کوروناوائرس: کشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندی بڑا خطرہ


سرینگر میں لاک ڈاوٴن

Getty images

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں کورونا وائرس سے دو افراد ہلاک جبکہ متاثرین کی تعداد تین بچوں اور دو خواتین سمیت پچاس سے تجاوز کرچکی ہے۔

حکومت نے پانچ ہزار سے زیادہ افراد کو قرنطینہ میں رکھا ہے، لیکن تیزرفتار انٹرنیٹ پر مسلسل پابندی کے باعث طبّی عملے کو حفاطتی اقدمات اُٹھانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

انٹرنیٹ پر اظہار رائے کی آزادی سے متعلق عالمی تنظیم انٹرنیٹ فاونڈیشن نے اس سلسلے میں حکومتِ ہند کو خط لکھ کر کشمیر میں تیزرفتار انٹرنیٹ بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

تاہم حکومت ہند نے کشمیر انتظامیہ کے محکمہ داخلہ کو اس پابندی پر حتمی فیصلہ لینے کا مجاذ بنایا ہے، جسکے بعد محکمہ داخلہ کے سیکریٹری شالین کابرا نے اعلان کیا ہے کہ وادی کی سکیورٹی صورتحال کو دیکھتےہوئے ابھی تیز رفتار انٹرنیٹ کو بحال نہیں کیا جاسکتا۔

بی بی سی

پانچ چیزیں جو فوج عالمی وبا سے مقابلے کے لیے کر سکتی ہے

کورونا کے خوف میں تنہائی کیسی ہوتی ہے؟

کورونا وائرس کو عالمی وبا اب کیوں کہا گیا اور اس سے کیا ہوگا

کورونا وائرس: چہرے کو نہ چھونا اتنا مشکل کیوں؟


قابل ذکر ہے کہ کشمیر کی ستر لاکھ ابادی کے لیے فقط 97 وینٹیلیٹر موجود ہیں حالانکہ متاثرین کی تعداد میں روزانہ اوسطاً پانچ افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔

پیر کو حکومت ہند کی وزارت صحت نے کشمیری ڈاکٹروں کے ساتھ وینٹیلیٹرز کی منیجمنٹ سے متعلق ایک ان لائن ورک شاپ کا اہتمام کیا تھا جو تیزرفتار انٹرنیٹ پر پابندی کی وجہ سے نہیں ممکن نہ ہوسکا۔

میڈیکل کالج میں سوشل اینڈ پریونٹیو میڈیسن کے سربراہ ڈاکٹر سلیم خان کہتے ہیں: ’سُست رفتار انٹرنیٹ پر ویڈیو کانفرنسنگ ممکن نہیں ہے۔ یہ مسئلہ صرف ورک شاپ کا نہیں، ہم لوگ اپس میں بھی کارڈنیٹ نہیں کر پاتے۔‘

واضح رہے کہ گذشتہ برس اگست میں کشمیریوں کا اعتماد میں لیے بغیر یکطرفہ طور خطے کی نیم خودمختاری کو ختم کر کے کشمیرکو بھارت کے وفاقی نظام میں ضم کیا گیا تو عوامی ردعمل کو روکنے کے لیے طویل کرفیو، فون اور انٹرنیٹ پر پابندیوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ چل پڑا۔

رواں برس جنوری میں سُست رفتار انٹرنیٹ یعنی ٹوجی کو بحال کیا گیا لیکن اس کے ذریعے ویڈیو کانفرنسنگ یا ویڈیو پیغامات کی ترسیل ممکن نہیں ہے۔

کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لئے پورے انڈیا میں 25 مارچ سے لاک ڈاون ہے، لیکن کشمیر میں 19 مارچ سے ہی عام زندگی معطل ہے۔

کشمیر میں نجی اور سرکاری سکولوں میں فی الوقت پندرہ لاکھ طلبہ و طالبات زیرتعلیم ہیں۔

پرائیویٹ سکول ایسوسی ایشن کے سربراہ جی این وار نے بی بی سی کو بتایا کہ ہمارے سکولوں میں ساڑھے چھہ لاکھ بچے زیرتعلیم ہیں۔ ہم نے سب کے لئے ان لائن کورس ترتیب دیا، لیکن سُست رفتار انٹرنیٹ سے کلاسسز نہیں ہوپارہی ہیں۔ اس وقت پوری دُنیا میں قیامت برپا ہے، حکومت ہند کو چاہیے کہ کشمیر میں کم از کم تیزرفتار انٹرنیٹ کو بحال کرے۔‘

سماجی رضار سمیر ملک نے بتایا کہ کورونا کے خلاف لاک ڈاون کے دوران لاکھوں ضرورتمندوں کی مدد کے لئے وٹس اپ اہم ذریعہ تھا، لیکن حکومت حالات کے اس پہلو کو نظر انداز کررہی ہے۔

کشمیر

سمیر کہتے ہیں کہ ہم نے گذشتہ ایک ہفتے کے دوران پچاس ہزار پانی کی بوتلیں قرنطینہ مراکز میں تقسیم کی ہیں۔ کمبل، سینی ٹائزر اور ماسک بھی اہم ہے۔ انٹرنیٹ کی رفتار تیز ہوتی تو ہم دُنیا بھر میں اپنے دوستوں کو متحرک کرکے وسائل پیدا کرسکتے تھے۔‘

دفاعی اقدامات سے جُڑے ڈاکٹر قاضی ہارون کہتے ہیں کہ ’انٹرنیٹ پر پابندی کی وجہ سے جس کام میں ایک گھنٹہ صرف ہونا تھا اُس میں دو دن لگتے ہیں اور انٹرنیٹ پر پابندی کشمیر میں کورونا وائرس کو دوہرا خطرہ بنا رہی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp