کورونا وائرس: بدلتی معاشرت اور معاشی بحران سے نمٹنے کی تیاری


کورونا وائرس کی وبا نے اگر سب کچھ تبدیل نہ کیا تو بھی بہت کچھ تبدیل ضرور ہوگا، معیشت سے معاشرے کے اطوار تک، ہاتھ ملانے سے لے کر فاصلہ برقرار رکھنے تک، منہ ماسک سے ڈھکے رکھنے سے لے کر بار بار ہاتھ دھونے تک حتیٰ کہ اندھے مذہبی عقائد سے لے کر تہوار منانے کے انداز تک۔ یہ سب کچھ اگر ہمیشہ کے لئے نہ بھی بدلے پھر بھی اس کے اثرات ایک طویل عرصے تک ہر معاشرہ محسوس بھی کرے گا اور نئے مجلسی آداب کی تقلید بھی کہ انسانی زندگی کائنات کی ہر شے سے افضل ہے۔

معاشرتی طور طریقوں پر ثبت ہونے والے اثرات کے ساتھ فوری نوعیت کا توجہ طلب اور گمبھیر مسئلہ مضبوط عالمی معیشتوں کو دوبارہ پاوں پر کھڑا کرنے کی موثر منصوبہ بندی ہے جبکہ عالمی معیشت کی زبوں حالی کے بیچ نحیف، کمزور اور تباہی سے دوچار پاکستان جس کی معیشت میں وبا پھوٹ پڑنا مزید زبوں حالی سے دوچار ہونا ہے۔

موجودہ حالات میں ہماری اب تک کی ترجیحات کا مختصر جائزہ صاف بتاتا ہے کہ ہم وبا پھوٹ پڑنے کے مہینوں بعد جاگے ہیں، تکلیف میں مبتلا دیگر ممالک کی طرح ہماری سست روی کی وجہ سے ملکی سرحدوں کو خاطر خواہ محفوظ نہ بنا پانے کے خوفناک نتائج سارا ملک بھگت رہا ہے۔ بہرالحال اس سے نمٹنے کے لئے جس طرح طوعاً و کرہاً عمومی انداز سے ہٹ کر غیر معمولی اقدامات کے فیصلے کرنے پڑے اسی طرح ملک کی معیشت کو بھی سنجیدہ اور انتہائی غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے، ذرا سی، سستی، کوتاہی، دباؤ یا کسی ایک جانب جھکاؤ ملک کی پہلے سے ہلی بنیادیں مزید ہلا ڈالے گی۔

موجودہ تشویشناک حالات صرف چیلنجز نہیں بلکہ بہترین مواقع بھی مہیا کر رہے ہیں۔ ان نامساعد حالات کے مقابلے کے لئے بہت خوش اسلوبی سے غیر معمولی اور غیرعمومی اقدامات کرنا ہے تاکہ روایتی پالیسی کے مضر اثرات کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ کر اپنے پاوں پر کھڑے ہونے کا عزم مصمم کر کے عملی طور پر آگے بڑھا جائے۔

اول ترین اہمیت خارجہ اور دفاعی پالیسی پر مکمل نظرثانی اور پڑوسی ممالک سے فی الفور تنازعات کو بالائے طاق رکھ کر امن کی یقینی بحالی اور دفاعی بجٹ میں فوری اور قابل ذکر کمی کرنا ہے تاکہ عالمی کساد بازاری کے اثرات سے بچنے اور پہلے سے خراب معاشی حالات سے نمٹنے میں آسانی پیدا ہوسکے۔

تمام پڑوسی ممالک بشمول، چین، انڈیا، ایران اور افغانستان کے ساتھ کسی بھی غیر ملکی دباؤ کو قبول کیے بغیر ایک خودمختار اور صد فیصد آزاد پاکستان کے اپنے اور تجارتی پارٹنر ممالک کے مفاد میں عام تجارت کے دروازے کھول دینے چاہئیں۔

چین کے ساتھ کیے گئے سی پیک معاہدے کی سست رفتاری کو فی الفور ختم کرکے دستخط شدہ منصوبوں پر تیز رفتار عملدرامد اور ملک بھر میں صنعتوں کے جال بچھانے کا کام تیزہو جانا چاہیے۔

ساتھ ساتھ ایران۔ پاکستان۔ انڈیا گیس پائپ لائن پر کسی دباؤ بغیر مکمل عملدرامد اور منصوبے کو انڈیا تک پہنچانے کو یقینی بنایا جائے جو حکمت عملی کے اعتبار سے بھی پاکستان کے مفاد میں ہے، توانائی کا سستا ذریعہ اپنی جگہ ہے۔ ترکمانستان پاکستان انڈیا پاور ٹرانسمشن کے منصوبے پر عملدرامد میں تیزی، افغانستان میں قیام امن کو سنجیدگی سے یقینی بنانا اور موثر حکومت کے قیام کو یقینی بنانا سستی توانائی کے حصول کا ذریعہ ہے۔

خوشحال اور مضبوط معیشت کا قیام پاکستان کی اپنی کوششوں اور شفاف پالیسی سازی سے کسی مشکل سے دوچار ہوئے بغیر ممکن ہے جس کے لئے ملک میں طاقت کے ایک سے زیادہ مقام پر مرکوز ہونے کے بجائے صرف سول حکومت کے تابع ہونا شرط ہے، اس ہدف کا حصول ایک طاقتور محکمے کے سنجیدہ اور مثبت ردعمل سے یقینی طور پر اور آسانی سے ممکن ہے۔

تمام اسٹیک ہولڈرز کا آوٹ آف دی باکس سوچنا ہی نجات اور کامیابی کا راستہ بھی ہے اور اس سوچ پر فوری عملدرامد کا بھی۔ دیر ہوجانے اور اقدامات میں دیر سے اس مرتبہ اٹھنے والے نقصانات بے حد بھیانک ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments