نظر کرم کی دیر ہے


مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ چیزوں کو پانچ دوسری چیزوں کے آنے سے پہلے غنیمت سمجھو، فرصت کو مصروفیت، مال کو تنگدستی، صحت کو بیماری، جوانی کو بڑھاپے اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت سمجھنا چاہیے۔

لمحہ موجود میں ہم جس ابتلاء اور غیر یقینی میں گھرے بیٹھے ہیں، ذرا ماضی قریب میں نگاہ دوڑائیں تو ہم لوگ کس قدر خوشحال اور شاداں تھے لیکن چونکہ ہم نے یہ کرونا والی مصیبت اور اس سے متعلق حالات نہ دیکھے تھے اس لیے ہم میں سے شاید ہی کچھ زبانیں ہوں گی جن پر کلمات تشکر جاری رہتے ہوں گے وگرنہ تو ہم سدا کے سند یافتہ ذود رنج و ذود فراموش، ناشکرے اور پیدائشی ملامتی۔

شیخ سعدی کی ایک حکایت گریجویشن کے دوران اپنے نصاب میں پڑھی تھی، موجودہ حالات میں بار بار وہ حکایت ذہن کے نہاں خانوں سے اچھل اچھل باہر آرہی ہے، ایک حاکم اپنے کچھ مصاحبین کے ساتھ سمندری سفر پر تھا، اس کے رفقاء میں ایک غلام ایسا تھا جو پہلی بار سمندری سفر کررہا تھا، جونہی کشتی ڈگمگاتی وہ غلام بری طرح چلانے لگتا، سارے مسافر اس کی آہ و بکا سے پریشان تھے، ایک کڑیل جوان نے حاکم سے اجازت لی کہ اگر آپ اجازت دیں تو اس کا ڈر ختم کروں؟

شاہ نے اجازت دے دی، اس جوان نے اس غلام کو پکڑ کر کھلے سمندر میں دو چار ڈبکیاں لگوائیں اور پھر نکال کر کشتی میں بٹھادیا، اس کے بعد وہ غلام بالکل سکون سے بیٹھ گیا، حاکم نے نوجوان سے سارے واقعے کی حکمت جانی تو نوجوان نے جواب دیا کہ پہلے یہ غلام کشتی کی عافیت اور حفاظت سے ناواقف تھا اب سمندر سے ملاقات ہوئی تو اسے پتہ چلا کہ وہ کشتی میں بہت محفوظ ہے۔

اب کرونا جیسی آزمائش میں مبتلا ہوکر ہم ایسے ملامتیوں کو اندازہ ہوچلا ہے کہ ہم ناشکرے لوگ تو اپنی اپنی سلطنتوں کے بادشاہ تھے، جب جی چاہا کسی ڈھابے پر بیٹھ کر لذت کام و دہن سے حظ اٹھایا، جدھر کو من چاہا چل دیے، جس سے من کیا مل لیے لیکن اب تو سائے سے بھی خوف آنا شروع ہوگیا، کہتے ہیں اپنے ہاتھوں سے چہرے کو چھونے سے گریز کیا جائے۔

ایک طرف کرونا جیسی آزمائش منہ کھولے کھڑی ہے، دوسری طرف دانشور بریگیڈ نے سوشل میڈیا پر کشتوں کے پشتے لگا رکھے ہیں، ہر دوسرا بندہ عزرائیل کا ترجمان لگ چکا ہے، جھوٹی خبروں کے انبار ہیں، طبی مشوروں کی بھرمار ہے، پچھلے پندرہ دن سے اعتکاف تنہائی میں ہیں لیکن واٹس ایپ میسجز، ٹی وی پر سنسنی خیز رپورٹنگ اور سوشل میڈیا نیوز فیڈ دیکھ کر ہر دوسرا بندہ شدید نفسیاتی مریض بن گیا، تھوڑی دیر بعد کرونا کی کوئی نہ کوئی علامت خود میں محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

کل ایک صاحب جو خیر سے صحافت سے وابستہ ہیں ایک ویڈیو بھیجی، جس میں میت گاڑیوں کی ایک لمبی قطار رواں تھی، صاحب نے یہ کیپشن دیا کہ دیکھو ایران میں کرونا سے کتنی ہلاکتیں ہوچکی ہیں؟ حالانکہ صاف نظر آرہا تھا کہ وہ میت گاڑیاں حرم مکی کی تھیں اور وہاں ہر فرض نماز کے بعد درجنوں میتیں بغرض جنازہ لائیں جاتی ہیں۔

افواہوں اور خوف کے وقت مہربان دوستوں کا ساتھ غنیمت ہے، جب دل بہت بوجھل ہوجاتا ہے تو سعود عثمانی، علی اصغر عباس، فاروق عادل، جمیل احمد عدیل، افضل عاجز، سجاد جہانیہ، لطیف اشعر، غلام محی الدین جیسی شخصیات سے چند جملوں کا تبادلہ میرے لیے کسی طلسمی منتر کی سی حیثیت رکھتا ہے اور دل مضمحل قرار پاتا ہے، اللہ ایسے سب مہربان اور انسان دوست شخصیات کو سلامت رکھے جو امید کا پیغام دیتے ہیں۔

کل ایک عاقبت نا اندیش نے میرے ساتھ ایک نیکی یوں کی، میں ذرا گاؤں کی کھلی فضا اور کھلیانوں میں بغرض چہل قدمی نکلا تو وہاں موصوف یعنی عاقبت نا اندیش سے سامنا ہوا کہنے لگے حالات بہت خراب ہیں اور پھر خود ساختہ جھوٹی خبریں الاپنی شروع کردیں، خبروں میں کہنے لگا کہ کوٹ رائے امیر علی میں متعلقہ ادارے پہنچ گئے ہیں اور وہاں ساری بستی کو گھروں میں قید کردیا گیا ہے، وہاں کرونا کے درجنوں کنفرم کیس سامنے آئے ہیں، سنتے ہی دل بے تاب ہوگیا کیونکہ اس بستی میں عظیم سخن ور رائے محمد خان ناصر بسرام کرتے ہیں اور ہمارے لیے وہ بستی عقیدتوں کا مرکز ہے، فوراً بے چینی میں رائے صاحب کو فون کیا، ان سے اشاروں کنایوں میں افواہ کے متعلق پوچھا جوکہ الحمدللہ افواہ ہی تھی، انہوں نے حالات حاضرہ کے تناظر میں اپنی تازہ نظم سنائی جو کہ امید کی جوت جگاتی ہے، یوں ایک ناعاقبت نا اندیش نے غلط خبر دے کر نیکی کی کہ نظم سن کر دل کو ڈھارس بندھی اور رب کی رحمتوں کی نوید سنائی دی۔

نظم چونکہ پنجابی میں تھی لیکن میں نے استفادہ عام کے لیے بے وزن سا ترجمہ کیا ہے تاکہ آپ بھی پڑھیں اور امید کا دامن تھامیں۔

اے موت! اچھے نہیں ہیں

تیرے وہ جبر جو تو زندگی کے ساتھ کرتی آئی ہے اور کررہی ہے

آخر کب تک تمہاری مہیب صدا

گروہ انساں کو پریشاں رکھے گی

بطرف زیست انگشت نمائی تیری

آخر کب تک جاری رہے گی

اور بند آنکھ کب تک نہ دیکھ پائے گی، کب تک چھپنا ہے، امید وصل کب تک نراش رہے گی

کب تک دیواریں جیون اور صحن موت کی علامت بنا رہے گا

لال سرخ پکے بیر کب تک کھانے والوں کی رہ دیکھیں گے

اور رس بھرے شہتوتوں کے ڈھیر کب تک مکھیوں کا ہی کھاجا رہے گا

اے موت آخر کب تک حشر کے گھر میں حشر کی جگہ تو رہے گی

گھر والے آخر گھر آنہیں جاتے؟

بس مالک کے نظر کرم کی دیر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments