عمران خان نے دو لاکھ پاکستانی شہریوں کو اللہ کے سپرد کر دیا


وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر پاکستانی قوم کی عظمت کے گن گاتے ہوئے واضح کیا ہےکہ یہ قوم اپنی فراخدلی اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کے حوالے سے یکتا ہے اور اسی صلاحیت کی وجہ سے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ پرانے دلائل دہراتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک بار پھر لاک ڈاؤن کی شدید مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا ایمان اور ہمارے نوجوان اس جنگ میں ہمارے سب سے مؤثر ہتھیار ہیں۔
عقیدہ کو دنیاوی معاملات میں عذر اور سیاسی ناکامیوں کے لئے ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی اس سے بدتر مثال نہیں مل سکتی۔ اگر اللہ پر ایمان و بھروسہ نے ہی پاکستانی مسلمانوں کی حفاظت کرنی ہے تو پھر عمران خان نے قوم کے نام خطاب میں امدادی پیکیج کا اعلان کرنے، کورونا ٹائیگر فورس بنانے، بنکوں میں اکاؤنٹ کھول کر مخیر حضرات سے عطیات دینے کی اپیل کرنے اور ان عطیات پر ٹیکس کی چھوٹ دینے کا اعلان کیوں کیا ہے؟ جو اللہ لاک ڈاؤن کے بغیر اس مہلک وائرس سے پاکستانیوں کی ’حفاظت‘ کرسکتا ہے کیا وہ لوگوں کو خوارک کے بغیر زندہ نہیں رکھ سکتا۔ اگر وزیر اعظم کو یہ یقین ہے کہ پاکستانی اپنے عقیدہ اور اللہ کی مدد سے محفوظ رہیں گے لہذا انہیں کسی قسم کے لاک ڈاؤن کی ضرورت نہیں ہے تو وہ گزشتہ دو ہفتوں سے کورونا سے مقابلہ کرنے کی کون سی منصوبہ بندی کرتے رہےہیں اور اس کی ضرورت کیوں محسوس کی جارہی تھی؟ یہ کام تو اللہ نے کرنا ہے اور اس اللہ پر عمران خا ن کا کامل ایمان ہے۔ اب انہوں نے پاکستانیوں کو بھی اسی کامل ایمان کا مظاہرہ کرنے اور پوری دنیا کے برعکس گھروں میں ڈر کر گھس بیٹھنے کی بجائے باہر نکلنے اور غریبوں کو روزگار کمانے کا موقع دینے کا مشورہ دیا ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ وزیر اعظم کو اپنی ہی باتوں کا تضاد اور اپنی تقریر میں اپنے ہی ملک کے عوام کے لئے چھپی سفاکی دکھائی نہیں دیتی کیوں کہ ان کی انا پسند آنکھوں پر خوشامد پرست مشیروں اور حواریوں نے جہالت کی پٹی کس کر باندھ دی ہے۔ اسی لئے عوام کو ایمان کے سہارے ایک وائرس کے خطرہ سے نمٹنے کی تاکید کرتے ہوئے انہیں یہ یقین نہیں ہوتا کہ اگر اللہ لاک ڈاؤن کے بغیر پاکستانی مسلمانوں کی حفاظت کرسکتا ہے تو وہ غریبوں کو محنت کئے بغیر روزگار بھی دے سکتا ہے۔ وزیر اعظم کی امداد کی اپیل کے بغیر اس ملک کے قرضے بھی اتار سکتا ہے اور عمران خان کے انتخابی وعدوں کے مطابق 50 لاکھ گھر بھی تعمیر کرسکتا ہے اور ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار بھی فراہم کرسکتا ہے۔
اسی تضاد بیانی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کورونا وائرس سے حفاظت کی یہ ’ذمہ داری‘ اللہ تعالیٰ نے صرف پاکستانی ’اہل ایمان‘ کے لئے قبول کی ہے۔ وہ دنیا کے دیگر ملکوں میں آباد کروڑوں مسلمانوں کی زندگیو ں کا محافظ نہیں بنا ۔ شاید اسی لئے سعودی عرب ہو یا ترکی، ایران ہو یا ملائیشیا و انڈونیشیا، وہ عالمی ادارہ صحت اور دنیا بھر کے طبی ماہرین و سائنسدانوں کی ہدایات اور مشوروں پر عمل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ حیرت ہے کہ جس ایمان کا مظاہرہ خادمین حرمین شریفین نہیں کرسکے اور جس کی رمق ایران کی مذہبی قیادت اور ترکی کے اسلام دوست صدر طیب اردوان کے اقدامات میں دکھائی نہیں دیتی، اس کا ظہور عمران خان پر ہوچکا ہے اور اب انہوں نے اپنے اہل وطن کو بتا دیا ہے کہ پاکستان کی اصل طاقت کیا ہے۔ کیا ملک کے محبوب وزیر اعظم اسی طاقت ایمانی کا مظاہرہ ملک کے جوہری پروگرام کو ختم کرکے اور فوج میں کمی کے ذریعے بھی کرسکتے ہیں جو دشمن سے پاکستان اور اس کے عوام کو محفوظ رکھنے کے لئے عوام کا پیٹ کاٹ کر تیار کی گئی ہے۔ پاکستان اور اس کے لوگوں کی حفاظت اگر اللہ نے ہی کرنی ہے تو عمران خان کم از کم دفاعی اخراجات ختم کرکے ہر موقع پر کاسہ گدائی دراز کرنے کی شرمندگی سے تو محفوظ رہ سکتے ہیں۔
نہ جانے پاکستانی لیڈروں اور مذہبی رہنماؤں کا جذبہ ایمانی اس وقت کہاں چلا جاتا ہے جب وہ عسکری اداروں کی چاپلوسی میں ہمہ وقت رطب اللساں رہتے ہیں اور انہیں مملکت خداداد کا محافظ و نگہبان قرار دیتے ہوئے اس ’غیبی امداد اور ایمان کی طاقت‘ کو بھول جاتے ہیں جس کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان نے کورونا کے خلاف جنگ جیتنے کا انوکھا پیغام اہل وطن کو دیا ہے۔ اگر پاکستانی قوم ایمان و یقین کی قوت کی بنیاد پر ایسی وبا کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے جس نے دنیا کے تمام ملکوں کو عاجز و بے بس کردیا ہے تو وہ کسی بھی دشمن کے مقابلے میں اس کی سرحدوں کی حفاظت کیوں نہیں کرسکتی؟ ہٹ دھرمی، انانیت اور سطحی سوچ کے باوجود وزیر اعظم بھی بخوبی جانتے ہیں کہ کسی بھی مقصد کے لئے صرف لا الہ پڑھ لینا اور اللہ پر ایمان کا اقرار کافی نہیں ہوتا ، ا س کے لئے اسباب بھی کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے باوجود جب ایسے سطحی نعروں سے قوم کی سمع خراشی کی جائے تو اس پاٹھ میں دراصل یہ پیغام چھپا ہے کہ پاکستانیوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ان کی 70 سے 80 آبادی پچاس برس سے کم عمر والے لوگوں پر مشتمل ہے جو عام خیال کے مطابق کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کی بہتر قوت مدافعت رکھتے ہیں اور اس کا نشانہ نہیں بنیں گے۔ اس لئے ملک کی بوڑھی اور لاچار اقلیتی آبادی کو اللہ کے بھروسے چھوڑ کر معاملات زندگی معمول کے مطابق ادا کئے جاسکتے ہیں کیوں کہ بوڑھوں کے مرنے سے کوئی ’فرق‘ نہیں پڑتا۔
وزیر اعظم کی تقریر کے اس نکتہ پر غور کرنے سے پہلے البتہ یہ دیکھ لینا چاہئے کہ ملک کے مرکز اور تین صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور اس پارٹی کے چئیرمین عمران خان خود ہیں ۔ پھر پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے سندھ کی نقل کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کرنے اور شہریوں کو گھروں میں رہنے کا پابند کرنے کا فیصلہ کیسے کیا؟ کیا عمران خان یہ بتا رہے ہیں کہ عثمان بزدار اب ان کے سیاسی ’وسیم اکرم‘ نہیں رہے بلکہ براہ راست کہیں اور سے ہدایات لے کر عمران خان کی حکم عدولی کے مرتکب ہورہے ہیں؟ یہ خبریں تواتر سے سامنے آتی رہی ہیں کہ فوج نے عمران خان کی ہٹ دھرمی کے باعث براہ راست معاملات ہاتھ میں لیتے ہوئے سب صوبوں میں لاک ڈاؤن کا اہتمام کروایا ہے تاکہ اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔ اگر عمران خان کا اپنی ہی پارٹی کی صوبائی حکومتوں پر کوئی ’اختیار‘ نہیں ہے تو یا تو انہیں مان لینا چاہئے کہ وہ ایک ناکام وزیر اعظم کے علاوہ پارٹی کے معاملات چلانے کی صلاحیت سے بھی محروم ہیں یا وہ یہ تسلیم کریں کہ پارٹی کی اکثریت تو لاک ڈاؤن کی حامی ہے لیکن عمران خان خود اپنی ہی پارٹی کی اکثریتی رائے سے متفق نہیں ہیں۔ اس طرح ملک و قوم پر اپنی مرضی ٹھونسنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔
دیکھا جائے تو عمران خان کا قوت ایمانی والا بیان دراصل دھوکہ اور ڈھکوسلہ ہے۔ ایمان و یقین کے ساتھ انہوں نے نوجوانوں کی صلاحیت و قوت کا حوالہ دے کر دراصل اپنی افسوسناک غیر انسانی سوچ سب پر آشکار کردی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ملک کی اسّی فیصد کے لگ بھگ آبادی 50 برس سے کم لوگوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ ملک کے 55 فیصد لوگ 35 سال سے کم عمر کے ہیں۔ عام طور سے خیال کیا جارہا ہے کہ اس عمر کے لوگ کورونا وائرس کے حملہ سے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر وائرس ان پر حملہ آور ہو بھی جائے تو بھی وہ اپنی جسمانی قوت مدافعت سے اس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ملکی آبادی کا صرف 8 یا 9 فیصد 55 برس سے زائد عمر لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے بھی ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے لوگ چھ فیصد ، 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی تعداد چار فیصد اور 70 سال سے زائد عمر کے لوگوں کی تعداد دو فیصد ہے۔
نوجوانوں پر عمران خان کے’ بھروسہ‘ کی سب سے بڑی وجہ ملکی آبادی میں ان کی اکثریت اور کورونا وائرس کے مقابلے میں ان کی قوت مدافعت ہے۔ انہوں نے اپنے برزمہروں کے ساتھ مل کر اگر یہ اندازہ لگایا ہو کہ ملکی آبادی کے دو فیصد یعنی چالیس پینتالیس لاکھ لوگوں کو دراصل اس وائرس سے خطرہ لاحق ہے۔ وزیر اعظم خود کہتے ہیں کہ نوے فیصد لوگوں کو وائر س کے حملے سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ اور مرنے والوں کی شرح تین چار فیصد ہوتی ہے۔ وہ اس ’آبادی‘ میں 65 سال سے زائد عمر لوگوں کو شمار کرتے ہیں ۔ ملک میں اس عمر کے لوگوں کی تعداد پچاس لاکھ سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اگر ان میں سے 4 فیصد بھی وائرس کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں تو یہ تعداد دو لاکھ سے کم رہے گی۔ عمران خان دراصل وہی بات کہنے کی کوشش کررہے ہیں جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کھل کر کہتے ہیں ۔ کہ اگر تیس پینتیس کروڑ امریکیوں میں سے لاکھ دو لاکھ مر بھی جائیں گے تو یہ ایسا نقصان نہیں ہے جس پر ملک کو بند کردیا جائے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے عزیز دوست عمران خان نے آج کی تقریر میں دراصل ملک کے دو لاکھ لوگوں کی موت کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ عمران خان بھارتی وزیر اعظم پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ہٹلر اور نازیوں کا حوالہ دیتے رہتے ہیں۔ لیکن جان لینا چاہئے کہ صرف بھارتی جمہوریت ہی عصر حاضر کے ’ہٹلر‘ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ پاکستانی جمہوریت بھی عمران خان جیسا سفاک اور عاقبت نااندیش لیڈر سامنے لائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2765 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments