بھارت: ہم پندرہ آدمی بھوکے ہیں، مدد کیجئے


میں رمضان شیخ بات کررہا ہوں میں کامسیٹھ گاؤں پونہ نیشنل ہائیوے پہ پھنسا ہوا ہوں میں نے کئی وقت سے کچھ نہیں کھایا ہے میں بھوکا ہوں، ہم لوگ پندرہ آدمی ہیں، یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے میں مغربی بنگال کا رہنے والا ہوں، میری مدد کیجیے۔ میں دھنیش بھگت بات کررہا ہوں سر ہم لوگ تین دن سے بھوکے ہیں ہم گھر لوٹنا چاہ رہے ہیں ہم گڑگاؤں (گروگرام) ہریانہ میں پھنسے ہوئے ہیں میں موتیہاری کا رہنے والا ہوں سر کوئی اپائے کریں۔

میں ونے کمار ہوں اور بنگلور میں پھنسا ہوں سر مدد کیجئے (روتے ہوئے ) مذکورہ بالا دلخراش گفتگو بھارت کے ان محنت کش افراد کی ہے جن کے دم سے جن کی محنت سے جن کے خون پسینہ سے انسانوں کے روز مرہ کی زندگیاں آسان ہوتی ہیں جن کے دم سے گھروں پہ چھت کی ڈھلائی سے لے کر صاف صفائی تک کا نظام رواں دواں رہتا ہے جن کے دم سے زندگی لالہ زار ہے مگر جان جوکھم میں ڈال کر فلک بوس عمارت تعمیر کرنے والا راج مستری مزدوروں، مکانوں کی آرائش و زیبائش میں اپنے ناخن کی نہ پرواہ کرتے ہوئے ٹائلس اور سنگ مرمر بچھانے والے کاریگروں، کل کارخانوں میں ہینڈلوم چلانے والے بنکروں، نت نئے ڈیزائن میں ملبوسات سلنے والے درزیوں، سامان ڈھونے والے جھلی برداروں، سواری ڈھونے والے رکشہ پلروں، آٹو ڈرائیوروں اور اشیائے خوردونوش سمیت دیگر ضروریات زندگی کو ملک کے مشرقی خطہ سے مغرب، جنوب سے شمال تک پہونچانے والے ہزاروں ڈرائیوروں اور لاکھوں غیر منظم کامگاروں و یومیہ مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والے ہزارہاں حادثات ہماری نظروں کے سامنے ہے کہ جب ان مزدوروں کے سروں پہ ایک اعلان کی وجہ کر اچانک سے چھت کا سایہ ختم ہوگیا، راشن پانی ختم ہوگیا، کرایہ داروں نے مکان خالی کروادیے تو یہ ہزارہا مشکلات اور مصائب و آلام کو شکست دیتے ہوئے پاپیادہ اپنے گھروں کی طرف رواں دواں ہوگئے۔

پیروں میں چھالے پڑگئے، تپتے دھوپ میں کیا جوان، کیا بوڑھے کیا بچے سبھی ایک امید کے سہارے آگے بڑھ رہے تھے دنیا دیکھ رہی تھی اور حساس دل لوگ نمناک تھے البتہ کئی وزرا قرنطینہ میں رہ کر مذہبی افیون بانٹنے کی غرض سے راماین سیریل دیکھ رہے تھے۔ دنیا کی عظیم ترین ممالک میں سے ایک بھارت کا یہ اندوہناک چہرہ عالمگیر وبا کورونا سے بھی زیادہ ڈراؤنا اور ہلاکت خیز تھا مگر حکمرانوں کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی۔ جب کورونا وائرس کی وبا کے یش نظر چوبیس مارچ سے اکیس دن کے لیے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا اس کے بعد سے بہت سے لوگوں کے لیے کام کاج اور محنت مزدوری کے مواقع ختم ہو کر رہ گئے ہیں غیر منظم لاک ڈاؤن کے سبب سب سے زیادہ متاثر یومیہ مزدور ہی ہوئے ہیں عوام کی صحت کی خاطر اور طبی نقطہ نظر سے لازم حکومت کے لاک ڈاؤن نے یومیہ مزدوروں کے آمدن پہ ہی روک نہیں لگائی بلکہ رپورٹ اور خبریں اس بات کی شاہد ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد سے ہی یومیہ مزدوروں پہ زندگی تنگ ہوکر رہ گئی ہے ملک کے مختلف صوبوں اور شہروں سے یومیہ مزدوروں کے ذریعہ ویڈیوپیغام اور ٹیلیفون کال سے ان کی بے بسی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

جو قوت لایموت کی فکر میں ہیں جنہیں اپنوں کا درد، اپنوں سے دوری، گھرکی فکر، بچوں کا خیال ہرصبح زندہ درگورکررہی ہے۔ انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے دور میں بھی مدد والی ہاتھ کم پڑجارہے ہیں۔ چونکہ یہ کوئی وقت دو وقت کی روٹی کا مسئلہ نہیں نا ہی یہ دس پانچ لوگوں کے ساتھ ہے۔ گزشتہ مردم شماری کے اعداؤ شمار کے مطابق بھارت میں یومیہ مزدوروں کی تعداد دس ملین ہے۔ اور اب یہ ظاہر ہے بڑھ بھی گئی ہوگئی لاک ڈاؤن کے سبب پھنسے ہوئے مزدوروں کے ساتھ ساتھ اپنے گھر گاؤں میں مقیم محنت کش پہ بھی زندگی تنگ ہے۔

سرکاری اسکیموں کے اعلانات اور نفاذ میں زمین آسمان کا فرق ہے اور این جی اوز کے ذریعہ راحت رسانی اونٹ کے منھ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ ہمیشہ کی طرح اب بھی ہنگامی اور اضطراری صورتحال میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کا رویہ اورسلوک رسمی سا ہے اور مقامی ایڈمسٹریشن کا برتاؤ نوکر شاہوں کی طرح جنہیں اس چیز کی قطعی پرواہ نہیں ہے کہ کیا چیز مررہی ہے کیا چیز جی رہی ہے بلکہ انہیں غرض ہے تو بس نقشوں کو تیار کرنے اور رپورٹ کے سمٹ کرنے سے۔

اس درمیان کورونا وائرس سے جتنی اموات ہورہی ہیں اس کے مقابلہ مزدوروں کے نقل مکانی اور بھوک مری سے موت کے شکار ہونے والوں کی تعداد زیادہ بڑھ رہی ہے اور یہ صورتحال تشویشناک ہے۔ جو سسٹم کی ناکامی کا ثبوت بھی ہے۔ ملک میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد مختلف شہروں میں بے روزگار ہوجانے والے مزدوروں کی وطن واپسی کی ہوڑ کے دوران اب تک کم و بیش بیس مزدوراوران کے اہل خانہ اپنی جان گنواچکے ہیں۔ جن میں کئی بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔

مخلتف میڈیا رپورٹ کے مطابق دہلی سے مدھیہ پردیش کے مورینہ کے لئے پیدل ہی چل پڑا ایک شخص تین سوکلومیٹر کا طویل سفر طے کرنے کے بعد آگرہ میں اچانک گرا اور دم توڑ گیا۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق رنویر سنگھ نامی یہ اونچاس سالہ نوجوان ایک ہوٹل میں ہوم ڈلیوری بوائے کے طور پر کام کرتاتھا۔ لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد ہوٹل بند ہوگئی اور بے روزگار ہونے کے بعد جمعرات کووہ اپنے دیگر دو ساتھیوں کے ساتھ پیدل ہی گھر کے لئے نکل پڑا ہفتہ کو آگرہ پہنچتے پہنچتے اس کے سینے میں درد ہوا اور وہ ہائی وے پر ہی گر گیا۔

قریب واقع ایک دکاندار نے اسے بچانے کی کوشش کی، اسے پانی اور بسکٹ پیش کیا رنویر نے اپنے ایک عزیز کوفون لگایا، اپنی حالت بتائی اور پھرہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بہت زیادہ تھک جانے کی وجہ سے اسے دل کا دورہ پڑا ہے۔ وہ اپنے پیچھے تین بچوں کو بے سہارا چھوڑ گیا جن کا پیٹ بھرنے کے لئے وہ گزشتہ تین سال سے دہلی میں ملازمت کر رہا تھا۔ اس کے بھائی نے روتے ہوئے بتایا کہ رنویر جمعرات کو علی الصباح تین بجے اپنے پیدل سفر پر روانہ ہواتھا جو اس کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا اسی طرح ہریانہ سے پیدل اپنے گاؤں لوٹ رہا مہاجر مزدوروں کا ایک چھوٹا ساخاندان کنٹینرکی زد میں آکر ہلاک ہوگیا۔

یہ حادثہ ہریانہ کے بلاسپور علاقے میں پیش آیا ہے پانچ مہلوکین میں ایک خاتون اور دو بچے شامل ہیں اس سے قبل جمعہ کو ایک باسٹھ سالہ شخص گجرات کے سورت میں اسپتال سے پیدل گھر واپس ہوتے ہوئے فوت ہوگیا۔ ا سپتال سے گھر جانے کے لئے کوئی سواری نہ ملنے پر گنگارام اپنے بیٹے کے ساتھ پیدل ہی نکل پڑے۔ پنڈے سارا میں اپنے گھر کے قریب پہنچ بھی گئے مگر اس سے قبل کہ گھر پہنچ جاتے وہ بے ہوش ہوکر گر گئے۔ عوام کی صحت کے پیش نظر اور ہلاکت خیز کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے جس ہڑبڑاہٹ میں ملک گیر لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا گیا اس سے ہونے والے اموات، یومیہ مزدوروں کی نقل مکانی، بیروزگاری، بھوک مری اور اس جیسے ہزارہا مسائل ہیں جس پہ اب بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔

حالات کنٹرول میں کیے جاسکتے ہیں۔ مزید ہلاکت کو روکا جاسکتا ہے، بے گھر ہوچکے مزدوروں کو قیام طعام کی بہترین سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ اگر سرکار مخلصانہ طور پر اقدامات کرے۔ مثلاً :مزدوروں اور بیروزگاروں کے لئے جو ہلیپ لائن نمبر جاری کیے گئے ہیں وہ ناکافی اور ناکارہ ہے ان نمبرات پہ کال کبھی نہیں لگتا لہذا از سرے نو نمبرز جاری کیے جائیں جو فوراً سے پیشتر جوابدہ ہو۔ اسی طرح صرف ہلیپ لائن نمبر جاری کرنے سے کسی کا بھلا نہیں ہوسکتا ہے۔

اس کے لئے باضابطہ طور پہ کام کرنے کی اشد ضرورت ہے سرکار اور سسٹم کو ذرائع کی کمی نہیں ہوتی ہے بس تندہی کے ساتھ مزدوروں کو ٹریک کرنے اور تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کام کو ریاستی حکومتیں اپنے طور پہ احسن انداز میں انجام دے سکتی ہے۔ اور یہ لازمی بھی ہے کہ مزدوروں کے ساتھ ساتھ سرکار تمام شہریوں کے تحفظ کا فریضہ سر انجام دے تاکہ وبا کے دنوں میں کم ازکم کوئی بھوک سے نہ مرے !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments