جب غالب ملے بھگت کبیر سے (دوزخ نامہ سے اقتباس)


کبھی کبھی میں آدھی رات کے وقت منیکرنیکا گھاٹ پر چلاجاتا اور اس کی سیڑھیوں پر بیٹھا رہتا۔ کاشی چھوڑ کر جانے کی میری بالکل خواہش نہ تھی۔ گنگا کی ٹھنڈی ہوائیں میرے اندر کی ساری بے اطمینانی اور جنون کو پُرسکون کردیتی تھیں۔ مجھے لگا کلکتہ جاکرکیا ہوگا۔ کیوں میں تھوڑی سی رقم کی خاطر، اس طویل سفر میں خود کومارے ڈال رہا ہوں۔ منیکرنیکا کی چتاؤں کی آگ نے میری ساری نفسانی خواہشوں اور آرزوؤں کو خاکستر کر ڈالا تھا، اور اِس راکھ پر جانے کون لوگ اُوپر سے مخفی طورپر گنگا کا پوتر جل چھڑک رہے تھے۔ حتیٰ کہ میں سوچتا تھا کہ اسلام کا خول اُتار پھینکوں اور ماتھے پر تلک لگاکر، ہاتھ میں جپ مالا لے کر گنگا کے کنارے بیٹھا زندگی گزاردوں، جس سے میرا وجود بالکل مٹ جائے، جس سے میں ایک بوند کی مانند گنگا دیوی کی بہتی دھاروں میں کھو جاؤں۔ ۔ ۔ ۔

منیکرنیکا کے گھاٹ پر بیٹھے ہوئے ذہن کسی کورے کاغذ کی طرح ہوجاتا تھا، جیسے میرا کوئی ماضی نہ ہو، جیسے ایک حیاتِ نو آغاز ہوا چاہتی ہو۔ لیکن مردودشاہ جہان آباد مجھے کیونکر جانے دیتا؟ میں نے اس کا نمک کھایا تھا، مجھے اس کا حساب تو دینا ہی تھا۔ کاشی جیسا روشنیوں کا شہر مجھ ایسے ریاکار کے لیے تھوڑا ہی تھا۔ جس روز میں نے کاشی چھوڑا اس شام میں منیکرنیکا گھاٹ کی سیڑھیوں پر بیٹھا رہا۔ اس رات میں کوٹھے پر بھی نہیں گیا، میں جانتا تھا کہ اگر میں وہاں گیا تو معشوقوں میں پھنس جاؤں گا، پھر وہاں رُکنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا، ۔ ۔ ۔ ۔ میں منیکرنیکا گھاٹ پر بیٹھا یہی سب سوچ رہا تھا کہ میں نے سنا، کوئی گا رہا تھا:

کون مُرلی شبد سُن آنند بھیو

جوت بڑھے بن باتی

بنا مول کے کمل پرگٹ بھیو

پھُلوا پھُلت بھانت بھانتی

جیسے چکورچندرما چتوئے

جیسے چاترک سوانتی

جیسے سنت سُرت کے ہوکے

ہوگئے جنم سنگھاتی

[یہ کیسی مُرلی بج رہی ہے جسے سُن کر سرشار ہوگیا ہوں۔ بتّی نہیں ہے لیکن چراغ جل رہا ہے، جڑ نہیں ہے لیکن کنول کھِل رہا ہے، رنگ برنگے پھول ہنس رہے ہیں۔ جیسے چکور لگاتار چاند کو تکتا رہتا ہے اور چاتک (پپیہا) سواتی کی ایک بوند کی امید لگائے رہتا ہے اسی طرح اس کے پریم (سُرت) میں میرا سنتوں سے عمر بھر کا ساتھ ہے۔ ]

کچھ دُورایک سایہ سا بیٹھا ن۔ ر آیا۔ میں سمجھ گیا وہی گارہا تھا۔ سرہلاتے ہوئے اس نے پھر شروع کِیا:

چرکھاچلے سُرت برہن کا

کایا نگری بنی اَتی سُندر

محل بنا چیتن کا

سُرت باوری ہوت گگن میں

پیڑھاگیان رتن کا

مہن سوت برہن کاتے

مانجھا پریم بھگت کا

کہے کبیر سنو بھئی سادھو

مالاگونتھو دن رین کا

پیا مورا یہیں پگ رکھے ہیں

آنسو بھینٹ دیہوں نین کا

[پریم کی ماری برہن (جو اپنے پریتم سے جدا ہوگئی ہے ) چرخہ چلا رہی ہے۔ جسم کا شہر اپنے سارے جلال و جمال کے ساتھ اُبھر رہا ہے اور اس کے اندر دل کا محل تعمیر ہو رہا ہے۔ آسمان پر پیار کے پھیرے پڑ رہے ہیں اور عرفان کے جواہرات کا بنا ہوا تخت بچھا ہے۔ برہن سُوت کومہین کات رہی ہے اور اس سے پریم اور بھگتی کا عروسی جوڑا تیار ہورہا ہے۔ سنو بھائی سادھو، کبیر کہتے ہیں کہ میں دن اور رات کی مالا گوندھ رہا ہوں۔ جب میرے پریتم آئیں گے اور (میرے گھر میں ) اپنے قدم رکھیں گے تو میں اپنی آنکھوں کے آنسو نذر کروں گا۔ ]

گیت سنتے سنتے میں اس کے پاس چلاآیا اور اس کے پیروں کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔ وہ ایک دُبلا پتلا آدمی تھا جس کے بدن پر سوائے لنگوٹ اور گلے میں تلسی مالا کے اور کچھ نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ وہ گیت نہیں تھا بلکہ جیسے برسوں کی دبی ہوئی سسکیاں تھیں۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور چہرہ آنسووَں سے تر تھا۔ جیسے جیسے وہ گاتا تھا، ویسے ویسے ہی وہ روتا جاتاتھا اور ویسے ویسے ہی اس کا چہرہ چمکتا جاتا تھا۔ اس کی طرف دیکھتے اور اس کا گیت سنتے ہوئے، میں اندرونی طورپرگویا پُرسکون ہوگیا۔ پھر میں بھی اس کے ساتھ گانے لگا، ’چرخہ چلے صورت برہن کا۔ ‘ اس نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا اور ہنس کر کہا، ’کیا مزے کی بات ہے، مرزا صاحب، پریم برہن کا چرخہ چلا ہے تو چلتا ہی جارہا ہے۔ ‘

۔ گرو جی۔

۔ گرو کہاں، میاں، میں تو محض کبیر داس ہوں۔ آپ جس گرو کے داس ہیں میں بھی اسی گرو کا داس ہوں۔

۔ کون ہے وہ گرو؟

۔ میاں، مادّی خواہشات کے ساتھ دل کا پنچھی اِدھر اُدھر اُڑتا رہتا ہے۔ گرو خود کو تب تک ظاہر نہیں کرتا، جب تک کہ عقاب اس پنچھی پر جھپٹ نہیں پڑتا اور اسے اٹھا نہیں لے جاتا۔ تو میاں، کل آپ کاشی چھوڑ کر روانہ ہو جائیں گے، ہے نا؟

۔ آپ جانتے ہیں؟

۔ کبیر جی مسکرائے۔ میں آپ کو روز دیکھتا ہوں، گلیوں میں پھرتے۔ میں روز آپ کو کچھ مزید دیکھتا ہوں، اور تھوڑا تھوڑا آپ کے اندر اترتا جاتا ہوں۔ کسی کو اسی طرح تو جانا جاتا ہے، ہے نا؟

۔ میرے اندر اترتے جاتے ہیں؟ وہ کس طرح؟

۔ غلط کہہ گیا، مرزا صاحب، آپ کے اندر اترنے کی طاقت مجھ میں کہاں۔ یہ جو روشنی کے نشان دیکھ رہے ہیں نا آپ۔ کبیر داس نے انگلی سے اپنی آنکھوں کی طرف اشارہ کِیا۔ نور کے انھی دونوں نشانوں سے چیزیں میرے اندر اُترتی جاتی ہیں۔ اسی کے تعلق سے ایک بار بہت دلچسپ واقعہ پیش آیا، مرزا صاحب۔ یہیں کاشی میں شیخ تقی نام کے ایک پیر ہُوا کرتے تھے۔ انھوں نے سکندرلودھی کے پاس جاکر میری شکایت کی کہ میں لوگوں کو کہتا ہوں کہ میں نے خدا دیکھا ہے۔ کیایہ مسخرا پن نہیں ہے۔ بتائیے؟ مجھ جیسے معمولی داس کو خدا اپنا درشن کیوں دے گا؟ کوئی بات نہیں۔ بادشاہ نے مجھے قید کرنے کے لیے پروانہ بھیج دیا، دربار میں لے جانے کے لیے میرے گھر لوگ آئے۔ میں نے ان سے پوچھا، بادشا ہ کے اتنے بڑے دربار میں مجھ ایسے معمولی آدمی کو کیوں بلایا گیا ہے؟

۔ تمھارے مقدے کی سماعت کی جائے گی۔

۔ جہاں پناہ کا کام فیصلہ صادرکرنا ہے۔ جو انھیں مناسب لگتا ہے وہ فیصلہ کریں۔ میں ہر سزا کو سر جھکا کر ماننے کو تیار ہوں، مگر میں وہاں جاکر کیا کروں گا؟

۔ کیا تمھیں یاد نہیں کہ تم جہاں پناہ کی سلطنت میں رہتے ہو؟

۔ میں تو رام رحیم کی رعایا ہوں۔ میں تو انھی کے راج میں رہتا ہوں۔ تمھارے جہاں پناہ کی لا انتہا سلطنت میں رہنے کی طاقت مجھ میں کہاں؟

۔ تو پھرتمھیں باندھ کر لے جانا ہوگا۔

۔ یہی کرنا بہترہوگا۔ تمھیں اپنا پورا زور دکھانا چاہیے۔ لیکن پہلے میں ذرا نہا لوں۔

۔ کیوں؟

۔ اس گندی حالت میں بھلا میں جہاں پناہ کے دربار میں کیونکر حاضر ہوسکتا ہوں؟

میں نے گنگا میّا کے سینے میں پناہ لے لی جبکہ سپاہیوں کی ٹولی گھاٹ پر بیٹھی انتظار کرتی رہی۔ پانی میں ڈوبے، تیرتے صبح سے شام ہوگئی۔ ادھر سپاہی چلّاتے رہے، مجھے گالیاں دیتے رہے لیکن یار لوگ پانی میں نہیں اُترے۔ جہاں پناہ کی دی ہوئی وردی جو بھیگ جاتی۔

تب لگ بھگ شام ڈھل چکی تھی جب مجھے رسّیوں سے باندھ کر شاہی دربار میں لایا گیا۔ میں چپ چاپ جہاں پناہ کے سامنے کھڑا رہا۔ سپاہیوں سے سارا ماجرا سُن کر جہاں پناہ نے کہا، ’تمھیں صبح لینے بھیجا تھا، اور تم شام کو حاضر ہوئے ہو، نہانے میں تمھیں اتنا وقت لگتا ہے؟ ‘

۔ نہیں، جہاں پناہ۔ میں تو کئی کئی دن نہیں نہاتا۔

۔ تو پھر؟

۔ آج نہاتے ہوئے جو منظر میں نے دیکھا، اسے دیکھنے کے بعد میں پانی سے باہر آہی نہیں پارہا تھا۔

۔ کیا دیکھا تم نے کہ ہزاروں مگر مچھ تمھاری طرف دوڑتے چلے آرہے ہیں؟

دربار قہقہوں سے گونج اٹھا۔

۔ بڑا ہی دلچسپ نظارہ تھا، جہاں پناہ۔ آپ نے سوئی کا ناکہ دیکھا ہے نا؟

۔ سوئی؟ وہ کیا ہوتی ہے؟

۔ گستاخی معاف کیجیے گا۔ بھلا ایک شہنشاہ نے سوئی کیوں دیکھی ہوگی۔ اب میں کیسے سمجھاؤں۔

۔ ’سوئی حاضر کی جائے۔ ‘ سکندر لودھی دھاڑا۔ ایسی کیا چیز ہے یہ کہ جسے میں نے اب تک نہیں دیکھا۔

مجھے ہنسی آگئی۔ ’ہنس کیوں رہا ہے، کافر؟ ‘ شہنشاہ اور زور سے دھاڑا۔ ’ہنسنے کی کیا بات ہے؟ ‘

سمجھے مرزا، جولوگ ہنسی سے بھی مشتعل ہوجائیں ان کے مصائب کی کوئی حد نہیں۔

میں جہاں پناہ کی طرف دیکھتے ہوئے گویا اپنے آپ کو یہ نظم سنانے لگا:

اس نگر کا ہوگا پہری کون

پھیلا ہے اتنا مانس

جس کی کرتا شکن پہریداری

چوہے کی ناؤ، بلّی کھیوے

مینڈک سوئے، سانپ پہرے پہ

بیل بیائیں، بانجھ ہوئی گائیں

ہر سانجھ تبھی بچھڑوں کو دودھ پیائیں

سیارہردن سنگھ سے جوجھے

کبیرکی ورل بانی کسو نہ سوجھے

دربار میں سوئی لے آئی گئی۔ بادشا ہ نے بغور اس کا معائنہ کِیا، اس کے ناکے سے جھانکا۔ پھر وہ میری طرف پلٹا، ’کیا کہہ رہے تھے تم سوئی کے بارے میں؟ ‘

۔ کیا آپ نے سوئی کے ناکے میں سے کچھ دیکھا، جہاں پناہ؟

۔ نہیں۔ سوئی کے ناکے میں سے کچھ دیکھنا ناممکن ہے۔

۔ تو پھر میں عرض کرتا ہوں کہ میں نے کیا دیکھا۔ اونٹوں کی ایک قطار سوئی کے ناکے میں سے بھی تنگ ایک گلی سے چلی جارہی تھی۔

۔ بند کرو یہ بکواس، جھوٹے کہیں کے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments