کورونا اور اجتماعی نفسیاتی تدابیر


دنیا کے اجتماعی شعور پہ گزشتہ تین ماہ سے جو چیز ایک آسیب کی طرح قابض ہے وہ میکانکی انداز میں پھیلتے جانے والا مائیکرو وائرس کورونا ہے جسے خود بھی اندازہ نہیں ہو گا کہ اتنے مختصر عرصے میں جتنا اثر اس نے دنیا پہ ڈالا ہے اتنا تو کبھی کسی عالمی سازش کے لئے بیسیوں سال پلاننگ کرنے والی سپر پاورز بھی نہ ڈال سکتیں۔

اس بحث میں پڑے بغیر کہ یہ وائرس کب کیسے اور کن مقاصد کے لئے تخلیق کیا گیا ہم اس پہلو کی طرف آتے ہیں کہ کورونا اب صرف ایک جسمانی بیماری سے زیادہ دنیا کے لئے ایک نمایاں اعصابی اور نفسیاتی چیلنج کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والے انفرادی اور اجتماعی نفسیاتی مسائل آئے دن سوشل میڈیا پر دنیا بھر سے نان پروفیشنل اور اناڑی لوگوں کی طرف سے ہیجانی انداز میں وائرل کیے جانے والے غیر سائنسی و غیر مصدقہ میسجز کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔

لوگوں میں سوشل میڈیا پر راتوں رات مقبول ہو جانے کا جنون بذات خود ایک نفسیاتی وبا بن چکا ہے اور یہ رجحان بہت سے دوسرے لوگوں کو کنفیوز کر کے اُن میں نہ صرف بے یقینی اور بے جا خوف پیدا کر رہا ہے بلکہ ان کی مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت کو بھی بُری طرح متاثر کر رہا ہے۔

چین اس اعصابی و نفسیاتی جنگ میں فتح حاصل کرنے والی پہلی قوم ہے۔ ان کی اس کامیابی کے پیچھے کنٹرولڈ میڈیا اور بر وقت سائنسی اقدامات پر بھروسا کرنا ہے۔ اسی لئے دو ماہ کے قلیل عرصے میں فتح کا جشن منا کر چین نے اپنی قوم کا نفسیاتی مورال بہت بلند کر دیا اور اپنے لوگوں کو مزید نفسیاتی و اعصابی شکستگی سے بچا لیا ہے۔ باقی مملک جہاں آزاد میڈیا بہت طاقتور ہے یا وبا سے نمٹنے کی سائنسی و معاشی صلاحیت کمزور ہے یا ذہنی پس ماندگی غالب ہے اُن کے لئے ابھی کڑا وقت باقی ہے۔

اب ذرا یہ دیکھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کے اجتماعی نفسیاتی مسائل کیا ہیں اور ان سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے۔ لاک ڈاون سے پہلے ہی جب تعلیمی ادارے بہ یک جنبش قلم بند کر دیے گئے اور کرکٹ کے میدان سنسان ہو گئے تو لوگوں نے حالات کی ممکنہ سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اشیائے خور و نوش کی کمی یا اُن کی قیمتوں میں اضافے کے ڈر سے اضافی خریداری شروع کر دی جسے مارکیٹنگ سائیکالوجی میں  Panic Buying کہا جاتا ہے اور اس رجحان سے اکثر واقعی غذائی قلت بھی پیدا ہو جاتی ہے جس کا مظاہرہ دنیا پچھلے دنوں اٹلی، انگلینڈ اور ہالینڈ میں دیکھ چکی ہے۔ اس عمل سے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس اور ذہنی دباؤ بڑھ بھی جاتا ہے جس کے منفی اثرات فیملی اور سوسائٹی دونوں پر پڑتے ہیں۔ اس نفسیاتی الجھن سے بچانے کے لئے حکومت کو یوٹلیٹی سٹورز پر اشیا کی دستابی یقینی بنانے کے علاوہ آن لائن شاپنگ کی ترسیل کے لئے شاپنگ سنٹرز کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے۔

ایک اور مسئلہ باقاعدہ پلاننگ، مناسب میکنزم اور ٹریننگ کے بغیر کالجز و یونیورسٹی کے طلبہ کی آن لائن کلاسز کا آغاز ہے۔ بہت سے ٹیکنیکل مضامین اور انٹرنیٹ کی ناقص سروس کی وجہ سے طلبہ میں خدشات اور تشویش (Anxiety) بڑھتی جا رہی ہے جس کا ردعمل سوشل میڈیا کے ٹرینڈز میں بھی نظر آرہا ہے۔ اس مسئلہ کو گرمیوں کی چھٹیوں میں سمر سمیسٹر سے حل کیا جا سکتا ہے اور اگر وبا کا موسم طوالت پکڑتا ہے تو اس وقت تک آن لائن تعلیم کے لئے مناسب تیاری کی جا سکتی ہے اور پھر اسے لاگو کیا جا سکتا ہے۔

اس وقت چونکہ پورا پاکستان لاک ڈاون ہے تو گھروں میں بہت زیادہ وقت گزارنا ایک اور سنگین نفسیاتی عارضے کو فروغ دے رہا ہے جسے سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ کی عِلت (Social media addiction | Internet addiction) کہتے ہیں۔ اس موضوع پر پاکستانی ریسرچ بتاتی ہے کہ یونیورسٹی سٹوڈنٹس میں 32 فیصد طلبہ اور 26 فیصد طالبات انٹرنٹ کی علت کا شکار ہیں (ماہین، 2014 ) ۔ ایک اور ریسرچ کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ 25 فیصد یونیورسٹی طلبہ جبکہ 17 فیصد طالبات سوشل میڈیا کی عِلت کا شکار ہیں (سحرش، 2018 ) ۔ یہ رجحان بھی منشیات کے استمعال جتنا ہی مہلک ہے جو تعلیمی کارکردگی، سماجی تعلقات اور فیملی لائف کے لئے زہر قاتل ہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے گھر بیٹھے سٹوڈنٹس و دیگر کی ذمہ داری ہے کہ سیل فونز اور انٹر نیٹ کے بامقصد استعمال کی عادت بنائیں اور باقی وقت میں فیملی ممبرز سے اپنی گپ شپ کو اہمیت دیں۔

کوئی بھی قدرتی آفت یا وبا اپنے ساتھ موت کی شدید تشویش (Death anxiety) کو ضرور لاتی ہے جس میں فرد کو اپنی یا اپنے کسی قریبی عزیز کی موت کا خوف گھیر لیتا ہے۔ اس اجتماعی نفسیاتی مسئلہ کی وجہ موت کا بہت زیادہ خوف پھیلانے والے میڈیا میسجز سے ایکسپوژر ہے۔ سماجی سرگرمیاں، مذہبی عبادات اور دعائیں موت کی تشویش کو کنٹرول کرنے کے موثر ہتھیار ہیں۔ دُعا کی روحانی اہمیت بھی ہے اور یہ placebo effect کے ذریعے بھی ذہنی سکون میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہے۔

ان دنوں ذہنی دباؤ یا سٹریس کو کنٹرول کرنے کے لئے گھروں میں اپنے اور بچوں کو صحت مندانہ اور تخلیقی سرگرمیاں اپنانی چاہیں جیسے باقاعدگی سے ورزش، کتب بینی کرنا، بچوں کو فارغ وقت میں اوری گیمی اور ڈرائنگ جیسے تخلیقی کاموں میں مصروف رکھنا، نیند پوری کرنا، متوازن غذا کھانا اور ٹائم ٹیبل کے مطابق عمل کرنا، میڈیا کو کم سے کم وقت دینا اور دن میں دو دفعہ تین سے پانچ منٹ گہرے سانس لینے کی مشق کرنا جسے ڈبلیو ایچ او نے بھی سٹریس کنٹرول کرنے کے لئے تجویز کیا ہے۔

مزید یہ کہ اگر کوئی نفسیاتی مسئلہ جیسے جراثیم کا بے جا خوف، تشکیکی مزاج یا چڑچڑے پن میں اضافہ، خودکشی کے خیالات کا آنا، ہر وقت مایوسی اور اداسی طاری ہونا وغیرہ زیادہ شدت اختیار کریں تو وقت ضائع کیے بغیر فورًا مستند سائیکالوجسٹ سے کنسلٹ کریں۔

کورونا یقینًا چلا جائے گا مگر ہمیں نہ صرف آنے والے دنوں میں ایک بدلی ہوئی دنیا کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا ہے بلکہ آئندہ آنے والی کسی بھی آفت کے موسم کے لئے خود کو پہلے سے تیار رکھنا ہے اور امید کی شمع روشن رکھنی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments