مائیکل کہاں ہو تم؟


قصہ یہ بہت پرانا ہے۔ شاید آدھی صدی پرانا۔ ہمارے محلے میں ایک لڑکا ہوا کرتا تھا۔ نام جان کر آپ کیا کریں گے۔ جو جانتے ہیں انہیں بتانے کی ضرورت نہیں جو نہیں جانتے وہ اسے “ صلّو” کہ کر پکار لیں۔ نام میں کیا رکھا ہے۔ اصل چیز تو کہانی ہے جو میں سنانے جا رہا ہوں۔ اور کہانی بھی کیا ہے. کچھ پرانی باتیں ہیں، کچھ یادیں ہیں.

صلّو مجھ سے ڈھائی تین سال بڑا تھا۔ دبلا پتلا، مناسب قد، گوری رنگت، چہرے کے نقوش بھی اچھے۔ بلکہ کچھ لوگوں کو اس کے چہرے میں اداکار محمد علی کی شباہت نظر آتی۔ ہماری طرح ایک غریب اور سفید پوش گھرانے سے تعلق۔ حرکتیں البتہ ذرا ہٹ کے۔ ہماری گلی سے آگے دو گلیا ں چھوڑ کر صلّو کا گھر تھا۔ اس کی گلی کو اگر گلی کہیں تو شاید وہ ایشیا کی بلکہ دنیا کی سب سے چوڑی گلی تھی، دراصل کوارٹروں کا سلسلہ یہاں ختم ہوجاتا تھا لیکن سامنے ایک چھوٹے سے میدان کے بعد کوارٹروں کی ایک لائن بالکل الگ سے تعمیر کی گئی تھی۔ یہ لائن الگ سے کیوں تعمیر کی گئی تھی یہ سوال اس وقت کبھی ذہن میں نہ آیا۔ صلّو کا گھر شاید اس لائن میں آخری گھر تھا۔ اس کے گھر سے کچھ ہٹ کر ایک پکی سڑک جو کورنگی کے قبرستان اور کورنگی کریک کی طرف سے آتی تھی اور آگے جاکر شاید یہی سڑک نیشنل ہائی وے بن جاتی تھی۔ یہاں ٹریفک بالکل نہیں ہوتا۔ کبھی کبھار کوئی ٹرک یا گدھا گاڑی گذر جاتی۔ سڑک سے دو ڈھائی میل آگے چلو تو پہاڑی سلسلہ تھا جس کے اختتام پر ایک اور سڑک جس کے بعد ابراہیم حیدری گاؤں کا وہ حصہ جہاں مچھلیاں سُکھانے کے گودام اور کارخانے تھے۔ ساتھ ہی بحیرہ عرب اور اس پار ہندوستان تھا۔
پہلی بار صلّو کو دیکھا تو وہ ہماری گلی سے گذر رہا تھا۔ اس کے ساتھ میرے ایک دوست کا چھوٹا بھائی تھا جو کہ مجھ سے ڈھائی تین سال چھوٹا تھا۔ اگر آپ حساب میں اچھے ہیں تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ دونوں کی عمروں میں پانچ یا چھ سال کا فرق تھا۔ دونوں کے ہاتھ میں امتحان دینے والا کارڈ بورڈ کا گتہ تھا جس پر کلپ لگا ہوتا ہے۔ صلّو کے ایک ہاتھ میں ڈالر انک کی دوات بھی تھی۔ یہ دونوں نویں جماعت کا امتحان دینے جا رہے تھے۔ میرے دوست کا چھوٹا بھائی پہلی مرتبہ اور صلو چوتھی مرتبہ۔

“ کتنے پرچے رہ گئے تھے تمہارے؟ “ گلی میں سے کسی نے صلّو سے پوچھا۔
“ سارے ہی دوبارہ دے رہا ہوں “ صلّو نے رسان سے جواب دیا۔ کوئی پہلی بار تو تھا نہیں کہ کسی نے یہ سوال کیا ہو۔

اور جب نتیجہ آیا تو دوست کا چھوٹا بھائی تو پاس ہوگیا۔ صلو بے چارے کے پرچے رہ گئے اور حسب معمول سارے ہی رہ گئے۔ گھر والے بہرحال اس کے عادی تھی۔ صلو کی حسب معمول پھینٹی لگی جیسا کہ لگنے کا حق تھا۔ آخر اس کے ابّا اس نتیجے پر پہنچے کہ ان تِلوں میں تیل نہیں۔ وقت اور پیسہ ضائع کرنے سے بہتر ہے اسے کہیں کام پر لگادیں چنانچہ اسے کورنگی انڈسٹریل ایریا میں ایک ٹیکسٹائل مل میں لگادیا جہاں وہ “ بابن” بھرنے کا کام کرتا۔ یہ ہمیں صلو نے ہی بتایا ورنہ ہمیں کیا پتہ کہ بابن کیا ہوتی ہے۔

گھر والوں کا سلوک ویسا نہیں تھا جیسا ہونا چاہئیے تھا نہ ہی محلے والے کچھ زیادہ عزت افزائی کرتے چنانچہ صلو کی دوستی انسانوں سے زیادہ پرندوں اور جانوروں سے ہو گئی۔ اور پرندے اور جانور بھی کونسے، کبوتر اور کتّے۔ کبوتر اس نے گھر میں پالے ہوئے تھے۔ کبھی ہم دوستوں کے ساتھ بیٹھتا تو اس کی نظریں آسمان پر ہوتیں۔ کچھ دیر بعد اچانک سیٹی مار کر کسی اُڑتے ہوئے کبوتر کو متوجہ کرتا۔ اس کے گھر جب بھی گئے چھت پر کبوتروں کی چھتری تلے، آ، آ، آ کی آواز لگاتا نظر آتا۔

کتّا اس کے گھر پر کوئی نہیں تھا لیکن ایک پڑوسی، جن کا نام شہزاد صاحب سمجھ لیں، کے پاس ایک اونچا سا بل ڈاگ یا بل ٹیریر قسم کا بڑا خوفناک سا کتا تھا۔ محلے والے شہزاد صاحب کے گھر کے سامنے سے گذرتے ہوئے ڈرتے۔ اکثر فجر کے وقت مسجد سے اعلان ہوتا کہ شہزاد صاحب اپنے کتے کو باندھ کر رکھئے، نمازی مسجد میں آنے سے ڈر رہے ہیں۔

صلّو کی شہزاد صاحب سے گاڑھی چھنتی۔ کتا بھی اس سے مانوس تھا۔ وہ اس کی دیکھ ریکھ اور ٹہل سیوا کا فریضہ جی جان سے انجام دیتا۔ شام کو اکثر اس کی زنجیر پکڑے گلیوں میں گھومتا رہتا، شہزاد صاحب کا کتّا اور صلّو سمجھو ایک جان دو قالب ہوگئے تھے۔

ایک دن کام کرتے ہوئے اس کا ہاتھ کسی مشین میں آگیااور بائیں ہاتھ کی ایک انگلی آدھی کٹ کر الگ ہوگئی۔ اسے قریبی سرکاری ہسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے کچھ ایسی سرجری کی کہ کٹی ہوئی آدھی انگلی کو درمیانی بڑی انگلی سے جوڑ دیا۔ کچھ دنوں بعد زخم ٹھیک ہوگیا لیکن اس کی انگلیاں انگریزی کے ( اسمال) ڈی(d) کے مانند ہوگئیں۔ صلّو تھا بھی “ کھبا”( Lefti) . بہرحال اس نے کٹی ہوئی انگلی کے ساتھ جینا سیکھ لیا۔

ان دنوں صدر ایوب خان کے خلاف ہنگامے شروع ہوگئے۔ ہمارے اسکول بند ہوگئے۔ کچھ دن تو ہم ہنگاموں کی خبریں سنتے رہے۔ پھر ایک دن ہم نے ایک کرکٹ ٹیم بنا ڈالی۔ ہمارے پاس ایک ٹوٹا ہوا بلا تھا اور کہیں سے ایک پرانی گیند ہاتھ لگ گئی تھی۔ اس ٹوٹے ہوئے بلے اور پرانی گیند سے ہم دنیا فتح کرنے نکلے۔ ہر بڑے سفر کا آغاز ایک پہلے اور چھوٹے قدم سے ہوتا ہے۔ آپس میں آٹھ آٹھ آنے، روپیہ روپیہ چندہ کرکے ہم ایک سستا سا بیٹ لے آئے اور محلے کی ایک بڑی ٹیم سے اس شرط پر میچ کھیلا کہ سامان ان کا ہوگا۔ “ بڑے لڑکوں” کی ٹیم میں بڑے زبردست کھلاڑی کھیلتے تھے۔ ہم نے بھی محلّے سے باہر اپنی جان پہچان کے لڑکوں کو جمع کیا۔ ہمارے کچھ محلے والے پی اے ایف کورنگی میں کام کرتے تھے۔ وہاں سے دوچار لڑکوں کو بلا لائے۔ بڑی ٹیم سے میچ ہوا اور ہم نے انہیں ہرا ڈالا۔ بڑی ٹیم والے بہت تلملائے کہ ان لونڈوں کو نہ تو بلّا پکڑنا آتا ہے نہ گیند کرانی۔ لیکن بہر حال ہماری ٹیم کا پورے محلے میں چرچا ہونے لگا۔

صلّو ہماری ٹیم کا اسٹار باؤلر تھا۔ وہ بائیں ہاتھ سے تیز گیند کراتا تھا۔ اس کی کٹی ہوئی انگلی اس کا سب سے بڑا ہتھیار تھی۔ دائیں ہاتھ کے بلّے باز کے لئے سیدھی آتی ہوئی گیند ٹپّہ پڑتے ہی مزید دائیں جانب مڑ جاتی اور بلے کا باہری کنارہ لیتے ہوئے وکٹ کیپر یا سلپ کے فیلڈر کے ہاتھوں میں جا پہنچتی۔ بائیں بازو کے بلے باز اسے باہر جاتا ہوا سمجھ کر چھوڑ دیتے اور گیند ان کی وکٹ اڑاتی چلی جاتی۔ لیکن ایسا نہیں تھا کہ ہر گیند پر وکٹ ملتی۔ صلو کی باؤلنگ بھی اسی کی طرح تھی جس کا کوئی الٹا سیدھا نہیں تھا اور کبھی کبھار ہی کوئی گیند لائن پر پڑتی۔ لیکن جو ایک آدھ گیند سیدھی آتی، غضب ڈھا جاتی۔

ہماری گلی کے نکڑ پر ایک نصرت صاحب ہوا کرتے تھے جنہوں نے بی ڈی کا الیکشن لڑا تھا اور ہار گئے تھے۔ لیکن ہمیں پتہ چل گیا تھا کہ ان کے پاس مال ہے چنانچہ ہم نے انہیں اپنی ٹیم کا سرپرست بنادیا اور “ نصرت کرکٹ کلب” کا باقاعدہ قیام عمل میں آگیا۔ نصرت صاحب بہت خوش ہوئے اور لڑکوں کو محنت کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ خوب پریکٹس کرو، رات کو بھی کھیلا کرو، گیس بتِّی کے لئے تیل کا خرچ میں اٹھاؤں گا۔

نصرت کرکٹ کلب اب شہر کی دوسری ٹیموں سے بھی کھیلتی۔ صلو کرکٹ کے ساتھ ساتھ کبوتروں اور کتے میں بھی مصروف رہتا۔ اکثر فارغ وقت میں کتے کو نہلایا بھی کرتا۔ کتے سے اس کی شیفتگی اور الفت دیکھ کر ہم نے اس کا پیار کا نام مائیکل رکھ دیا۔ اب اس کا نام صلو بھول کر سب اسے مائیکل ہی پکارنے لگے اور ہم بھی باقی کہانی میں اسے مائیکل ہی پکاریں گے۔

صلو مائیکل کا نام پا کر بہت خوش تھا۔ ویسے بھی وہ ہمیشہ پتلون قمیض میں ہوتا اور قمیض ہمیشہ پتلون میں اڑسی ہوتی۔ اسے کبھی پاجامہ کرتا میں نہیں دیکھا۔ شلوار قمیض کا تب تک رواج نہیں ہوا تھا اور کراچی والوں نے بھٹو صاحب کے عروج کے بعد شلوار قمیض کو اپنایا۔ ایک دن میچ میں صلو باؤلنگ کرانے جا رہا تھا تو دوسری ٹیم کے اسکورر نے باہر سے پوچھا” بولر نیم ؟” صلو نے مڑ کر جواب دیا “ مائیکل “۔

نصرت کرکٹ کلب اب چل نکلی تھی۔ ہنگامے ختم ہو گئے اور اسکول کالج پھر شروع ہوگئے لیکن ہماری ٹیم قائم رہی۔ محلے میں اچھی رونق لگی رہتی۔ میچ سے ایک دن قبل ہم شام سے “ پچ “ کی تیاری میں جت جاتے۔ رات کو ابّا آتے اور ٹیم کا سلیکشن ہوتا۔ میرے ابّا نصرت کرکٹ کلب کے صدر تھے۔ وہ مسجد کمیٹی کے سکریٹری اور زکوۃ کمیٹی کے بھی صدر تھے۔ محلے کی فٹبال ٹیم کے بھی سرپرست ابا ہی تھے۔ لیکن ابا کی وجہ سے میں اکثر ٹیم سے باہر ہوتا کہ جب کسی کھلاڑی کو باہر رکھنے کی ضرورت پیش آتی تو ابّا میری قربانی دیتے کہ ان پر اقربا پروری کا الزام نہ لگے۔

ان دنوں ایک چیز ہوا کرتی تھی جسے “ شو میچ” یا “ فیسٹول میچ” کہا کرتے تھے۔ یہ میچ کسی قومی چھٹی یعنی یوم پاکستان، یوم آزادی، یوم دفاع یا یوم قائداعظم پر کھیلا جاتا۔ میدان سے باہر شامیانہ لگتا، لارڈ اسپیکر کا انتظام ہوتا، گانوں اور قومی ترانوں کے ریکارڈ بجتے، میچ کی کمینٹری بھی ہوتی۔ ایک مہمان خصوصی کا بھی انتظام ہوتا جو انعامات بانٹتا، تقریر کرتا اور کلب کے لیے عطیے کا اعلان بھی کرتا۔
انہی دنوں ایوب کی حکومت ختم ہوئی اور جنرل آغا محمد یحیی خان نے بادشاہت سنبھالی۔ کچھ دنوں بعد الیکشن کا دھوم دھڑکا بھی شروع ہوگیا۔ ہم نے ایسے ہی کسی قومی دن ایک “ شو میچ” کروایا۔ ہمارے محلے اور ٹیم کے اکثر لڑکے بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی کے حامی تھے۔ ان میں سے ایک قریبی ابراہیم حیدری سے کسی اسمبلی کے امیدوار کو بطور مہمان خصوصی پکڑ لائے۔ نام شاید ان صاحب کا علی محمد، یا ولی محمد جاموٹ تھا۔ ان کی کشتیاں چلتی تھیں جن میں “ غیر ملکی” سامان آتا تھا۔

میچ جاری تھا، ہماری بیٹنگ چل رہی تھی۔ مہمان خصوصی جاموٹ صاحب کھیل ملاحظہ فرما رہے تھے۔ اس وقت اتفاق سے ان کے قریب کوئی نہیں بیٹھا تھا۔ مائیکل بھی پویلئین یعنی شامیانے میں تھا۔ وہ جاموٹ صاحب کی برابر والی کرسی پر آکر بیٹھ گیا۔ ہاتھ میں آدھے سے زیادہ جلی ہوئی “ کے ٹو” سگریٹ تھی۔ معزز مہمان کو بھی سگریٹ کی طلب ہوئی۔ انہوں نے جیب سے سنہرا سگریٹ کیس نکالا اور ایک “ تھری فائیو” سگریٹ منتخب کی۔ میں نے بتایا ناں کہ ان کی لانچیں چلتی تھیں اور غیر ملکی مال آتا تھا۔
سگریٹ نکال کر وہ دوسری جیب میں ماچس ٹٹول رہے تھے کہ مائیکل نے اپنا جلتا ہوا “ ٹوٹا” جو بمشکل ڈیڑھ انچ رہ گیا تھا، فورا مہمان خصوصی کی سگریٹ کے آگے کردیا۔ ہمارا کپتان قریب ہی کھڑا یہ تماشہ دیکھ رہا تھا اور وہ مائیکل کو منع ہی کرنے والا تھا کہ مائیکل اپنا کام دکھا چکا تھا۔ کپتان پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔

پھر ایک دن ہماری ٹیم حیدرآباد میچ کھیلنے گئی۔ ان دنوں کراچی سے کوئی سے بھی ٹیم، چاہے ہماری ٹیم جیسی ہی کیوں نہ ہو، حیدرآباد جاتی تو اس کی ایسی پذیرائی ہوتی گویا انگلینڈ کی ٹیم آگئی ہے۔ شہر بھر میں خبر پھیل جاتی کہ کرانچی سے ٹیم آئی ہے۔ مہمان ٹیم کی خوب آوبھگت ہوتی۔ ہم رات کو اسٹیشن پر اترے تو میزبان ٹیم کے کپتان اور دوسرے لوگ ہار لیے ہمارے منتظر تھے۔ رات ایک اسکول میں ہمارے ٹھہرنے کا بندوبست کیا۔ اگلے دن صبح “ لطیف آباد” میں ہمارا میچ تھا۔

میرے امتحان ہورہے تھے اور میں ٹیم کے ساتھ نہیں گیا تھا لیکن یہ قصہ اتنے تواتر سے اور اتنے عرصہ سنا کہ مجھے یوں لگتا تھا کہ میں ایک ایک بات کا چشم دید گواہ ہوں۔

ابا بھی ٹیم کے ساتھ نہیں گئے تھے لیکن صبح میدان میں ٹاس ہورہا تھا اور دوسری طرف ابا رکشہ سے اتر رہے تھے۔ میرے ابا کا یہ کمال تھا کہ اس زمانے میں جب شاید کسی نے کمپیوٹر کا نام بھی نہیں سنا تھا اور گوگل اور جی پی ایس کا تو کوئی تصور بھی نہیں تھا، ابا کو بس پتہ بتا دو اور وہ ٹھیک اس پتے پر پہنچ جاتے تھے۔

خیر جی میچ تو ہو گیا۔ میزبان ٹیم نے ہماری ٹیم کی خاطر تواضع وغیرہ کی۔ تقریریں ہوئیں اور کراچی اور حیدرآباد کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی باتیں ہوئیں۔ ان دنوں اور شاید اب بھی، کراچی سے حیدرآباد جانے والے وہاں کی دو سوغاتیں لانا نہیں بھولتے تھے۔ ایک حیدرآباد کی مشہور چوڑیاں اور دوسری “ حاجی کی ربڑی”۔ اکثر یہ بھی ہوتا کہ ربڑی کراچی پہنچتے پہنچتے خراب ہوجاتی اور کھانے والوں کو لینے کے دینے پڑ جاتے۔ حیدرآباد کی ایک اور چیز بھی مشہور تھی لیکن اس کے شوقین “ ذرا ہٹ کے” لوگ ہوتے۔

میچ کے بعد لڑکے اسٹیشن روڈ اور مارکیٹ روڈ کے قریب کی گلیوں میں پھیل گئے اور چوڑیوں اور ربڑی کی خریداری میں مصروف ہوگئے۔ انہیں بتادیا گیا تھا کہ شام سات بجے تک سب اسٹیشن پر لازمی جمع ہوجائیں۔

شام ہوئی اور ابا نے لڑکوں کی گنتی شروع کی۔ سب لڑکے موجود تھے، سوائے مائیکل کے۔ دو تین لڑکوں کی ڈیوٹی لگائی کہ مائیکل کو تلاش کریں۔ لڑکے پہلے حاجی ربڑی والے کی طرف گئے، پھر آس پاس کے ربڑی والوں، چوڑیوں والوں کی دکانیں چھانتے پھرتے۔ مائیکل کہیں نہیں تھا۔ لڑکے یونہی ڈھونڈتے ڈھونڈتے “ شاہی بازار” کی طرف نکل آئے لیکن انہیں خبر نہیں تھی کہ یہ جگہ شاہی بازار کہلاتی ہے۔ ایک گلی میں مڑے ہی تھی کہ پہلے ہی گھر سے گھنگرو کی چھنن چھنن اور طبلے کی تھاپ سنائی دی۔ کسی نے بے اختیار دروازے پر لٹکا پردہ ہٹا دیا۔

فلم سٹار رانی نے جیسے انجمن، امراؤ جان ادا اور تہذیب میں کپڑے پہن رکھے تھے، ایسے ہی کپڑے پہنے ہوئے ایک عورت رقص میں مصروف تھی۔ پہلی نظر میں وہ اسے خواجہ سرا سمجھے۔ لیکن جلد سمجھ آگیا کہ کوئی ادھیڑ عمر رقاصہ ہے۔ اس کے سامنے والی دیوار کے ساتھ، گاؤ تکئے سے ٹیک لگائے، گلے میں موتیا کی مالا پہنے اور دائیں ہاتھ سے گلاب کا پھول سونگھتے ہوئے، سفید قمیض پتلون میں ملبوس ایک نوجوان رقص ملاحظہ فرما رہا تھا۔

جی ہاں یہ حضرت ہمارے مائیکل صاحب تھے۔

یونہی تو کوئی یاد نہیں رہتا؟ ہائے مائیکل کہاں ہو تم ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments