ملا، پنڈت، پادری اور سائنس


”آپا! دشمن سامنے ہو تو مقابلہ آسان ہو جاتا ہے۔ “ کلیم خبرنامہ دیکھتے ہوئے بڑ بڑایا۔

”اللہ خیر کرے، کچھ نہیں ہوگا۔ اور تم کیا ہر وقت یہ منحوس خبریں لگائے رکھتے ہو۔ بند کرو“ نجمہ نے ابھرتے ہوئے خوف کو اپنے اندر چھپاتے ہوئے کہا۔

”آپا اللہ کی قسم دیکھو تو سہی۔ اٹلی میں اب تک دس ہزار سے زیادہ لوگ مرگئے۔ امریکہ اس کے سامنے بے بس ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اسے عالمی وبا قرار دے دیا ہے۔ “

”اچھا تم اپنی بے ہودہ معلومات اپنے پاس رکھو۔ یہ تو بس اللہ تعالیٰ کافروں کو ان کے گناہوں کی سزا دے رہا ہے۔ “ کلیم سے ریمورٹ پکڑتے ہوئے نجمہ بولی ”جمعہ کی اذان ہو رہی ہے، جاؤ نماز پڑھ آؤ۔ “

”آپا تمام ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سماجی فاصلہ رکھا جائے۔ یہ وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگتا ہے۔ جمعہ کی نماز میں بہت لوگ ہوں گے۔ وہاں جانا اپنی موت کو دعوت دینا ہے۔ “

نجمہ نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ ”توبہ، توبہ۔ استغفراللہ۔ کیسے کفریہ کلمات کہہ رہے ہو۔ “

”آپا! خانہ کعبہ تک کا طواف موقوف کرد یا گیا ہے۔ “ کلیم نے خود کو بے بس پا کر دلیل دی۔

”کلیم یہ سب کافروں کی سازشیں ہیں، یہ مسلمانوں کو اپنے مذہب سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ “

”آپا! رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ“ بیمار اونٹ کو تندرست اونٹ کے پاس نہ لے کر جاؤ۔ ”

”کلیم! تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟ اللہ کے نبی ﷺ نے یہ حکم ایک جانور کے لیے دیا ہے اور تم ہو کہ ا سے انسانوں پر نافذ کر رہے ہو۔ ۔ تمہارا دماغ کچھ زیادہ ہی مغرب زدہ ہو گیا ہے۔ “

”ایسی بات نہیں ہے آپا! ۔ میں نے ایک اور جگہ رسول کریم ﷺ کا فرمان پڑھا ہے کہ“ جذامی شخص سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔ ”

”اوہ خدایا! ۔ “ نجمہ نے اپنا سر پکڑتے ہوئے کہا ”کلیم تم کہاں کی بات کہاں لے کر جا رہے ہو؟ تمہیں پتہ بھی ہے کہ جذامی شخص کون ہوتا ہے؟ ہمارے پورے محلے میں کبھی تم نے کوئی جذامی شخص دیکھا ہے؟ “

نجمہ نے اپنی بات پہ زور دیتے ہوئے کہا ”اللہ پاک پہ یقین رکھو، وہ ہم سب کی حفاظت کرنے والا ہے۔ “

کلیم خاموشی سے اٹھا اور نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے چلا گیا۔

٭٭٭    ٭٭٭

”ارجیت یار! ۔ تو نے کورونا وائرس کے بارے میں سنا ہے؟

”ہاں سنا ہے۔ تو کیوں پوچھ رہا ہے؟ “

”یار اس نے پوری دنیا میں تباہی پھیلا رکھی ہے۔ “

”ہاں! دیکھا میں نے کل خبرنامہ میں۔ “

”یار تو اتنا لائٹ کیسے لے رہا ہے اس مسئلے کو؟ “

”اؤ بھائی کون سا مسئلہ؟ بھگوان کے آگے ماتھا ٹیک اور نچنت ہوجا۔ “

”ارجیت! یہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے۔ سائنسی مسئلہ ہے۔ تم مائیکروبیالوجی کے سٹوڈنٹ ہو کر بھی کیسے ایسی بات کرسکتے ہو؟ “

دیکھو آکاش! ۔ میں وہ کہہ رہا ہوں جو سچ ہے۔ اچھا سن، تجھے اندازہ ہے جس مصیبت نے دنیا کے چھکے چھڑا دیے ہیں، اس کے بھارت کے اندر صرف ایک ہزار کیس سامنے آئے ہیں۔ تو اپنے انڈیا کی کل آبادی دیکھ، یہاں غربت دیکھ اور مریضوں کی تعداد دیکھ۔ یہ سب ایشور کا کرم نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ ”ارجیت نے فخریہ انداز میں دونوں ہاتھ جوڑ ے اور تھوڑا سا نیچے جھک کر بھگوان کا شکر ادا کیا۔

”تجھے ان سالے مسلمانوں کا پتہ ہے، ان کا کعبہ بند ہوا پڑا ہے۔ ان مسلمانوں کے صرف ایک ملک پاکستان میں سولہ ہزار سے زیادہ لوگ کرونا کے شکار ہیں۔ اور ان کی آبادی کا تو پتہ ہوگا تجھے۔ ہمارا پانچواں حصہ بھی نہیں ہے۔ یہ سب بھگوان شیو کی ناراضگی کے ہی کارن ہے۔ “

”ارجیت۔ یار تو اس سارے مسئلے کو سائنسی نظر سے کیوں نہیں دیکھتا؟ “

”آکاش۔ تو اپنی سائنس اپنے پاس رکھ۔ بھگوان برہما اس سارے سنسار کو بنانے والے ہیں اور بھگوان ویشنو ہمارے محافظ۔ “

”ارجیت یار۔ میں دل سے یہ سب مانتا ہوں، مگر۔ “

”آکاش! ۔ اگر مگر چھوڑ۔ پنڈت جی نے بھگوان ویشنو کے مندر میں پوجا رکھی ہے۔ چل وہاں ہماری رکھشا کی پرارتنا کی جائے گی۔ “

”ارجیت۔ زیادہ لوگوں کے اکٹھے ہونے سے ماہرین منع کر رہے ہیں۔ “

”آکاش میرے یار! “ ارجیت نے آکاش کے کندھے کو تھپتھپایا ”بھگوان پہ بھروسا رکھ۔ بھگوان کے گھر میں بیماری لگتی نہیں۔ شفا ملتی ہے۔ “

٭٭٭    ٭٭٭

Kissing and hugging had banned، and social distance allowed۔ But people are still out and about، frequent bars، restaurants، parks and beaches۔ ”O gosh! “ Permisha muttered while watching CNN.  ”Everybody must realise the alarming situation of the pandemic۔ “

”Hmmm۔ it ’s so dark outside۔ thundering، lightning and stormy۔ “ Samuel nodded glumly، standing near the window۔

Permisha was already stuck in a gut looked at him annoyingly and said، ”The storm is inside too۔ “

Samuel turned to her instantly۔ ”What happened، Honey?“

She placed her both hands on the head and yelled، ”It ’s weird۔ Nonsense! “

For a second، Samuel became silent، looked into her eyes; she seemed grunting۔ He drummed his fingers on the table and repeated his question with a little modification ”Honey، are you ok?“

”The national lock-down declared on 10 March due to massive causalities of COVID۔ 19۔ The government requested for our co۔ operation، just to quarantine ourselves for our own safety but these non۔sense folks are strolling in public places۔ They are sick! “ She screamed۔

Fear engulfed her badly۔ Samuel snapped his chair، came closer to Permisha and said politely، ”There is nothing worrying about it۔ Feel Jesus close to your heart۔ We all are children of God۔ We are safe in His world۔ He can ’t do anything bad to us۔ You are used to be upset for minor things۔ “ He held her hand tightly and split with smile، ”Don‘ t worry Sweetheart۔ “

”Samuel، it is scientifically proven that human beings are the carrier of this virus۔ If we expose ourselves in public gathering، we accelerate its speed to spread among our love ones۔ “

Samuel cleared his throat fearfully۔ ”Er۔ Permisha، dear۔ Pope prayed to Virgin Mary for our protection۔

”O Mary

You always shine on our path as a sign of salvation and hope۔

We entrust ourselves to you، health of the sick,

Who at the cross took part in

Jesus ’pain، keeping your faith firm۔ ”

***    ***

قرائن بتارہے ہیں کہ ملا، پنڈت اور پادری سمجھ رہے ہیں کہ اس وبائی مرض کا علاج محض دعاؤں سے ہو جائے گا۔ شاید اسی لیے صورتحال اس قدر خوفناک ہوچکی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک لاک ڈاؤن پہ مجبور ہیں اور اس منحوس وبا کی وجہ سے دنیامیں تین لاکھ اسی ہزار سے زائد انسان اس مرض کا لقمہ اجل بن گئے۔

اس وقت کسی بھی ملک کا حکمران ہے یا اس ملک کی عوام، مذہبی عالم ہے یا ڈاکٹر۔ سبھی دہشت زدہ ہیں۔ موت کا فرشتہ رقصاں کنا ں ہے۔ کب کس کی باری آجائے۔ کچھ خبر نہیں۔

دوسری طرف اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں سائنسدان امید کی کرن بن کر ابھرے ہیں، ان کی تحقیق سے خبرملتی ہیں کہ دعائیں اور عبادات اپنی جگہ محترم ہیں مگر۔ حالات کی سنگینی کچھ اور کہتی ہے۔

سب ممالک کے سائنسدانوں نے بین الاقوامی ریسرچ کانفرنس منعقد کی۔ جس میں سائنس دانوں نے ا پنی اپنی تحقیقات پیش کیں۔ کانفرنس میں HIV، Hydroxychloroquine، Antimonium، Belladona سمیت دیگر ممکنہ تجاویز پر غور کیا گیا۔ آخر کار سائنسدانوں نے فیصلہ کیا کہ ان ادویات سے بیماری کی شدت کو وقتی طور پر تو کم کیا جا سکتا ہے لیکن مستقل حل کے لیے ویکسین بنانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں تجربات کی عالمی سطح پر منظوری لی گئی اور ویکسین بنانے کا عمل شروع ہوگیا۔

کرونا وائرس کے تیز رفتاری سے پھیلتے ہوئے تباہ کن اثرات کے پیش نظر ویکسین کو پہلے کسی جانور پہ ٹیسٹ کرنے کی بجائے براہ راست انسان پہ آزمانے کا فیصلہ ہوا۔ چالیس کے قریب لوگوں نے رضاکارانہ طور پر خود کو اس ٹیسٹ کے لیے پیش کیا۔ بالآخر سائنس دانوں کی ان تھک محنت رنگ لائی۔ ویکسین کے نتائج کامیاب رہے۔ اور انسانوں کی مشترکہ کاوشوں سے مہلک وبا پر قابو پا لیا گیا۔ دوا، دعاؤ ں پر سبقت لے گئی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments