یعنی ہوسکتا ہے کہ ہم عام دنوں کا نقشہ ہی بھول جائیں۔

11 بجے کے بعد اب یہ سوچنے کا بھی کافی وقت ہے کہ طبیعت کے 12 بجنے سے پہلے کیا، کیا جائے۔ پھر اچانک سے خیال آیا کہ یہ کمرے کی بکھری کتابوں کو اچھے سے سمیٹنے کا وقت ہے۔ یہ وہی کتابیں ہیں جنہیں سمیٹنے میں کئی مہینے لگے اور ہر اتوار ان کتابوں سے کیے گئے وعدے کو دوستوں کی محفلوں پر قربان کیا گیا۔ آج ہر کتاب کو مکمل سلیقے سے شیلف پر سجاتے ہوئے گویا محسوس ہو رہا ہے جیسے انہیں سجایا نہیں منایا جا رہا ہے لیکن اس کا خیر ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ انہیں یوں ترتیب میں لاتے، لاتے گھڑیال پر 12 بجنے کی آواز خاموشی سے گزر گئی۔

عام تنہائی میں انفرادی یکسوئی کی نسبت وبائی تنہائی میں کثیرالمقاصد یکسوئیاں جنم لیتی ہے اور گھر کے ہر ایک کونے کی آواز آپ تک پہنچ رہی ہوتی ہے لہذا یہاں بیسن پر ہاتھ دھوتے، دیوار سے لگے گملوں اور کملائے ہوئے پھولوں کا نوحہ بھی سنا جاسکتا ہے۔ یہ قدرتی تھراپی کا وقت ہے۔ سو اب گملوں میں سوکھتے، اجڑتے پھولوں پر بھی وقت صرف کیا جائے گا تاکہ بہار کے کچھ رنگوں کو بچایا جا سکے۔

اس دوران مجھے آسمان سے پرندے دیر تلک ان پتیوں اور کونپلوں کے ناز نخرے اٹھاتے دیکھ رہے ہیں اور آج ایک جھنڈ کی صورت میں کہیں دور کوچ کرنے کی بجائے گھروں کے نزدیک ہی طائرانہ پریڈ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ جیسے حضرت انساں کے قید ہونے کی خوشی میں فتح کا جشن منا رہے ہیں اور اپنی شہری رہائشوں پر واپس لوٹ آئے ہیں جو کبھی شاید وہ چھوڑ چکے تھے۔

یہاں تقریبًا دن کی تمام تر مصروفیات کا اختتام ہے۔ ہے تو نہیں لیکن یہی انجام ہے۔ یہ دن کی سفیدی کے لوٹ جانے کا وقت ہے۔ صحن سے اب کمروں میں جانے کا وقت ہے اور رات ہوتے ہی بغیر شہر دیکھے سو جانے کا وقت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments