ہاتھ دھونے کی الجھن، بے ربط واقعات اور مسئلہ کی شناخت


شیکسپیرٔ کا ڈرامہ، میکبتھ (پانچویں ایکٹ کا منظر)

میکبتھ کے گھر میں لیڈی میکبتھ کے اکسانے پر، میکبتھ کے ہاتھوں بادشاہ ڈنکن کے قتل کے بعد، میکبیتھ بادشاہ بن جاتا ہے لیکن میکبیتھ اور لیڈی میکبیتھ کی کیفیت یہ ہے کہ ایک طرف میکبیتھ کو بھوت نظر آتے ہیں، دوسری طرف لیڈی میکبیتھ کو رات میں کھلی آنکھوں سے بغیر کسی احساس کے، غیر شعوری طورپر، بے خوابی کی کیفیت میں چلنے اور اسی غیر شعوری کیفیت میں اپنے ہاتھوں کو بغیر پانی کے رگڑ رگڑ کر مسلسل دھونے کی بیماری لاحق ہو گئی ہے۔ ہاتھ دھونے کی یہ کیفیت تقریباً ایک گھنٹے کے چوتھائی حصے تک جاری رہتی ہے، اس دوران لیڈی میکبتھ مسلسل بڑبڑاتی رہتی ہے کہ:

اوہ، بد بخت (خون کا) دھبہ، ابھی موجود ہے۔ اے (خون کے ) دھبے، میں کہتی ہوں مٹ بھی جاؤ۔ کیا ہاتھوں سے یہ خون کے دھبے کبھی نہ مٹیں گے؟ ابھی تک ہاتھوں سے خون کی بو آ رہی ہے۔ اوہ، اوہ، اوہ، عرب کی تمام خوشبویئں مل کر بھی، اس چھوٹے سے ہاتھ کو بھی معطر نہ کر سکیں گی۔ اپنے ہاتھ دھو لو۔ اپنا نایٔٹ گاؤن پہن لو۔ زرد چہرہ مت دکھا ئی دو۔ آؤ، آؤ۔ جو ہو چکا ہے اسے اب پلٹنا ممکن نہیں۔

میں دفتر سے واپس آتا ہوں۔ بچے دور سے ہی سلام کرتے ہیں۔ بیوی، دور کچن میں سے ہی کہتی ہے، آپ ہاتھ منہ دھو لیں، میں اس کے کہنے سے پہلے ہی باتھ روم جا چکا ہوتا ہوں۔ رگڑ رگڑ کر ہاتھ دھوتا ہوں، بار بار ہاتھ دھوتا ہوں۔ دونوں ہاتھوں کی اوک بنا کر پانی اپنے چہرے پر ڈالتا ہوں۔ پانی چہرے پر پڑتے ہوئے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتا ہوں، چہرے کو چھو کر گرتا ہوا پانی، آئینے میں ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میرا چہرہ بھی واش بیسن میں بہہ رہا ہے۔

ہر بار پانی چہرے کو چھو کر واش بیسن میں گرنے سے، ہر بار نظر آئینے پر پڑتی ہے اور ہر بار، مجھے اپنا چہرہ بہتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ منہ دھوتا پانی میری شناخت چھین لے گا۔ میں جلدی سے تولیے سے ہاتھ منہ پونجھ باہر آ جاتا ہوں۔ ڈائینگ ٹیبل پر بیوی کھانا لگاتی ہے، بچے اور بیوی ٹیبل پر نہی آتے، سب اپنے اپنے کمروں میں بیٹھ کر، علیحدہ علیحدہ کھانا کھا چکے ہیں۔ بچوں اور بیوی کے منہ اور ناک پر ماسک ہیں، چہرے آدھے چھپے ہوئے ہیں۔ اپنے ہی گھر میں، ہم سب الگ الگ ہیں۔

ٹیلی وژن آن کرتا ہوں۔ چائے کا ایک اشتہار نظر آتا ہے۔ ایک بیٹی اپنے والد کی چائے  کے کپ میں سے چسکی لے کر چائے کو میٹھا کرتی ہے۔ مصالحوں کا اشتہار چلتا ہے کہ اس مصالحے کے استعما ل سے گھر کے افراد انگلیاں چاٹتے رہ جاتے ہیں۔ چینل تبدیل کرتا ہوں۔ کرونا وائرس کی بنا پر معاشرتی فاصلہ قائم رکھنے کی ترغیبِ مسلسل ہے۔ لاک ڈاون کر دیا گیا۔ لوگ باہر نہ جائیں۔ میڈیکل سائنس اس وائرس کو وبا قرار دے رہی ہے۔

لوگوں سے دوری، ماسک سے ناک منہ ڈھانپنا، ہاتھ مسلسل بیس سیکنڈ تک دھونا۔ اس وبا کا حل بتا رہے ہیں۔ مذہبی حلقے خدا کا عذاب قرار دے کر، چھتوں پر اذانیں دے رہے ہیں، پنجگانہ نماز اور وضو کو وائرس کا حل بتا رہے ہیں۔ میڈیکل، دوائیں اور ماسک مہنگے ہو گئے ہیں، مزدور فاقوں پر مجبورہو چکے ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ میڈیا لوگوں سے علیحدگی اور صفائی کی ترغیب میں مصروف ہے، شعرا نظمیں لکھ رہے ہیں۔ انتظامیہ عوامی اجتماع سے منع کر رہی ہے۔ انسان کو انسان سے دور رکھنا ہی، وائرس کا حل تجویز ہوا ہے، ہاتھ ملانا، گلے لگانا، موت کا پیغام بن گیا ہے۔ ایسے میں یہ شعر دماغ میں گھوم رہا ہے کہ:

اے عدمؔ احتیاط لوگوں سے

لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

گلیاں تو سنسان ہو گئیں ہیں۔ پر ایسا مرزا یار، جو جان ہتھیلی پر لئے سنسان گلیوں میں گھوم سکے۔ ایسا کوئی نظر نہی آتا۔ اپنی جان کے تحفظ کے لئے اپنوں سے احتیاط اور دوری کا المیہ بھی قبول ہے۔

ان ملغوبہ واقعات کے بعد آئیے اپنے موضوع کی طرف۔ ایک لمحے کے لئے ان بے ربط واقعات، اشتہاروں، خبروں کو ایک تسلسل میں دیکھیے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ:

اول، وایٔرس کی عالمی وبا پھیلی ہے،

دوم، احتیاط یہ ہے کہ، عام انسانوں سے اور اپنوں سے، دوری رکھی جائے۔

سوم، ناک، منہ ڈھانپا یا چھپایا جائے۔

چہارم، ہاتھوں کو مسلسل دھویا جائے۔

اب بس ایک سوال: ایسا کیا ہوا کہ ایسا مرض پھیلا جس کا حل اپنوں سے دوری، ہاتھ دھونا، ناک منہ چھپانا ٹھہرا۔ ذرا پھر میکبیتھ کی طرف دیکھیے۔ ایک ا حساسِ جرم، ناحق قتل، خون میں لتھڑے ہاتھ، لیڈی میکبتھ کا خیال ہے کہ پانی کی چند بوندیں لہو کے دھبے دھو دیں گی۔ احساسِ جرم کا مابعدالطبعی اثر، بے شعوری کیفیت میں ہاتھ دھوتے رہنا۔ یہ تو تھا ڈرامے کا منظر۔

اور ہم سب کیا کر رہے ہیں؟ وہی ہاتھ دھونا، وہی اپنی ذات مرکزِ سوچ، وہی اپنے پیاروں سے دور ہونا۔ آخر ہمارا جرم کیا ہے۔

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ برائی کو ہاتھ سے روکو، طاقت نہ ہو تو زبان سے روکو، ورنہ دل میں برا سمجھو، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔

عالمی منظر نامہ دیکھیے۔ کتنے علاقوں میں، انسانوں پر ظلم ہو رہا تھا، کتنے معصوم بچے، جو اپنا قصور بھی نہی جانتے، لہو لہان ہوئے، کتنے جوان شہید ہوئے، کتنی عصمتیں لوٹی گئیں۔ بات مذہب اور جغرافیے کی نہیں۔ بس انسان کی ہے، انسانیت کی ہے، درد کی ہے، احساس کی ہے۔ لیکن یہ سب المیے ہمارے لیے محض، خبر اور واقعات بن کر رہ گئے، ہم چپ رہے۔ ان تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کا کوئی حساب نہیں ہے۔ ان المیوں کے گناہوں میں ہم بھی شریک ہیں وہ اس طرح کہ ہم خاموش ہیں۔ اس خاموشی نے کائناتی احساس جرم میں ہمیں مبتلا کر دیا ہے اور تمام خاموش عالم؛ بلا امتیاز، مذہب و علاقہ و سیاست، اپنے ہاتھ دھونے اور اپنوں سے ہاتھ دھونے میں لگا ہوا ہے۔ لیڈی میکبتھ کے نظریے کے مطابق پانی کے چند قطرے لہو کے دھبوں کو دھو دیں گے۔ ’مگر ایسا ہوتا تو نہیں ہے‘ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments