کورونا کا سراب اور نیو ورلڈ آرڈر


برطانوی استعماریت کی ابتداء سے لے کر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کی سربراہی میں تشکیل پانے والے عالمی سیاسی و اقتصادی نظام نے دُنیا پر قبضہ کرنے کے مختلف حربوں کا استعمال کیا ہے۔ اٹھارویں صدی کے بعد سے، دُنیا بھر میں، جنم لینے والے بڑے بڑے قحط، وبائیں، جنگیں، بھوک و غربت کو استعماری طاقتوں نے مسلط کر رکھا ہے۔ ایڈم سمتھ کے اقتصادی اُصولوں کو اپنا کر عالمی استعمار نے جب دُنیا کی اقتصادیات کو قابو کیا تو افریقہ، ایشیاء، مشرق وسطیٰ حتیٰ کہ یورپ کے بعض ممالک اور امریکا کی عوام بھی ان سے محفوظ نہیں رہ سکی۔

اقتصادی منڈیوں پر قبضے کی ہوس نے پہلی و دوسری عالمی جنگ مسلط کی اور کروڑوں انسانوں کو ان جنگوں کا ایندھن بنایا، چونکہ استعمار کا مذہب صرف دولت سمیٹنا اور منڈیوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا ہے لہذا انسانیت کا قتل بھی ان کے کاروبار کا حصہ ہوتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا نے انٹرنیشنل آرڈر کا نفاذ کیا اور نائن الیون کا سانحہ برپا کر کے نئی ضروریات کے مطابق نیو ورلڈ آرڈر رائج کیا۔ دو دہائیوں بعد یہ ثابت ہوچکا کہ نائن الیون کا سانحہ استعماری منصوبہ تھا، جس نے عالمی استعمار کی معاشیات کو نیا سہارا دیا، افغانستان، عراق، مصر، شام، لیبیاء اور تیونس میں جنگیں مسلط کرنے کے لیے نائن الیون نے جواز فراہم کیا باقی سب سراب ہے۔ یہ انتہائی باریک نکتہ ہے کہ عالمی استعمار نئے ایجنڈے کے نفاذ کے لیے پہلے جواز پیدا کرتا ہے اور پھر اس جواز کی بنیاد پر اقدامات اُٹھائے جاتے ہیں۔

عالمی استعمار کا مرکز متحدہ ہائے ریاست امریکا ہے، اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر تعمیر کرنے کے لیے ریکیفلیر خاندان نے زمین فراہم کی، یہ وہی خاندان ہے جہاں سے استعماریت کے سوتے پھوٹتے ہیں، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مرکزی دفتر بھی امریکا میں قائم ہیں۔ نصف صدی سے دُنیا کا نظام سیاست امریکی لاٹھی سے چلایا جارہا ہے۔ امریکا نے اپنے تئیں ایک عالمی حکومت تشکیل دے رکھی ہے، اس ضمن میں امریکا نے 2011 ء میں ڈاکٹرائن آف دی آرمڈ فورسز آف یونائیٹیڈ اسٹیٹس جاری کیا، پھر 2017 ء میں ایک توثیق شدہ دستاویز جاری ہوئی۔

یہ دستاویز بتاتی ہے کہ امریکا اقوام متحدہ کو امریکی فوج کے ماتحت ادارہ تصور کرتا ہے۔ کرہ ارض کے کسی بھی بھی علاقے میں امریکا جب سنٹرل ملٹری آپریشنز اینڈ کمانڈ تشکیل دیتا ہے تو اقوام متحدہ امریکی فوجی افسر کے ماتحت کام کرتا ہے، دُنیا کو یونی پولر تصور کے تحت امریکا عملی طور پر چلا رہا ہے تاہم یونی پولر کے تحت چلنے والے عالمی سیاسی و اقتصادی نظام کو اب نئی شکل کی ضرورت ہے، 2007 میں روسی صدر ولادیمر پوتن نے میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں نیو ورلڈ آرڈر کو پہلی بار مسترد کیا اور ایک دہائی بعد جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے ملٹی پولر ورلڈ کا تصور پیش کر دیا۔

انٹرنیشنل آرڈر کے نفاذ کے لئے عالمی مالیاتی ادارے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بہ طور آلہ کار کام کرتی ہیں اور ان کمپنیوں کے مالی مفادات کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کا ایجنڈا امریکی کے تزویراتی مقاصد کے تحت پیدا کیا گیا، 2012 ء میں ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ گلوبل وارمنگ کا تصور امریکا اور چین کے درمیان صنعتی مقابلہ بازی کے تصور کو ہمیشہ ختم کرنے کی خاطر پیدا کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ امریکا ماحولیاتی تبدیلی کے بین الاقوامی معاہدے سے دستبردار ہوا اور پھر ایران اور ترکی نے بھی اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی لیکن اس ایشو پر جس قدر سرمایہ کاری ہوچکی ہے اب یہ سراب حقیقت تصور کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب عالمی سطح پر چین مینوفیکچرنگ پاور ہاؤس کا مرکز بن چکا ہے۔ 1970 میں پہلی بار امریکی صدر رچرڈ نکسن نے چین کا دورہ کر کے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات پر زور دیا، بل کلنٹن، جارج بُش، باراک اوباما نے 1994 سے 2010 تک کی اپنی نیشنل سیکیورٹی سٹرٹیجی میں چین کے ساتھ تعاون کو ناگزیر قرار دیا، لیکن ملٹی نیشنل کمپنیوں کو یہ قبول نہیں رہا۔ چین کے ساتھ سابق سوویت یونین بھی اپنی طاقت کا اظہار کر رہا ہے، چین اپنی دفاعی طاقت کا 80 فیصد اسلحہ روس سے خریدتا ہے۔

افریشیائی ممالک میں بدلتی صورت حال، یورپ کا بدلتا سیاسی منظر نامہ اور وسائل پر قبضوں کے خفیہ منصوبوں نے نئے تقاضے پیدا کر دیے ہیں، یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلاء کے بعد خطے کی پہلی سی سیاسی صورتحال نہیں رہے گی۔ امریکا نے نیٹو کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ اور افریشیائی ممالک کی نئی جغرافیائی سرحدوں کی تشکیل کے لئے دو دہائیوں سے جنگیں مسلط کر رکھی ہیں لیکن مکمل کامیابی نہیں مل سکی۔ اس تناظر میں جب خود امریکی معیشت دباؤ کا شکار ہوئی تو 2009 ء میں مصنوعی معاشی بحران پیدا کر کے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ریلیف پیکجز دیے گئے۔ ٹھیک ایک دہائی بعد دُنیا کو مصنوعی وائرس میں مبتلا کر کے ایک نیا ایجنڈا نافذ کرنے کے منصوبے پر کام شروع کیا گیا ہے۔

درحقیقت نیو ورلڈ آرڈر کو نئی اُبھرتی معاشی طاقتوں نے مسترد کر دیا ہے، افریشیائی ممالک اب امریکی اجارہ داری کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں، چنانچہ دُنیا کی نئے سرے سے تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب نئی تقسیم تین اُصولوں پر کی جائے گی یعنی گلوبل پاور کا مرکز صرف ایک ملک نہیں ہوگا۔ اول؛ نیو پولز آف پاور، دوم؛ ریجنل پاورز اور سوم؛ لارج اکانومیز کی بنیاد پر دُنیا تقسیم ہوگی۔ ایک صدی سے دُنیا کے متعدد ممالک کی حیثیت محض صارف ریاست کی ہے، عالمی استعمار تیسری دُنیا کے ممالک کو اپنی طفیلی ریاستیں تصور کرتا ہے۔

گزشتہ ایک صدی کے سانحات میں سائنسدانوں، ماہرین سیاسیات، اقتصادیات، عمرانیات، مذہبی پیش واؤں اور میڈیا نے بہ طور استعماری آلہ کام کردار ادا کیا ہے چنانچہ عمومی سطح پر بحران یا وباؤں کو قدرتی آفت ڈیکلیئر کرانے کے لیے مذہبی طبقات کی مدد لی جاتی رہی ہے۔ جہاد افغانستان سے لے کر سانحہ نائن الیون، ان کرداروں کا پردہ چاک کر چکے ہیں۔

اب سوال ہے کہ کیا گزشتہ ایک مہینے سے پیدا ہونے والی عالمی صورت حال منصوبہ بندی کا حصہ ہے یا پھر قدرت کا فیصلہ؟ کیا کورونا وائرس ملٹی پولر دُنیا کی طرف بڑھنے کا برتھ سرٹیفیکیٹ ہوگا؟ انسانوں کو نادیدہ خوف میں مبتلا کر کے غلامی کا نیا طوق تیار کرنے کی منصوبہ بندی ایک دہائی سے جاری ہے، اس نئے ایجنڈے میں سائنسدان، حکمران طبقات، بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا بہ طور طاقت استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک نادیدہ وائرس پر 18 مارچ 2015 ء میں بل گیٹس نے اپنی ٹیڈ ٹاک میں سوال اُٹھا کر ایک کروڑ انسانوں کی ہلاکت کی تنبہیہ کی تھی اور پھر سات ماہ بعد اس وائرس کی پروڈکشن پر کام ہوا اور مالی معاونت بل گیٹس کے ادارے گیٹس فاونڈیشن نے کی، یعنی یہ وائرس قدرتی نہیں بلکہ لیبارٹری میں تیار ہوا۔

منصوبہ بندی کے اگلے مرحلے میں، ڈیووس میں 2017 ء کے ورلڈ اکنامک فورم میں بل گیٹس کی کوشش سے کوالیشن فار ایپی ڈیمک پریپئیریڈنیس انوویشن یعنی سی ای پی آئی تشکیل پائی اور دو سال بعد نیو یارک میں اکتوبر 2019 ء کو 201 ایونٹ کرایا گیا یہ نام اس لیے تجویز دیا گیا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ہر سال 200 سے زائد وائرس کے خلاف لڑتی ہے اور ایک نئے وائرس کے اضافے کے بعد اس کی تعداد 201 ہوجائے گی۔ اس لیے ایونٹ کو 201 کا نام دیا گیا۔

مصنوعی طور پر کی جانے والی اس سرگرمی میں حیاتیاتی جنگ کا نقشہ بنا کر دُنیا میں 18 مہینے تک وائرس سے پیدا ہونے والی وباء سے نمٹنے کی مشق ہوئی اور بتایا گیا کہ وائرس سے 6 کروڑ 50 لاکھ انسان ہلاک ہوں گے۔ اس مشق کے دو مہینوں بعد ہی کورونا وائرس کو دُنیا میں چھوڑ دیا گیا۔ اب اس مصنوعی وائرس کو قدرتی آفت یا گناہوں کا نتیجہ تصور کرنا محض حماقت اور خود فریبی کے سواء کچھ نہیں ہے۔

نیو یارک میں کی گئی اس مشق کے شرکاء کا شجرہ بھی قابل غور ہے۔ بہ طور ماہر شرکاء میں چائنیز سنٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کے ڈائیریکٹر جارج فو گاؤ، سابق امریکی صدر اوباما کی ڈپٹی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اور امریکی سی آئی اے کی خاتون ڈپٹی ڈائیریکٹر ایورل ہینس، امریکی ادارے سی ڈی سی کے ڈائیریکٹر ریئیر ایڈمرل سٹیفن سی ریڈ، فارماسوٹیکل کمپنی جونسن اینڈ جونسن کے نائب صدر ایڈریان تھامس اور لفتھانسا گروپ ایئرلائن مارٹن نیوچل شریک ہوئے۔

جانسن اینڈ جانسن وہ کمپنی ہے جس نے ایبولا، ایچ آئی وی اور ڈینگی ویکسین تیار کی تھی۔ ماڈرینا اور کیور ویک اور جانسن اینڈ جانسن کمپنی کو ویکسین کی تیاری کے پراجیکٹ پر کام کرنے کے لیے کوالیشن فار ایپی ڈیمک پریپئیریڈنیس انوویشن کے ذریعے سے دو کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کی فنڈنگ دی گئی۔ ڈبلیو ایچ او میں پہلی بار ایسے شخص کو ڈائیریکٹر تعینات کیا گیا جو گیٹس فاؤنڈیشن میں کام کرتا رہا۔

امریکا، یورپ اور ایشیائی ممالک کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن ہو چکے، دُنیا کا اقتصادی نظام جام ہو گیا ہے۔ بڑی بڑی کارپوریشنز، ملٹی نیشنل کمپنیاں، صنعتیں سب کچھ بند کر دیا گیا۔ اب ذرا سوچیئے کہ وائرس چھوڑ کر دُنیا کا اقتصادی پہیہ روکنے کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا نیو امپیریل ایجنڈا نافذ کرنے کے لیے ایک نیا جواز پیدا کیا گیا ہے؟ عالمی سطح پر بندش کے حقیقی بینیفشری کون ہوں گے؟

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments