معذور اعظم لیڈر کیسے بنا؟


ہر بات شروع اور اس کا اختتام بائیس سال جدوجہد سے کرتا ہے۔ جناب نے جب بھی بات کی 22 سال جدوجہد میں تعریفیں اور مثالیں مغرب کی اور گالیاں مشرق کو دیں۔ پھر سونے پہ سہاگہ یہ کہ نامور ریٹائرڈ جسٹں جیسا کہ جسٹس وجیہ الدین اور پائے کے سیاستدان جیسا کہ جناب شاہ محمود قریشی اور دیگر نے بھی نیازی صاحب کو خان بنانے میں کردار ادا کیا۔ اور ہم عوام ہر وقت یہ سوچنے پہ مجبور ہوتے رہے کہ اتنے بلا کے پڑھے لکھے لوگ عمران نیازی کو سپورٹ کر رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ واقعی یہ بندہ کسی خرابی کو ٹھیک کرنے نکلا ہے جس کی فی الحال ہمیں سمجھ نہیں۔

اور معاملہ یہاں ٹھپ نہیں ہوتا بلکہ آگے نامور تجزیہ نگار جیسا کہ حسن نثار، جاوید چودھری، حامد میر، رٶف کلاسرا اور کامران خان وغیرہ بھی اپنے پوری قابلیت و قوت کے جوہر دکھاتے رہے جناب کا امیج بنانے میں۔ جنہوں نے بہت کلیدی کردار ادا کیا عوام کے دلوں میں عمران احمد نیازی کا مثبت اور صاف شفاف کردار بنا کر پیش کرنے میں۔ بھولے بھالے عوام جو ہمیشہ محمد علی جناح اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے رہنما چاھتے ہیں، یہ سب دیکھ کر لٹو ہوتے چلے گئے اور عمران احمد نیازی کو مسیحا سمجھ بیٹھے اور انہوں نے سمجھنا بھی تھا کیوں کہ میڈیا سمیت اتنے لوگ غلط کیسے ہو سکتے تھے۔

اور ان سب خوبیوں اور قابلیتوں کو اسٹیبلشمینٹ کا تڑکا لگا دیا گیا پھر جو جناب کو وزیراعظم بننے سے کوئی مائی کا لعل کیسے روک سکتا تھا۔ کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران نیازی کے سارے حریفوں کو دیوار سے لگانا شروع کردیا جس سے اس کے سارے رستے ہموار ہوتے چلے گئے۔ کچھ لوگ رضاکارانہ طور عمران خان کی پارٹی میں شامل ہوگئے اور کچھ کو مجبوراً شامل ہونا پڑا۔ بہرحال جیسے تیسے نیازی صاحب کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم بنا دیا گیا۔

اب پنڈورا باکس کے کھلنے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس نے عوام اور میڈیا کے فاقے شروع کر دییے۔ جس سیاسی شخصیت سے تھوڑا بھی خوف نظر آتا اس کے خلاف محاذ کھول دیا جاتا اور جو میڈیا پرسن زبان درازی کرتا اس کا پروگرام بند یا اس کو نوکری سے فارغ کردیا جاتا اور بعض دفعہ تو یہ ہوا کہ نیوز چینل ہی بند کردیے گئے۔

بڑھتی مہنگائی، گرتے گھر، اجڑتے کاروبار اور فیکٹریوں کو لگتے تالوں نے عوام کو رونے پیٹنے اور بددعاٶں پہ مجبور کردیا۔ لیکن خان صاحب تیار ہی نہیں گھبرانے کو۔ آٹا چور چینی چور بھی فرار ہو گئے اور خان صاحب قوم کو سمجھاتے رہ گئے کہ گھبرانا نہیں۔ مجبور عوام آخر کر بھی کیا سکتے تھے۔

ایسے میں کرونا وائرس نامی آفت نے آکر مظلوم پاکستان کا دروازہ کھٹکھٹایا جسے بڑی بے رحمی سے عمران احمد نیازی نے عوام کی گود تک لا کھڑا کیا اور بڑے احترام سے وہ سارے انتظامات کییے جس سے یہ وائرس پھیل سکتا تھا۔ اور ایک خطاب میں کہا کہ کرونا کی وجہ سے معیشت کو بہت نقصان ہوگا اور آمریکہ اور آئی ایم ایف سے گزارش ہے کہ ہمارے قرضے معاف کر دیے جائیں جبکہ معیشت پوری دنیا کی ڈوب رہی اور پوری دنیا معیشت کو بچانے کی بجائے کرونا جیسی خطرناک وبا سے نمٹنے میں لگی ہے۔ پھر کچھ دن بعد جب حالات اور بگڑے تو جناب میں غریبوں مسکینوں اور مزدورں کا درد جاگ اٹھا اور فرمایا کہ لاک ڈاٶن نہیں کر سکتے کیوں کہ کرونا سے لوگ کم مریں گے اور 15 دن لاک ڈاٶن کی وجہ سے مزدور طبقہ فاقوں سے مر جائے گا۔ لہذا وہ اس لاک ڈاٶن کی اجازت نہیں دیں گے۔

ان کے سامنے اٹلی جیسے مضبوط معاشی ملک کی مثال موجود تھی جس کی حالت کرونا کی وجہ سے بگڑ چکی تھی جس کی وجہ صرف وقت پہ لاک ڈاٶن نہ کرنا تھا لیکن پھر بھی ہمارے وزیر اعظم نے ان سے مثال لینے کی کوشش تک نہ کی۔ اور ایسے حالات میں جیسا کہ سندھ کے وزیراعلی جناب مراد علی شاہ جو پہلے ہی پوری دنیا میں مقبول ہو چکے تھے کرونا کے خلاف جنگ میں پہلی صف میں کھڑے ہو کر لڑنے کی وجہ سے، مجاہدانہ فیصلہ کیا اور تن تنہا صوبہ سندھ کو لاک ڈاٶن کرنے کی ہدایات جاری کر دی۔ ان کے اس اقدام کو پورے ملک کے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے سراہا اور اس کا فائدہ بھی ہوتا نظر آیا۔ اور انہوں نے اس بات کا اعلان بھی کیا کہ 22 لاکھ مزدوروں کو راشن بھی مہیا کیا جائے گا۔ ان کی پیروی کرتے ہوئے صوبہ پنجاب نے بھی لاک ڈاٶن کا اعلان کر دیا جس سے وزیراعظم کے بیانیے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا۔ جو کہ ایک اچھا عمل تھا۔

اب اس بات کی طرف آتے ہیں کہ آخر کیوں وزیراعظم صاحب نے لاک ڈاٶن سے انکار کیا۔ آخر کیوں انہوں نے وبا کو پاکستان میں پھیلنے سے روکنے کے خاطرخواہ انتظامات نہ کییے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ جناب کو مشہور ہونے کا اور اپنی فلاسفیاں جھاڑنے کا بہت شوق ہے۔ اور ان کو پتا تھا کہ کرونا وائرس ایک بین الاقوامی وبا اختیار کر چکا ہے اور وہ اس وبا کو پاکستان میں پھیلنے کی وجہ سے ساری دنیا کی نظروں کا مرکز بن سکتا ہے اور ہر انٹرنیشنل ٹی وی پہ اس کا انٹرویو چلے گا اور وہ دنیا میں چھایا رہے گا اور اس طرح اس کی مقبولیت میں اور اضافہ ہوگا۔ یہ ان کی ذہنی کیفیت ہے جو کہ بہت ہی خطرناک حد تک جا پہنچی ہے۔ اور اس لیے جناب کو تنقید بالکل پسند نہیں جس وجہ سے وہ اکثر میڈیا سے ناخوش اور میڈیا کو دبانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ اللہ پاک اس ملک و قوم کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments