مقابلے کا وقت


وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کرونا فنڈ اور ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس فورس کے قیام کا بنیادی مقصد وبا کے دونوں میں سخت لاک ڈاؤن میں جسے کہ آج سے مارکیٹ اور دکانیں 5 بجے بند کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ٹائیگر فورس غریب اور مستحق افراد کے گھروں تک راشن اور پہنچانے کا کام کرے گی اس فورس کی رجسٹریشن کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمثان ڈار اس منصوبہ کے نگران ہیں نوجوان رجسٹریشن کروانے کے بعد اس فورس کا حصہ بن سکتے ہیں وزیراعظم کے اس اعلان کو محتلف مکتبہ فکر کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس میں سے کچھ حلقے تو شروع دن سے ہی کپتان پر تلوارہں تان کر کھڑے ہیں اور ان کے ہر عمل پر تنقیدی بیانات جاری کرتے ہیں کچھ حلقوں کی تنقید جائز بھی ہوتی ہے۔ ٹائیگر فورس کے قیام پر سب سے جائز تنقید کے سب سے نکتے کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

آج بڑی شدت سے مقامی حکومتوں کے غیر فعالیت کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔ مقامی حکومتوں کو گلی کوچوں تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ مقامی انتظامیہ گلی کوچوں کے مسائل سے آگاہ ہوتی ہے۔ ہو سی لیول کا چیرمین ہو ناظم اور کونسلر اپنی یوسی کے لوگوں کے ناموں سے نہ صرف واقف ہوتا ہے بلکہ ان کے سماجی اور مالی مرتبے سے بھی آگاہ ہوتا ہے۔ لہذا اس وبا کے دنوں میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت میں مقامی حکومتوں کا نظام سب موثر اور کامیاب ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم کو مقامی حکومتوں کے نظام کو فوری طور پر بحال کر دینا چاہیے اور لاک ڈاؤن میں سختی کے اوقات میں غریب افراد تک راشن کی ترسیل کا کام مقامی حکومتوں کے سپرد کر دینا چاہیے۔ اگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو یہ اہک بہترین تجویز ہے۔ مگر میرے خیال میں وزیراعظم عمران خان اس پر عمل نہیں کریں گے۔ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے ابھی حقیقی بنیادوں میں جمہوری روپے اور جمہوری اصول لاگو نہیں ہوتے بڑے بڑے جمہوریت کے اوتار ہر وقت جمہوریت کے راگوں کا الاپ تو کرتے ہیں مگر ان کے اپنے رویے خاصے غیر جمہوری ہیں مورثی سیاست کے مارے اس سماج میں آج بھی جمہوریت اپنی اصل حالت میں موجود نہیں ہے۔

جمہوریت کا مطلب ہے عوامی نظام۔ پاکستان کے تمام وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں عوام کہاں ہیں جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کا ایک کلب ہے۔ عام آدمی اس کلب تک رسائی نہیں رکھتا اگر چلا بھی جائے ہاں تو ڈاکٹر مبشر حسن کی طرح تائب ہو جاتا ہے۔ ہا پھر جہانگیر بدر کی طرح اپنا طقبہ بدل لیتا ہے۔ آج اگر وزیراعظم عمران خان مقامی حکومتوں کی بحالی کا اعلان کر دیں تو پنجاب میں نواز لیگ کے نمائندے مقامی حکومتوں میں اکثریت میں ہیں۔ کیا تحریک انصاف کی وفاقی اور صوبائی حکومت ان کو فنڈ جاری کرے گی؟ میرے خیال میں ہر گز نہیں کرے گی۔ فرض کریں اگر فنڈ جاری ہو بھی جاتے ہیں تو نواز لیگ اس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استمال کرے گی اور یہی کہے گی کہ وبا کے دنوں میں ہم نے ہی کام کیا ہے۔

تحریک انصاف کے ایم این اے اور اہم پی اے گھر میں دبک کر بیٹھ گئے تھے لہذا تحریک انصاف کی حکومت ایسا کبھی نہیں چاہے گی چونکہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے جمہوری رویے ناپحتہ ہیں تنیوں بڑی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی وبا کے دنوں میں بھی گھٹیا سیاسی رنگ بازی کرنے سے باز نہیں آئیں گی۔

مقامی حکومتوں کی بحالی کی بہترین تجویز پر عمل نہیں ہو سکے گا ہماری سیاسی جماعتوں کا یہ المیہ ہے۔ وہاں سیاسی کارکنوں کی سیاسی تربیت کی طرف توجہ نہیں دی جاتی سٹڈی سرکل نہیں ہوتے کارکنوں کو چھوڑیں سپاس قائدین میں بھی مطالعہ کا رجحان نہیں ہے۔ نظرہاتی کارکن ناپید ہیں مورثی سیاست کی پیداوار ذہنی غلام بکثرت موجود ہیں جو اپنی قیادت کی ہر نا جایز بات کا دفاع کرنے میں پیش پیش ہیں وزیراعظم عمران خان کو ماضی میں نوجوانوں کے ساتھ کام کرنے کا شاندار تجربات ہیں شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر سے لے کر احتجاجی سیاست تک وہ نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ آٹھا چکے ہیں لہذا وہ وبا کے دنوں میں اس روایت کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ہم وزیراعظم عمران خان کے ہر عمل کا دفاع نہیں کر سکتے ان کو بھی اپنے عمل میں تبدیلی لانی ہو گی اب وہ تحریک انصاف کے سربراہ نہیں ملک کے وزیراعظم ہیں ان کو قاہد حزب اختلاف شہباز شریف بلاول بھٹو زرداری اور دوسرے حزب اختلاف کے قائدین سے اہک نشست ضرور رکھنی چاہیے وزیراعظم عمران خان جب بھی قوم سے خطاب کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں ہیں کہ اس ملک میں اقلیتیں بھی بستی ہیں، وہ صرف مسلمانوں کے وزیراعظم نہیں، ہندوؤں مسیحیوں اور سکھوں کے بھی وزیراعظم ہیں اپنے خطاب کے دوران ان کے جذبات کا حیال بھی رکھنا چاہیے وفاقی کابینہ میں اہک غیر مسلم وزیر کا ہونا ضروری ہے۔

میڈیا کے حوالے سے بھی آپنی حکمت عملی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کو اپنے ریلیف پیکج میں صحافیوں کا کوٹہ رکھنا چاہیے ان عناصر کی سرکوبی کرنی چاہیے جو سوشل میڈیا پر سنیر صحافیوں کو گالیاں دیتے ہیں وبا کے دنوں میں وزیراعظم کو تمام مکتبہ فکر کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے یہ مقابلے کا وقت ہے۔ آپس میں لڑائی کرنے کا نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments