لاک ڈاون کے بعد!


یہ لاک ڈاون کا تیسرا روز تھا میں ایک ضروری کام کے سلسلے فوارہ چوک پہنچا۔ یہ لیہ سٹی کا مصروف ترین چوک ہے جہاں ہر وقت ٹریفک کا بے انتہا رش رہتا ہے باہر سے آنے والوں کو شہر میں کسی جگہ جانے کے لیے یا شہر سے باہر کسی قصبے علاقے یا پھر بیرون سٹی جانے کے لیے فوارہ چوک سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ مگر آج یہاں ہو کا عالم تھا پبلک ٹرانسپورٹ بالکل بند تھی چند ایک پرائیویٹ گاڑیاں یا موٹر سائیکل بائیک نظر آئیں جبکہ اکا دکا پیدل لوگ بھی دکھائی دیے جو شاید کسی ضروری کام سے نکلے ہوں۔ میں متعلقہ سپر سٹور پہنچا جہاں سے مجھے گھر کی ضرورت کے لیے چند اشیا خریدنی تھیں۔ باہر بیٹھے ایک شخص نے مجھے روک کر سائیڈ پر رکھی ایک پانی کی ٹینکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

سر جی ہاتھ دھو لیں

ہاتھ دھونے کے بعد میں آگے بڑھا تو وہ پھر میری طرف متوجہ ہوا اور زمین پر لگے ایک دائرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا سر جی ادھر ہی رکیں اندر ایک کسٹمر موجود ہے وہ باہر آجائے پھر آپ اندر تشریف لے جائیں۔ یہ تمام صورتحال میرے لیے انتہائی دلچسپ، خوش کن اور حوصلہ افزا تھی۔ اس حوالے سے شاپ کیپر سے بات کی تو اس کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے جوانوں اور مقامی انتظامیہ نے باقاعدہ ہدایت دی ہیں اور پھر ہماری اپنی بھی ذمہ داری ہے کہ ملک اور قوم کو درپیش سنگین صورتحال اور در پیش خطرے سے بچانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا ”کہ اس قوم کو کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا جو ہار کو جیت میں بدلنے کا حوصلہ رکھتی ہو اور جیت کے یقین کے ساتھ میدان میں اترتی ہو“ مجھے بیحد خوشی ہوئی کہ ہر مشکل میں فولاد کی طرح ڈٹ جانے والی قوم آج ایک بار پھر متحد ہوچکی ہے اور کورونا کو شکست دینے کے لیے منظم انداز میں احتیاط سے آگے بڑھ رہی ہے۔

وطن عزیز میں کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے اور اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے پورے ملک لاک ڈاون ہے جس کے بعد سبزی، گوشت، کریانہ اور میڈیکل سٹورز کے علاوہ تمام مارکیٹیں بند ہیں۔ سرکاری و نجی دفاتر میں کام محدود یا ان لائن ہوچکا ہے ملک بھر میں ٹرین آپریشن معطل، بیرون ملک کے بعد اندرون ملک فضائی سروس روک دی گئی، پبلک ٹرانسپورٹ بند اور موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ حکومت نے پوری قوم سے 14 روز تک گھروں میں رہنے کی اپیل کی ہے۔

دنیا بھر کے مختلف اسلامی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی تاریخ میں پہلی بار جمعہ کے اجتماعات کو محدود کر دیا گیا لوگوں نے گھروں میں نماز ظہر ادا کی۔ جبکہ پاک فوج اور پولیس کے جوان حکومت کے احکامات پر عمل درآمد کرانے کے لیے پوری طرح مستعد ہیں جبکہ ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف اس جنگ میں صف اول کے سپاہی بن کر کورونا کو شکست دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ گلگت سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان ڈاکٹر اس جنگ میں اپنی جان کا نزرانہ پیش کر چکے ہیں جبکہ ڈیرہ غازیخان قرنطینہ سنٹر میں کام کرنے والے دو ڈاکٹرز میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے مگر ان کی حالت خطرے سے باہر ہے اللہ‎ کریم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ کالم لکھتے وقت ملک میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 15 سو سے زائد ہوچکی ہے جبکہ 16 افراد جاں بحق اور 25 صحت یاب ہوچکے ہیں۔

یہ جنگ صرف حکومت ’فوج، پولیس یا ڈاکٹر اکیلے نہیں لڑ سکتے جب تک پوری قوم اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرے گی۔ بعض شہروں اور کچھ علاقوں میں لوگوں کی غیر ذمہ داریوں اور غیر سنجیدگی کے باوجود یہ بات خوش آئند ہے کہ مجموعی طور پر پوری قوم سنجیدگی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر رہی ہے جس کے نتیجے میں یہ امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ پاکستانی قوم بہت جلد اس ان دیکھے دشمن کو شکست فاش دینے میں کامیاب ہو جائے گی۔

مگر لاک ڈاون کے بعد ہمیں ان سفید پوش، متوسط طبقے، مزدور اور دیہاڑی دار لوگوں کو قطعاً ”نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بہت سے ایسے لوگ جن کا گزر اوقات روزانہ کی آمدنی پر منحصر تھا مگر آج پورا نظام زندگی معطل ہو جانے کے بعد ان کے چولہے ٹھنڈے ہو چکے ہیں وہ دو محاذوں پر لڑ رہے ہیں ایک طرف کورونا وائرس ہے اور دوسری طرف بھوک کا وائرس سر اٹھا رہا ہے ان میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو کسی کے سامنے دست سوال دراز بھی نہیں کرتے۔

گو کہ حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ بہت جلد ایسے افراد کے لیے 3 ہزار کا پکیج جاری کیا جائے گا پہلی بات تو یہ ہے کہ تین ہزار ایک خاندان کے مہینے بھر کے اخراجات کے لیے مذاق سے بڑھ کر نہیں۔ اگر اسی پر امید رکھ بھی لی جائے تو سوال یہ بے کہ جسے آج کھانا چاہیے ہو وہ حکومت کے پیکج کا کب تک انتظار کرے؟

اس کے بچوں کی بھوک صرف حکومت کے اعلان سے تو ختم نہیں ہوسکتی اور نہ ہی وعدوں سے پیٹ بھرا جا سکتا ہے۔ حکومت کو اس سر اٹھاتے سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ مگر اس پہلے ہم سب کو اپنے ارد گرد اپنے محلے، علاقے میں فوری طور پر ان لوگوں کی خبر گیری کرنی چاہیے جو سفید پوش، محنت کش اور دیہاڑی دار لوگ ہیں۔ صاحب استطاعت لوگوں کو آگے بڑھ کر حیثیت کے مطابق ان کی مدد کرنی چاہیے۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے شہر اور پاکستان بھر میں بہت سے لوگ انفرادی طور پر اور مختلف غیر سرکاری تنظیموں نے غریب اور سفید پوش لوگوں کے گھر راشن پہنچانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

مگر جب تک حکومت باقاعدہ یہ کام شروع نہیں کرے گی اس سنگین خطرے سے موثر انداز سے نہیں نمٹا جا سکے گا گوکہ وزیر اعظم نے یقین دہانی کرائی ہے 31 مارچ کے بعد ہم نوجوانوں پر مشتمل ایک ”کورونا ریلیف ٹیگرز فورس“ تشکیل دیں گے جو لوگوں کے گھروں میں کھانا پہنچائیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں آج بھی کھانے کی ضرورت ہے۔ حکومت اس سے پہلے جس ڈیڑھ سو ارب کی امداد کا اعلان کر چکی ہے اسے فوری طور پر جاری کیا جائے اور اسے مقامی انتظامیہ اور سابقہ بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا جائے اس حوالے سے ممبران اسمبلی بھی کردار ادا کر سکتے ہیں جبکہ صاحب ثروت افراد اور این جی اوز کو بھی آگے بڑھ کر سفید پوش، متوسط، محنت کش، مزدور اور غریب لوگوں کے گھروں میں راشن پہنچانے کا انتظام کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کورونا وائرس کو شکست دیتے دیتے بھوک کے وائرس کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments