وقت عمل کا ہے، الزام تراشی کا نہیں


گزرا ہوا وقت کبھی واپس آ نہیں سکتا اور جو زیاں ہو جائے کبھی اصل صورت بحال ہو نہیں سکتا۔ ماضی کو کوستے رہنے سے حال بھی خراب رہتا ہے اور حال خراب رہے تو مستقبل برباد ہونا بھی لازم ہے۔ پہلے بھی کہہ چکا دوبارہ عرض کیے دیتا ہوں یہ وقت لکیر پیٹنے کا نہیں۔ تفتان میں جو حماقت ہونی تھی ہو چکی، جو نقصان ہونا تھا ہو گیا اب الزام تراشی کا کوئی فائدہ نہیں۔ درست ہے کہ تفتان بارڈر کے ذریعے ایران سے آنے والے زائرین کی واپسی کے معاملے کو جس طرح ہینڈل کیا گیا ابتدا ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب یہی بنا۔

ہر کسی کو علم تھا کہ بلوچستان حکومت کے پاس وسائل ہیں نہ اہلیت کہ وہ ایران سے آنے والے مسافروں کی دیکھ بھال کے لیے مناسب بندوبست کر سکے۔ اس کے باوجود قرنطینہ بنانے کا کام اسے سونپ دیا گیا، جہاں نا اہلی کا عالم یہ رہا کہ بہت سے صحتمند لوگ بھی مرض کا شکار ہو گئے۔ اس ضمن میں بار بار وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں زلفی بخاری، وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو فریق بنا کر درخواست بھی دائر کی گئی کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا جائے لیکن چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دے کر کہ اس وقت ملک کو بڑے بحران کا سامنا ہے، باہمی اختلافات بھلا کر اور اکٹھے ہو کر ہی یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے، درخواست مسترد کر دی۔

اس میں شک نہیں کہ اختلافات اس نازک پر قومی مفاد کے لیے زہر قاتل ثابت ہوں گے لیکن اس سنگین کوتاہی کی تحقیقات ہونا ضروری ہے اور غفلت کے مرتکب افراد کو سزا بھی ملنی چاہیے۔ اس کے ساتھ یہ بھی سوچنا چاہیے تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد میں وائرس کی تشخیص کے بعد پوری جماعت کو ہدف تنقید بنانا قرین انصاف نہیں۔ جن میں وائرس کی تشخیص ہوئی کیا ان حضرات کو بھی گھر سے نکلتے وقت علم تھا کہ وبا پھوٹ پڑے گی، ویسے بھی بہت سے لوگ پہلے ہی گھروں سے نکلے ہوئے تھے۔ اور دنیا میں صرف یہی اجتماع وائرس پھیلانے کا سبب نہیں بنا، اٹلی میں صرف ایک فٹبال میچ سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے۔ ہاں یہ درست ہے کہ جب وبا پھوٹ پڑی تھی اس وقت منتظمین کو صورتحال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اجتماع ملتوی کر دینا چاہیے تھا۔

اپوزیشن کا احساس خوش آئند ہے کہ حکومت کے ساتھ حساب چکتا کرنے کے لیے زندگی پڑی ہے لہذا فی الوقت اس کی ذمہ داری بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کو مثبت تجاویز دینا ہے۔ اسی طرح میڈیا کا اصل کام اگرچہ تجاویز دینا نہیں بلکہ مسائل اجاگر کرنا ہے، لیکن اس موقع پر اس نے بھی ازخود حکومت کے مسائل و وسائل کے پیش نظر ہاتھ ہلکا رکھا اور اب تک اپوزیشن اور میڈیا کی جانب سے مثبت طرز عمل کا مظاہرہ جاری ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف جو کئی ماہ سے اپنے بڑے بھائی کی خدمت کی خاطر لندن میں مقیم تھے، انہوں نے وطن واپسی کے بعد نہ صرف اپنی جماعت کو اس بحرانی کیفیت میں متحرک کرنے کی کوشش کی بلکہ وہ امداد کی خاطر مقدور بھر وسائل بھی بروئے کار لا رہے ہیں۔

وطن واپسی کے بعد ان کی ابتدائی گفتگو زیادہ متاثر کن نہیں تھی مگر اس کے بعد انہوں نے حکومت کو بہت سی مفید و مثبت تجاویز دیں جن پر عمل بہرحال حکومت کے کرنے کا کام ہے۔ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ اس بحران میں جن کی کارکردگی تمام صوبوں کے وزرائے اعلی سے بہتر رہنے کے باوجود وفاقی حکومت نے کوئی تعریف نہیں کی، ان کی پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو جو وزیراعظم کو سلیکٹڈ کہہ کر پکارتے تھے، نے بھی موقع کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے عمران خان کو اپنا وزیراعظم کہہ دیا۔

اس کے بعد عمران خان صاحب کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپوزیشن کے بڑھے ہوئے دست تعاون کا جواب خیر سگالی سے دیتے۔ وہ بہت بڑے منصب پر فائز ہیں اور بڑے منصب کا تقاضا ہے کہ وہ بڑے ظرف کا بھی مظاہرہ کرتے۔ ماضی میں بھی شہباز شریف اور آصف زرداری میثاق معیشت کے لیے حکومت کو غیر مشروط تعاون کی پیشکش کر چکے ہیں وہ موقع بھی ضائع کر دیا گیا تھا اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قومی یکجہتی کے قیام کا یہ موقع بھی وزیراعظم کے نا مناسب رویے سے تقریبا ضائع ہو چکا۔

عمران خان صاحب شاید یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اپوزیشن سے کوئی بات کریں گے تو انہیں ”چوروں لٹیروں“ کو رعایت دینی پڑے گی۔ ان کا یہ خدشہ فضول ہے کیونکہ سیاسی مخالفین کے مقدمات عدالتوں میں ہیں اور وزیر اعظم صاحب کے نہ چاہتے ہوئے بھی مخالفین مقدمات سے بری بھی ہو رہے ہیں اور انہیں رعایتیں بھی مل رہی ہیں۔ کتنا اچھا ہوتا کہ پارلیمانی رہنماؤں کی میٹنگ میں وزیراعظم صاحب اپنی بات کرنے کے بعد اپوزیشن لیڈران کی تجاویز بھی سنتے اور ان کے ساتھ مکالمے کے ذریعے کسی واضح پالیسی تک پہنچ جاتے۔ اس طرح شاید یہ نوبت نہ آتی کہ وزیراعظم صاحب تو لاک ڈاؤن کے مخالف ہیں مگر خود ان کی دو صوبائی حکومتیں صوبہ سندھ کی تقلید میں یہ نافذ کر چکی ہیں۔

وزیراعظم صاحب کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا، اپنے تئیں وہ درست سوچ رہے ہیں اور ان کی فکر بجا ہے کہ ہماری بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے ہے اور لاک ڈاؤن کے نتیجے میں انہیں کھانے کے لالے پڑ جائیں گے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ وہ جن مشیروں میں گھرے ہیں ان کی موجودگی میں زمینی حقائق کی درست خبر ان تک نہیں پہنچ رہی۔ عمران خان صاحب نہ بھی چاہیں حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک میں عملاً لاک ڈاؤن ہے اور تمام کاروبار بند ہیں۔

جس غریب طبقے کے بیروزگار ہونے کی بات وہ کر رہے ہیں ان کی دیہاڑی فیکٹری دکان اور دیگر چھوٹے کاروبار چلنے کی مرہون منت ہے، لہذا ان کے گھروں کا چولہا پہلے ہی گل ہو چکا ہے۔ کوئی ذی شعور خوشی سے ملک کا کاروبار بند کرنے کا مطالبہ کبھی نہیں کرے گا۔ مکمل لاک ڈاؤن پر زور صرف اس لیے دیا جا رہا ہے کہ اس وبا پر قابو پانے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک مکمل ڈاؤن تاکہ متاثرہ افراد دوسروں سے نہ ملیں اور وائرس اپنا لائف سرکل پورا کر کے ازخود ختم ہو جائے اور دوسرا ہے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹنگ۔ دوسرا کام ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی نہایت مشکل ہے اور بائیس کروڑ آبادی بے پناہ رقبے اور محدود وسائل میں ہمارے لیے تو یہ بالکل ممکن نہیں ہو سکتا۔

لے دے کر پہلا آپشن باقی رہ جاتا ہے پہلے ہی کافی تاخیر ہو گئی لہذا جتنا جلد اس پر عمل ہو اتنا بہتر ہے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ایک بہت بڑا طبقہ جنہیں عرف عام میں سفید پوش کہا جاتا ہے، یہ بھی اس وقت بیروزگاری کا سامنا کر رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک ڈیڑھ ماہ ایسے لوگ گھر بیٹھ کر گزارہ کر سکتے ہیں لیکن اگر خدانخواستہ وبا کا عرصہ دراز ہوا تو یہ بھی غربت کی لکیر سے نیچے لڑھک جائیں گے۔ سوچا جائے کہ جو لوگ پہلے سے خط غربت کے نیچے ہیں، ہمارے وسائل انہیں بھی گھر بیٹھے ضروریات زندگی مہیا کرنے کے لیے کافی نہیں، جس کا اعتراف وزیراعظم صاحب کر چکے ہیں تو مزید لوگوں کا بندوبست کس طرح ہوگا؟ اس موقع پر دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ مخلصانہ تجاویز کو حکومت تنقید نہ سمجھے اور کچھ وقت کے لیے سیاسی اختلافات اور گلے شکوے فراموش کرکے متفقہ قومی پالیسی تیار کرنے میں کامیاب ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments