کرونا: آئیے خود کو بدلیں


زندگی ایک تسلسل سے چل رہی تھی۔ مادیت پرستی، دہریت، پیدا کرنے والے سے دوری، سود کی شکل میں اللہ اور اللہ کے رسول سے جنگ، بے ایمانی اور کرپشن عام تھی۔ جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم ہے، اُنھیں توڑا جا رہا تھا اور جس تعلق سے اللہ بیزاری کا اظہار کرتا ہے، اُسے جوڑنے کے لیے، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا۔ سب سرگرمِ عمل تھے۔ نماز جس نے ہر برائی سے بچانے کا فریضہ سرانجام دینا تھا، اسے ادا کرنے والے خال خال تھے۔

مساجد خالی ہوتی جا رہی تھیں۔ صفیں کم ہوتی جا رہی تھیں۔ قرآنِ پاک کو طاق پہ رکھ کے بھلا دیا گیا تھا۔ اسے سمجھ کے عمل کرنا تو دور کی بات، تلاوت کرنے سے بھی گئے۔ دور والوں سے نزدیک اور قریبی رشتوں سے دوریکی وجہ سے بوڑھوں، بیواؤں، یتیم اور بے سہارا بچوں کے اداروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ عریانیت، اور زنا کی مختلف قسموں نے گھر سے بھاگی لڑکیوں اور بے نام و نشان بچوں کی شکل میں انسانی معاشرہ کے ماتھے کو داغدار کر دیا تھا۔

اگر میرا گزارہ نہیں ہوتا تو مجھے حق ہے کہ میں دو نمبر طریقے اختیار کروں۔ ’ارے بھئی ”اِن چیزوں“ (تعیشات) کے بغیر کیسے جیا جا سکتا ہے! ”“ اب بچوں کو یہ سب لے کے دینا تو مجبوری ہے۔ ”اور اِس مجبوری کے لیے ہم کتنے ہی مجبور لوگوں کی جمع پونجی لوٹنے پہ مجبور ہیں۔ فیشن اور تعیشات کی دوڑ نے فضول خرچی کو اِتنا پروان چڑھا دیا ہے کہ ہم نے قریبی رشتوں اور پڑوسیوں کے حقوق سے منہ موڑ لیا۔ مہمان کی تعظیم تو گئی سو گئی، ہم نے بد اخلاقی کے ریکارڈ قائم کر دیے۔

آڈٹ والے گرمیوں کے موسم میں بھی دوسری ہزارہا چیزوں کے ساتھ جب تک کاجو نہیں کھالیتے، آپ کاجائز آڈٹ بھی ”ناجائز“ بنا سکتے ہیں۔ خزانے میں بیٹھے ہوئے اپنی اپنی جیب کے خزانے خوب بھرتے ہیں۔ دفتر کے ماتھے پہ ”رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ “ حدیث لکھ کے اندر دونوں ہاتھوں سے جہنم کا ایندھن بڑے دھڑلے اور شوق سے خریدا جاتا ہے۔ باپ اپنی بیٹی، بھائی اپنی بہن، بیٹا اپنی ماں اور شوہر اپنی بیوی کے ساتھ باہر جارہا ہے اور ساتھ جانے والی خواتین کے آدھے بازو عریاں ہیں۔ ٹائٹس میں ”لیگ پیس“ نمایاں ہیں اور یہ رشتہ دار مرد دوسرے مردوں کے ساتھ آئی خواتین کو دیکھ کے آنکھیں سینک رہے ہیں۔ برقعہ، چادریں تو ایک طرف رہیں، دوپٹے سروں سے اُتر کر کندھوں پر آئے اور اب بالکل ہی اُتر گئے۔ ”تھری پیس“ سوٹ اب ”ٹو پیس“ رہ گیا۔

ہر دور کی طرح اِس دور میں بھی ظالم اور مظلوم۔ دو کردار تھے۔ انفرادی بھی اور قومی سطحوں پہ بھی۔ کہیں پوری قوم مظلوم تھی اور ظالم کا کردار کسی ملک کی حکومت ادا کر رہی تھی۔ کہیں کسی قوم کے کچھ گروہ ظالم تھے اور کچھ مظلوم۔ کسی مسلمان ملک کو اپنے ہی مسلمان ملک سے شکایات تھیں اور کوئی اسلامی ملکمسلمانوں ہی کے کسی ملک کے خلاف برسرِپیکار تھا۔ ۔ عراق، افغانستان کھنڈر بن گئے۔ روہنگیا کے مسلمان آسمان کی طرف منہ کیے شکوہ کناں تھے۔

اُن کا کوئی وطن نہیں۔ ایغور مسلمان اپنی مسلم شناخت سے محروم بے پناہ مظالم برداشت کرنے پہ مجبور تھے۔ فلسطین، لیبیا، یمن، بھارت کے مسلمان۔ غرض چند ممالک کے مسلمانوں کو چھوڑ کے اکثریتبے پناہ مظالم و مشکلات کا شکار تھی۔ کشمیریوں کو اپنے ہی وطن میں بے وطن ہوئے زمانے ہونے کو آئے۔ اب تو اُنھیں اپنے گھروں میں محصور ہوئے بھی آٹھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا۔ اُنھیں پانچ وقت کی نمازوں کے ساتھ جمعہ کی نماز کی اجازت بھی نہیں۔

حد یہ کہ اپنے پیاروں کو بغیر کفن، اور شاید بغیر نمازِ جنازہ کے وہ اپنے گھروں میں دفنانے پہ مجبور ہیں۔ اُن کے گھروں میں کھانے کے لیے کچھ نہیں۔ بیمار دوا سے محروم ہیں۔ عورتیں اپنی عزتوں سے محروم، منجمد آنسوؤں کے ساتھ آسمان کو تکتی ہیں۔ ماؤں کے جوان بیٹے بھارتی سُورماؤں کے غیر انسانی مظالم کو سہتے اللہ کو پکارتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ یہی سوچا کہ یہ تو ”پڑوس“ کا معاملہ ہے، میرا نہیں۔ یہ ”اُس“ کی جنگ ہے، میرا کیا لینا دینا۔

”کسی“ کے ”ذاتی“ معاملات میں دخل ہمیں زیب نہیں دیتا۔ وہ ”زینب“ تو اُس کی ہے، میری ”زینب“ تو محفوظ ہے۔ میرا وطن ”آزاد“ ہے۔ میں سکون سے ہوں۔ ”اُن“ کو مسجدوں میں نہیں جانے دیا جاتا تو خیر، میرے وطن کی مساجد تو ہُلی ہیں۔ (چاہے میں جاؤں یا نہ جاؤں ) ۔ ”اُن“ کو گھروں میں قید کیا ہے، ہم تو شکر ہے آزادی سے ہر جگہ آ جا سکتے ہیں۔

پھِر کیا ہوا؟

کِس مظلوم کی آہ عرش چیر گئی؟ ایک ننھی زینب نہیں، کتنی ہی ننھی زینبیں ہوس کی بھینٹ چڑھ کے اللہ کے غضب کو پکارتی اِس دنیا سے اُس دنیا کو چلی گئیں۔ وہ شامی بچہ تو دنیا کو یاد ہی ہوگا جس نے کہا تھا کہ میں اوپر جا کراللہ کو سب بتا دوں گا۔ لگتا ہے واقعی اُس نے اللہ کو سب بتا دیا۔

کس کشمیری نے اپنے پیارے کے لاشے کو اپنے گھر کے صحن میں دفناتے آسمان کی طرف دیکھا تو آسمان والے نے ہم پہ غسل، کفن، نمازِ جنازہ اور اپنے پیاروں کے کاندھے پہ سفر کو حرام کر دیا۔

آٹھ مہینوں سے زائد عرصہ سے محصور، خوراک اور دواؤں سے محروم سسکتے، بلکتے مجبور و بے کس لوگوں نے سوچا ہوگا کہ شاید اقوامِ متحدہ ہمارا مسئلہ حل کرے گی۔ شاید عالمی ضمیر جاگے گا۔ کوئی اور نہ سہی، ہمارے مسلمان بہن بھائی ہمارے لیے ضرور کچھ کریں گے۔ اور اتنے عرصہ انتظار کے بعد اُنھوں نے جِن مایوس نگاہوں سے رب کی طرف دیکھا ہوگا تو رب نے مسلمانوں سمیت پوری دنیا کو نامعلوم مُدت کے لیے لاک ڈاؤن کر دیا۔

ہم نے اللہ کے گھر جانا چھوڑا اور چین اور کشمیر کے مسلمانوں کے ماتھے مسجدوں کی صفوں پہ سجدوں کے لیے ترسے تو اللہ نے ہم پہ اپنے سب گھروں سمیت خانہ کعبہ کے دروازے بھی بند کر دیے۔ اور ”رحمت العالمین“ کے روضہ کی زیارت سے بھی محروم کر دیا۔

اِتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد کیا ہم بدلنے کے لیے تیار ہیں؟

جِن کے ماتھے کل سجدوں سے محروم تھے، آج بھی اُن میں سے بیشتر تساہل کا شکار ہیں۔ کل جِن کا زیادہ وقت ”دُور“ کے لوگوں کے ساتھ سوشل میڈیا پہ بیتتا تھا، آج بھی وہ نیٹ کی رفتار زیادہ ہونے کے متمنی ہیں۔ جو کل ”گیجٹس“ پہ بیٹھتے تو اُٹھنے میں رات بِتا دیتے تھے، اب بھی وہ ناشتہ بارہ بجے تناول فرماتے ہیں۔ جن کے دستر خوان کل چار ڈشوں سے سجتے تھے اور انھیں کسی مستحق، کسی ضروت مند کی فکر نہیں ہوتی تھی، آج بھی وہ مطمئن ہیں۔ سیر ہو کے دستر خوان سے اُٹھتے ہیں۔ اب بھی قرآنِ پاک تھوڑی سی تعداد میں ہی کھُلتے ہیں۔ باقی بند پڑے ہیں۔ فارورڈنگ کرنے میں ہی تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے والے آج بھی ”ذکر“ سے محروم ہیں۔ ابھی بھی ببچوں سے زیادہ والدین اور دیگر بزرگ توجہ کے اُتنے ہی تمنائی ہیں، جتنے پہلے تھے۔

کتنے لوگ بزرگوں کے اداروں سے اپنے پیاروں کو لے گئے؟

کتنے یتیموں کو اُن کے چچاؤں، پھپھیوں، خالاؤں، ماموں اور دیگر رشتوں نے لا کر اپنے گھروں کو اللہ کی رضا سے مامور کیا؟ ْ

ہم میں سے کِتنے لوگوں نے اللہ اور اللہ کے رسول سے جنگ سے توبہ کی؟

اللہ کا نام، مقدس آیات اور اللہ کے رسول کا نام گلیوں، راستوں میں پڑا ہمارا انتظار کرتا تھا کہ ہم اُس مقدس کاغذ کو اُٹھائیں گے، چومیں گے، اور ماتھے سے لگائیں گے، آج بھی وہ کاغذ انتظار میں ہے۔

کیا ہم نے اپنے پیدا کرنے والے سے پُختہ عہد کیا کہ ہم آئندہ اپنے اعمال بہتر کریں گے۔ مہمان کی تعظیم کریں گے۔ خواتین خود کو ڈھانپ کے رکھیں گی اور مرد اپنی نظروں پہ پابندی لگائیں گے۔

رشوت دینے، لینے پہ ہم میں سے کتنے شرمسار ہوئے؟

آج بھی اے ٹی ایم سے رقم نکال کر ہم سینیٹائزر اپنے کپڑوں میں چھُپا لے جاتے ہیں۔ گاڑی سے اترتے ہیں اور اے ٹی ایم سے سینیٹائزر اُٹھا کے لے جاتے ہیں۔

غیر مُلکی ”منرل واٹر“ نہ ملنے پہ آج بھی ہم تکبر سے سر اُٹھائے کسی بہترین سُپر سٹور کی تلاش میں چل دیتے ہیں۔

آج بھی ہمارے ماتھے پہ تکبر و گھمنڈ کی لکیریں ہیں۔

ضرورت مندوں کے لیے آنے والا راشن ہمارے گھروں میں استعمال ہو رہا ہے۔ گرانٹ میں آنے والے ماسک سب سے پہلے ہم خود استعمال کرتے ہیں اور پھر اپنے رشتہ داروں کو تحفہ میں دیتے ہیں۔

عاجزی اور انکساری تسبیح کے دانوں پہ محض ذکر کرنے سے نہیں آتی۔ اِس ذکر کو دل میں بسانے سے آتی ہے۔ کسی غریب کی مدد کر کے آتی ہے۔ اپنے دسترخوان سے ایک ڈش کم کر کے جب ہم کسی ضرورت مند کے دستر خوان کو آباد کرتے ہیں تو ہمارے دستر خوان سے اُٹھنے والے ہر شخص کے معدہ میں جانے والے نوالے اُس کی صحت کے ضامن بن جاتے ہیں۔ مہمان کی آمد پہ جب ہم مہکتے لہجوں سے خوش آمدید کہتے، ا اپنے گھر کے بہترین برتن، بہترین بستر، اپنی استطاعت کے مطابق بہترین کھانے کی چیزیں پیش کرتے ہیں تو رب ہم پہ اور فیاض ہوتا ہے۔ ہماری بیماریاں دُور، ہماری خطائیں معاف اور ہمارا دستر خوان وسیع کرتا ہے۔

اللہ رب العزت نے اِس وبا کو نازل کر کے ہمیں پیغام دیا ہے کہ بدلنے کے لیے ابھی وقت ہے۔ ابھی کچھ ساعتیں ہیں کہ ہم اپنے ”منفی“ کو ”مثبت“ بنا کر کرونا ٹیسٹ کے نتیجہ کو ”منفی“ کر سکتے ہیں۔ ہم نے اِس وبا سے ”لڑنا“ نہیں ہے۔ اللہ کی نازل کی ہوئی آفت سے ہم لڑ ہی نہیں سکتے۔ ہم نے خود کو دائمی طور بدل کے، اُونٹ باندھ کے توکل کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments