کورونا عذاب، آزمائش یا خدائی تنبیہ کیوں نہیں ہے؟


بھائی لوگ اصرار کر رہے تھے کہ کورونا کو اللہ کا عذاب مان لو۔ میں نے عرض کیا کہ یہ طبی بحران ہے۔ فرمانے لگے چلو اللہ کی طرف سے اپنے بندوں کو تنبیہ ہی مان لو۔ میں نے پھر وہی عرض کیا کہ یہ ایک طبی بحران ہے۔ پھر اصرار ہوا کہ چلو یہ تو مان ہی لو کہ یہ اللہ کی طرف سے اپنے بندوں کی آزمائش ہے۔ میں نے پھر وہی بات دہرا دی کہ یہ ایک طبی بحران ہے۔ میری بات سن کر بھائی لوگ جھنجھلائے اور بولے کہ جو کچھ کہ رہے ہو اس کی دلیل کیا ہے؟

دلائل تو میں دوں گا لیکن اس سے پہلے ذرا سادہ لفظوں میں یہ سمجھ لیجیے کہ عذاب کا مذہبی تصور کیا ہے؟ میں خود اس بارے میں کچھ کہوں تو شاید لوگ علمیت پہ سوال اٹھائیں اس لئے میں نے اپنے دوست عرفان نوری صاحب سے اس سلسلہ میں استفسار کیا۔ عرفان صاحب مشرقی علوم کے سند یافتہ عالم ہیں۔ انہوں نے جو کچھ فرمایا اس کے مطابق ’عذاب سے مراد سزا ہے۔ پچھلی قوموں پر عذاب اسی وقت آیا جب انہوں نے پیغمبر کو للکارا، ان کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو جس چیز سے ڈرا رہے ہو وہ ہم پر مسلط کروا دو۔

ان کی سر کشی کی وجہ سے ان پر عذاب مسلط کیا گیا۔ جس قوم پر عذاب آیا وہ تقریبا ختم ہو گئی سوائے ان افراد کے جو پیغمبر کے ساتھ تھے اور ان کے ساتھ نکل گئے۔ قوم یونس عذاب سے بچ گئی تھی، اس لئے کہ جب عذاب کی نشانیاں ظاہر ہونے لگیں تو پیغمبر علاقے سے نکل گئے اور ان کی قوم کو احساس ہوا کہ وہ غلطی پر ہے تو اس نے توبہ کر لی اور عذاب اٹھا لیا گیا۔ ’

اب ذرا مندرجہ بالا باتوں کو کسوٹی بناکر کورونا کو اس پر پرکھتے ہیں۔ عذاب کے لئے ضروری ہے کہ کوئی نبی دعوت دے جسے قوم ٹھکرا دے، قوم اس نبی کو للکارے، اس کی تکذیب کرے اور چیلنج کرے کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر اللہ کا قہر نازل کروا کے دکھاؤ۔ یہاں واقعہ یہ ہے کہ اول تو کسی نئے نبی کی آمد اور دعوت کی کوئی خبر ہم تک نہیں پہنچی اور اگر مان بھی لیں کہ دنیا کے کسی گوشے میں کسی نے ایسی دعوت دی ہے تو یاد رکھنا ہوگا کہ ختم نبوت کا عقیدہ ہمیں پابند کرتا ہے کہ ہم کسی کا بھی نبی یا رسول ہونے کا دعوی مسترد کر دیں، اس لئے کہ حضرت محمد مصطفی پر یہ سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ اب چونکہ یہاں عذاب کی بنیادی شرط ہی پوری نہیں ہو رہی اس لئے کورونا کو عذاب قرار دینا بے بنیاد ہے۔

چلئے نبی کی دعوت والی بات کو ذرا دیر کو رہنے دیتے ہیں اور دوسرے نکات پر آتے ہیں۔ عذابوں کی تاریخ کہتی ہے کہ جس قوم پر عذاب آیا وہ ختم ہو گئی، بس وہی چند افراد اس سے محفوظ رہے جو نبی پر ایمان لائے اور ان کے ساتھ ہو لئے۔ کورونا کا معاملہ یہ ہے کہ اس سے نہ تو ساری دنیا متاثر ہوئی ہے اور نہ ہی اس سے متاثر ہر ایک شخص کی لازمی طور پر موت ہی ہو رہی ہے۔ کورونا کے شکار افراد کو دنیا کی کل آبادی کے مقابلے دیکھیں تو وہ بہت معمولی تعداد ہے۔

ان میں سے بھی صرف دو یا تین فیصد افراد ہی ہلاک ہوئے ہیں۔ مت بھولئے کہ زیادہ تر لوگ انفیکشن کے بعد جسم کی قوت مدافعت کی وجہ سے صحتیاب ہو رہے ہیں۔ اگر کورونا عذاب ہے تو اسے اپنی طبیعت میں بے قابو اور بلا امتیاز مہلک ہونا چاہیے کہ وہ جہاں جہاں پہنچے زندگی کو موت میں بدل دے، بالکل طوفان نوح کی طرح جہاں حالات اتنے بے قابو تھے کہ خود نبی کو پیشگی طور پر کشتی کی شکل میں شیلٹر کا انتظام کرنا پڑا۔

عذابوں کی تاریخ کے مطابق عذاب ان پر سے اٹھایا گیا جنہوں نے توبہ کر لی۔ کورونا کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا زور وہاں تھم گیا جہاں طبی انتظامات بہتر تھے اور ایک سے دوسرے کو انفیکشن منتقل ہونے کے امکانات کم کر دیے گئے۔ چین اور جنوبی کوریا کی مثال سامنے ہے جہاں کورونا پر تقریبا قابو پا لیا گیا ہے۔ اگر کورونا عذاب تھا تو اسے تب تک ختم یا کمزور نہیں ہونا چاہیے تھا جب تک کہ ووہان اور سیول کے عوام استغفار نہ کر لیتے۔

اب ذرا کورونا کے اللہ کی تنبیہ ہونے والی بات کو دیکھ لیجیے۔ اللہ کی تنبیہ اگر گناہوں کے ارتکاب پر ہے تو اسے گن گن کر ان معاشروں پر نازل ہونا چاہیے تھا جہاں ان امور کو انجام دیا جا رہا ہے جن سے مذہب روکتا ہے۔ کورونا کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ مسلم و غیر مسلم سب معاشروں میں پھیلا ہے اور یہ بھی ہوا ہے کہ دنیا کی بہت سی آبادیاں اس سے بالکل محفوظ ہیں۔ یہ آبادیاں صالحین کی بستیاں بھی نہیں ہیں جن پر گمان کر لیا جائے کہ ان کی نیکی اور پاکبازی کی وجہ سے وہاں یہ خدائی تنبیہ نہیں کی گئی۔ ادھر یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ مقدس شہروں اور تبلیغی مراکز کے اندر تک کورونا کا اثر پہنچ رہا ہے۔ یہ دلیل اس بات کو ماننے کے لئے کافی ہے کہ کورونا وائرس کوئی خدائی تنبیہ بھی نہیں ہے۔

کورونا کو اللہ کی طرف سے اپنے بندوں کی آزمائش ماننے میں تامل یہ ہے کہ اس آزمائش کی وجہ واضح نہیں۔ مذہبی بیانیہ کے مطابق خدا اپنے بندوں کو مختلف وجہوں سے آزماتا ہے جیسے ان کا صبر دیکھنے کے لئے یا پھر ان کا توکل جانچنے کے لئے۔ یہاں واقعہ یہ ہے کہ کورونا کے شکار افراد میں اکثریت ان کی ہے جو توکل اور صبر کے مذہبی تصورات کو مانتے ہی نہیں بلکہ ایسے لوگ بھی اس مبینہ آزمائش میں شریک ہیں جو سرے سے خدا کے وجود کے ہی منکر ہیں۔ ایسے میں اس آزمائش کا کوئی لاجیکل مینڈیٹ نظر نہیں آ رہا۔

اب سوال یہ کہ اگر کورونا عذاب، آزمائش یا تنبیہ نہیں ہیں تو پھر اس کی کیا دلیل ہے کہ یہ ایک طبی بحران ہے؟ جی ہاں اس کی دلیل ہے اور وہ ہے خود یہ وائرس۔ کورونا وائرس کوئی ناقابل فہم وبا نہیں بلکہ اپنی مخصوص گرامر کے ساتھ پھیلنے والی طبی کیفیت ہے۔ یہ وائرس اپنے سائنٹفک حدود میں رہ کر ہی کام کرے گا۔ مثال کے طور پر اس کے شکار افراد کی عمر 80 برس سے زیادہ ہے تو ہر پانچ میں سے ایک متاثر کی موت ہو جائے گی۔

وائرس کا شکار شخص اگر شریانوں کی بیماری میں مبتلا ہے تو اس کی ہلاکت کا امکان 13 فیصد، شوگر کے مریضوں کا 9 فیصد، پھیپروں اور بلڈ پریشر کے مریضوں کا آٹھ۔ آٹھ فیصد اور کینسر کے مریض کی ہلاکت کا امکان سات فیصد ہوگا۔ اگر وائرس نو برس تک کی عمر کے بچے بچی کو لگا ہے تو موت نہیں ہوگی۔ 10 سے 49 برس تک کا صحتمند شخص کورونا کی زد میں آ بھی جائے تو موت کا امکان آدھے فیصد سے بھی کم ہوگا۔ عمر جیسے جیسے زیادہ ہوگی جان سے جانے کا امکان بڑھتا جائے گا۔

یہ تو میں نے چند نکات رکھے ایسے ہی نہ جانے کتنے سائنٹفک اصول ہیں جن سے کورونا بندھا ہوا ہے۔ ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ یہ وائرس جسم میں کہاں جاکر حملہ آور ہوتا ہے، کتنے دن میں علامات ظاہر ہوتی ہیں اور کون لوگ زیادہ خطرے میں ہیں؟ ، ہم نے جان لیا ہے کہ وائرس منتقل کیسے ہوتا ہے اور اس کا پھیلاؤ کس طرح روکا جا سکتا ہے۔ گویا کورونا کا تحلیل و تجزیہ کرکے اس کی ہئیت، کام کرنے کا ڈھنگ اور بچاؤ کی تدابیر جیسے بنیادی نکات طے کیے جا چکے ہیں۔ اس وائرس کے علاج کے لئے دوا تیار ہورہی ہے۔ یہ ساری باتیں میڈیکل سائنس کی فقہ کے مطابق ثابت کرتی ہیں کہ کورونا محض ایک وائرس ہے اور یہ انسانی جسم میں جاکر بیماری پیدا کرتا ہے۔

اب ذرا ایک بات اور سن لیجیے۔ کوئی پوچھ سکتا ہے کہ اگر کچھ لوگ کورونا کو عذاب یا آزمائش یا تنبیہ مانتے ہیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ میرا جواب ہوگا کہ بالکل فرق پڑتا ہے۔ جب آپ کورونا کو عذاب، آزمائش یا تنبیہ مان لیتے ہیں تو آپ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اس لئے ہم عاجز بندے اس سے بچ نہیں سکتے۔ اس طرح ہم وبا کو خدائی امر مان کر اس کے حل کی تدبیر کرنے میں خود کو عاجز سمجھ لیتے ہیں۔

ہم سوچتے ہیں کہ اس کا حل تو بس توبہ اور عبادت سے ہی ہو سکتا ہے کہ شاید خدا کو ہمارے حال پر رحم آ جائے۔ اس کے برعکس جب آپ کورونا کو ایک طبی بحران کی شکل میں دیکھتے ہیں تو معلوم طبی حقائق کو سامنے رکھ کر اس کا علاج کھوجنے میں لگ جاتے ہیں۔ جس طرح طاعون، ایبولا اور سارس جیسی وباؤں کو طبی بحران کی طرح دیکھ کر ان پر قابو پا لیا گیا ویسے ہی انسانیت کورونا سے بھی نجات پا لے گی بس ذرا سا انتظار کیجے کہ یورپ اور امریکہ کے غیر مسلم ڈاکٹر اور ماہرین اپنی طبی ریاضت میں مصروف ہیں۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments