وزیر اعظم صاحب ڈاکٹروں اور نرسوں کو تنہا نہ چھوڑیں


کالی ایمبولینس آہستہ آہستہ ہسپتال کے احاطے سے نکل رہی تھی۔ ایک عورت نیلے رنگ کے حفاظتی لباس میں ملبوس ایمبولینس کے پیچھے چیخیں مار کر دوڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اور دوسرے لوگ اسے پکڑ کر روک رہے تھے۔ یہ ایمبولینس ووہان [چین] کے اس ہسپتال کے سربراہ کی لاش لے کر جا رہی تھی۔ انہیں اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران کورونا کی بیماری لگ گئی تھی اور اسی بیماری سے ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی اہلیہ اسی ہسپتال میں ہیڈ نرس تھیں۔ وہ کوشش کرتی رہیں کہ بیماری میں اپنے خاوند کے پاس رہیں لیکن ان کی حفاظت کی خاطر ان کے خاوند نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور خود زندگی کی بازی ہار گئے۔

یہ ایک ویڈیو وائرل ہو گئی ورنہ دنیا بھر کے ہسپتالوں میں ہزاروں کام کرنے والوں کو یہ بیماری لاحق ہو چکی ہے اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھی صرف چین میں مارچ کے پہلے ہفتہ تک 3400 ڈاکٹر وں اور نرسوں کو یہ بیماری لگ چکی تھی اور ان میں سے تیرہ موت کے منہ میں پہنچ چکی تھے۔ ان میں سے ایک 29 سال کا ڈاکٹر ایسا بھی تھا جس نے اپنی شادی ملتوی کر دی تھی تا کہ وہ کورونا کے خلاف جنگ میں حصہ لے سکے۔ ایک ہسپتال ایسا بھی تھا جس کے ایک تہائی مریض شعبہ صحت میں کام کرنے والے تھے۔ ڈاکٹروں اور نرسوں کو یہ خطرہ متوقع تھا کیونکہ یہ اس وائرس کی پہلی وبا نہیں ہے۔ 2002 میں اس سے ملتے جلتے وائرس کی وبا چین ہی سے شروع ہوئی تھی۔ اس کو سارس [SARS] کی وبا کہا جاتا تھا۔ دو سال تک اس وبا نے 29 ممالک میں اٹھائیس ہزار افراد کو متاثر کیا تھا۔ اور اس سے متاثر ہونے والوں میں سے بیس فیصد مریض ہسپتالوں میں کام کرتے تھے۔

اٹلی میں یہ وبا بد ترین شدت اختیار کر چکی ہے۔ اور اب تک شعبہ صحت سے وابستہ ڈاکٹروں، نرسوں اور دوسرے کام کرنے والوں میں سے پانچ ہزار سے زائد افراد کو اس بیماری کی تشخیص ہو چکی ہے۔ اور چالیس پچاس موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ ان میں سے اکثریت اس وبا کے شروع میں بیمار ہوئی تھی کیونکہ اس وقت انہوں نے مطلوبہ ماسک، حفاظتی عینکیں وغیرہ نہیں پہنی ہوئی تھیں۔ اور کورونا کے مریض دیکھتے ہوئے وہ خود بھی اس وائرس کا شکار ہوتے رہے۔

اٹلی اور چین کی طرح سپین بھی ان ممالک میں ہے جہاں اس وبا نے سب سے زیادہ شدت اختیار کی ہے اور میڈرڈ کا شہر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ اندازہ لگایا گیا تو انکشاف ہوا کہ بیمار ہونے والوں میں 13 فیصد شعبہ صحت سے وابستہ افراد تھے۔ وہاں کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ نرسوں اور ڈاکٹروں میں یہ بیماری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے مناسب ماسک اور دوسرا حفاظتی سامان نہیں مہیا کیا گیا تھا۔ جو ڈاکٹر اور نرسیں کورونا کے مریضوں کے وارڈ میں کام کر رہے ہیں، وہ ڈیپریشن اور دیگر نفسیاتی امراض کاشکار ہو رہے ہیں، اور سپین میں تو ایک نرس نے خود کشی بھی کر لی۔ اس پس منظر میں اس بات کی ضرورت ہے کہ انہیں غیر ضروری نفسیاتی دبائو سے بچایا جائے۔

خوش قسمتی سے پاکستان میں ابھی تک اس وبا نے وہ شدت اختیار نہیں کی جو یورپ کے بعض ممالک میں اور امریکہ میں نظر آ رہی ہے۔ مگر نرسوں اور ڈاکٹروں میں اس سے متاثر ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ شروع ہی میں گلگت کے ایک ڈاکٹر صاحب کی وفات کی خبر آ گئی تھی۔ اور پھر پاکستان میں ڈاکٹروں کی پوسٹ گراجوئیشن کے ادارے کے کونسلر پروفیسر جہانگیر صاحب کے متعلق اطلاع ملی کہ وہ اس بیماری سے متاثر ہو گئے ہیں۔ یہ کالم لکھتے ہوئے ٹی وی پر یہ خبر نشر ہوئی کہ میو ہسپتال میں ایک نرس کو یہ بیماری لاحق ہو گئی ہے اور ڈاکٹروں نے یہ شکوہ کیا ہے کہ ہمیں حفاظتی سامان نہیں دیا گیا۔

حکومت نے اس وبا سے نمٹنے کے لئے ایک ایکشن پلان کا اعلان کیا ہے۔ اس میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے لئے درکار حفاظتی سامان کی لسٹ بھی دی ہوئی ہے۔ یہ درکار اشیاء ایسی نہیں ہیں جن کو بنانے کے لئے کوئی ترقی یافتہ سائنس درکار ہو۔ این 95ماسک ہیں، آنکھوں کی حفاظت کے لئے عینکیں ہیں اور گائون ہیں جو کپڑے کے بنے ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ابھی تک کم از کم پنجاب حکومت نے اپنے تحت چلنے والے ہسپتالوں میں بھی یہ اشیاء مہیا نہیں کیں۔ لاہور کے بڑے ہسپتالوں میں اگر محدود تعداد میں یہ حفاظتی سامان مہیا کیا گیا ہے تو صرف ایمرجنسی یا آئسولیشن کے عملہ کو مہیا کیا گیا ہے۔ باقی ڈاکٹر اس کے بغیر کام کر رہے ہیں حتیٰ کہ کئی ہسپتالوں میں سکریننگ پر مقرر عملہ کو بھی یہ حفاظتی سامان مہیا نہیں کیا گیا۔

صوبہ بھر کے مختلف اضلاع میں ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال بھی ان سے محروم ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وجہ سے ان ڈاکٹروں اور نرسوں کی زندگیوں کو غیر ضروری خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔ اگر ان میں سے کسی کو یہ انفکشن ہو جائے تو وہ علامات ظاہر ہونے سے پہلے آنے والے مریضوں کو بھی منتقل کر سکتا ہے۔ اس طرح یہ غیر محفوظ ڈاکٹر اور نرسیں اس بیماری کو پھیلانے کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

خاکسار نے گذشتہ کالم میں اس مسئلہ کا ذکر کیا تھا لیکن اب تک یہ مسئلہ جوں کا توں موجود ہے۔ کل پریس کانفرنس میں وفاقی ادارے این ڈی ایم اے کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل افضل صاحب نے صرف یہ ذکر کیا کہ گلگت اور اسلام آباد کے ہسپتالوں کو سامان مہیا کیا گیا ہے۔ یہ ذکر نہیں کیا کہ پاکستان کے صوبوں میں ڈاکٹروں کو یہ حفاظتی سامان مہیا کیا گیا ہے کہ نہیں؟ وزیر اعظم کی تقریر میں اس مسئلہ کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔ یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ چین سے یہ اشیاء 5 اپریل تک کافی تعداد میں آ جائیں گی۔ یہ بحران کئی ہفتوں سے چل رہا ہے۔ مقامی پیداوار کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ جبکہ بلیک مارکیٹ میں مقامی طور پر تیار ہونے والا سامان مہنگے داموں دستیاب ہے۔

اس ضمن میں ایک بات کی نشاندہی ضروری ہے۔ ایک ہفتہ قبل رئوف کلاسرا صاحب کے ایک سوال کے جواب میں عمران خان صاحب نے کہا تھا کہ میں بیس سال مغربی دنیا میں رہا ہوں۔ میں مغربی جمہوریت کو بخوبی جانتا ہوں۔ جس طرح پاکستان کے اخبارات لکھتے ہیں اگر وہاں لکھیں تو وہاں کے قوانین کے تحت توہین کرنے کے جرم میں ان کے اخبار بند ہو جائیں۔ محترم وزیر اعظم !آپ نے درست فرمایا کہ مغربی ممالک میں اخبارات پر ایسے مقدمے بنتے ہیں۔ لیکن انہی ممالک میں کچھ اور قوانین بھی موجود ہیں جن کے تحت حکومتوں پر بھی مقدمات قائم ہوجاتے ہیں۔

اسی بحران کی مثال پیش کرتا ہوں۔ 19 مارچ کو فرانس کے سات سو ڈاکٹروں نے ملک کے وزیر اعظم اور سابق وزیر صحت پر مقدمہ کر دیا ہے کہ انہوں نے اس بحران میں غلط معلومات دیں اور حالات واضح ہونے کے بعد کافی تعداد میں ماسک اور دیگر حفاظتی سامان سٹور کیوں نہیں کیا؟ قانون کی ایک فرم نے چینی حکومت کے خلاف مقدمہ کر دیا ہے کہ انہوں نے حقیقت چھپائی۔ میرے نزدیک پاکستان میں ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ان حالات میں عدالتوں کو اس قسم کے مقدمات کی سماعت کرنی چاہیے۔ ان حالات میں حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہییں لیکن حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ ڈاکٹروں اور نرسوں کو معیاری حفاظتی سامان مہیا کرے۔ اور انہیں اس طرح بے یار و مددگار نہ چھوڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments